انسانوں کی زندگی میں لفظ ثقافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نیورو سائنس دان کہتے ہیں کہ آپ کے جذبات تک پر آپ کی ثقافت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہر ثقافت میں غصہ، نفرت، محبت، غم وغیرہ کے اظہار میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ آپ اپنی شناخت (Identity) بنانے کے لیے بھی ثقافت کے محتاج ہوتے ہیں۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
آج یوں اچانک میں ثقافت پر بات کیوں کررہی ہوں……؟ اس کے پسِ پشت ایک گہری وجہ ہے۔ اور وہ ہے ایک پشتو گانے کی وڈیو، جسے دیکھ کر میرے ذہن میں کئی سوال اُبھرے اور شاید تھوڑا غصہ بھی آیا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ میری جانب داری ہو، لیکن ثقافت اور انسانی رویوں سے منسلک حقیقتوں کو مَیں نے بھی دیکھا اور تجربہ کیا ہے۔ کچھ کڑوی حقیقتیں میرے علم میں بھی ہیں۔ البتہ اگر جانب داری کا عنصر ہوگا بھی، تو میری کم علمی کی وجہ سے ہوگا، انا کی وجہ سے نہیں۔ شاید باقی ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اس آرٹیکل سے خود کو منسلک کرسکیں، یا بہت ممکن ہے کہ یہ صرف پشتونوں پر پورا بیٹھتا ہو، اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر منحصر ہوتا ہے یقینا……!
ثقافت بے شک بہت اہم ہوتی ہے، لیکن یہ کوئی پتھر پر لکیر نہیں۔ یہ بدلتی رہتی ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف ثقافتوں کا راج ہوتا ہے۔ کچھ دور کسی ایک ثقافت کے حق میں بہتر، تو کسی کے حق میں برے ثابت ہوتے ہیں۔ آپ کی اقدار اور رواج اگر ایک جگہ آپ کو فائدہ دیں، تو دوسری جگہ ان کی کوئی عملی اہمیت نہ ہونے کا عمل آپ کو نقصان دیتا ہے۔
اس وقت سب سے اہم، طاقت ور اور برتر ثقافت کا نام ہے معیشت…… اُسی ملک کی ثقافت، اُسی کے فن کا بول بالا ہے، جس کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ امریکہ، کوریا، انڈیا، وغیرہ اس کی بہترین مثال ہیں۔
سوات کے پہاڑوں میں رہ رہی پشتون پڑھی لکھی لڑکیاں پشتون کلچر کو نہیں بلکہ ’’کے پاپ‘‘ (k-pop) اور امریکہ کے مختلف پاپ اسٹارز کو فالو کرتی ہیں (سوشل میڈیا کی دین ہے کہ آپ کسی بھی ملک کے ستاروں کو دیکھ کر اُن میں اپنا آئیڈیل تلاش کرسکتے ہیں۔) اُن لڑکیوں کو اُس افغانی برقعہ سے کوئی دلچسپی نہیں جسے ایک سنگر نے اپنی وڈیو میں دو خواتین کو پہنا کر پیش کیا ہے۔ اُس برقعے کو پہن کر بھلا کون سی عورت آرام دہ ہوکر گٹار یا رباب بجاسکتی ہے……؟ یا پھر کون سی عورت یہ پہن کر آفس میں کام کرسکتی ہے؟ لباس اہمیت رکھتا ہے۔ اگر نہیں رکھتا، تو جاپان اور کوریا کبھی ماڈرن تقاضوں کے مطابق خود کو تبدیل نہ کرتے۔
اپنی وڈیو میں اس قسم کے عناصر شامل کرکے مغرب میں رہنے والے یا وہاں وقت گزارے ہوئے پشتون یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُنھیں پشتو زبان، ثقافت اور اقدار سے بہت گہرا لگاؤ ہے۔ اُن گانوں کے دیکھنے والے زیادہ تر پشتون مرد ہیں، جن کی انا کو یقینا سکون ملتا ہوگا ایسے دقیانوسی مناظر کو دیکھ کر۔ اُن گائیکوں نے خود مغرب اور پاکستان میں آزاد زندگی گزاری ہوتی ہے، لیکن پشتون خواتین کے معاملے میں اُن کے اندر ثقافت سے محبت کے جذبات اُبھر رہے ہوتے ہیں۔ منفرد دِکھنے کی چاہ اور یُوٹیوب پر ویوز لینے کے چکر میں ایسے پشتون لڑکے نفسیاتی گھٹن اور مسائل سے جھونجھ رہی پشتوں لڑکیوں کے لیے اور بھی عذاب بن جاتے ہیں۔
مَیں پاکستان میں رہتی ہوں اور جس جگہ ہم رہتے ہیں اُس سے نفرت نہیں کی جاسکتی، اُسے قبول کیا جاتا ہے تمام تر برائیوں کے ساتھ (کیوں کہ اور کوئی راستہ نہیں۔) البتہ نظریات میں توازن قائم کرنے کے لیے حقیقت کو نہ جھٹلاتے ہوئے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان غریب اور کرپٹ ہونے کے ساتھ ساتھ دو رنگ ملک ہے (اس حوالے سے فرزانہ شیخ صاحبہ کی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔) یہاں کلاس کے ساتھ آپ کی ثقافت بھی تبدیل ہوتی ہے، یقینا باقی ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہوگا، لیکن منافقت کا جو لیول یہاں ہے، گارنٹی کے ساتھ کہتی ہوں کہ کہیں نہیں ملے گا اور یہ یقینا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس سب سے حکم ران طبقوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
پڑھی لکھی اور آزاد سوچ کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی پشتون لڑکیاں اس برقعے کو شوقیہ یا کچھ دیر کے لیے پہن کر انسٹاگرام پر سگریٹ پیتی تصاویر تو لگالیں، جیسا کہ میں اپنے ثقافتی لباس کو ایک دن کے لیے پہن کر کچھ تصاویر لگاتی ہوں۔ کیوں کہ یہ اظہار ہے اپنی ثقافت سے محبت کا، لیکن اگر مجھے روز یہ پہننا پڑے، تو شاید میری محبت وقت کے ساتھ ختم ہوجائے۔ کیوں کہ ماڈرن دنیا میں اس لباس کے ساتھ میں پُرسکون طور پر اپنے روزمرہ کے اور پروفیشنل کام نہیں کرپاؤں گی۔ یوں ہی اگر یہی برقعہ ثقافت کے نام پر اُن آزاد لڑکیوں کو مجبور کرکے پہنایا جائے، تو اُنہیں یہ سب عذاب لگنے لگے گا ماڈرن دنیا میں، یہ اُس کے خلاف احتجاج کرنے نکل آئیں گی۔
اکثر وہ لوگ جو مغرب میں رہایش پذیر ہوں یا جن کے پاس اپنی مرضی کا لباس پہن کر گھومنے کی لگژری ہوتی ہے، تو ایسے لوگوں کے دلوں میں اپنی ثقافت کے گھٹن زدہ اور دقیانوسی عناصر کے لیے بھی پیار امڈ امڈ کر آتا ہے اور ایسے افراد اکثر مڈل کلاس یا اس سے نچلے طبقے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ اُنھیں اپنی ثقافت سے پیار نہیں۔ یہ احساسِ کم تری کا شکار ہیں اور خود کو ثقافت کی حفاظت کا علم بردار اور سفیر سمجھتے ہیں، (بالکل ویسا جیسے پاکستان کا امیر طبقہ آرٹ کے ڈپارٹمنٹ کو سنبھالے ہوئے ہے، جب آرٹ اور تخلیق سے منسلک کام ٹیلنٹ کی بجائے طبقات کی بنیاد پر چلیں گے، تو پھر پاکستان میں آرٹ اور تخلیق کاری کا حال آپ دیکھ ہی سکتے ہیں۔)
ثقافت ہو یا کوئی بھی رواج، وہ تب تک اچھا لگتا ہے جب اپنی مرضی سے کیا جائے، جب کوئی مسلط کرے، تو محبت کے جذبات ہوا میں اُڑ جاتے ہیں۔
موجودہ پشتونوں کو اپنی نئی نسل کی سوچ پر مغرب کے اثرات کو سمجھنا ہوگا۔ اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ آپ کی ثقافت کی اہمیت اس ماڈرن دنیا میں تب تک ہے جب تک آپ کی معیشت مضبوط ہے، جب تک آپ کی عورتیں تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں، ورنہ آپ کی اور آپ کی اقدار کی کوئی اوقات نہیں۔ آپ کی غیرت کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ جب آپ کی عورتیں پڑھی لکھی نہیں، آپ نے اُنھیں وہ لباس نہیں پہننے دیا، جو آرام دِہ اور وقت کے تقاضوں سے میل کھاتا ہے، وہ ماحول نہیں فراہم کیا جو اُنھیں آگے آنے کا موقع دے سکتا ہے، تو یوں آپ ایک مایوس اور ٹروما سے جھونجھ رہی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ پشتوں عورتوں میں بڑھ رہے نفسیاتی مسائل کا ہمیں اندازہ نہیں، اُن نفسیاتی مسائل کا اثر خود اُن خواتین اور اُن کے بچوں پر نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔
باچا خان بابا نے بھی اِسی بات کی جانب نشان دہی کی تھی کہ اگر معلوم کرنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ثقافت کتنی مہذب ہے، تو یہ دیکھو کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں……! کیسا سلوک کرتے ہیں ہم اپنے معاشرے کی عورتوں کے ساتھ…… یہ چھپا ہوا نہیں۔
سوات کا ہر سال کا ٹرپ اکثر مایوس کردیتا ہے جب پڑھی لکھی، ذہین اور ٹیلنٹیڈ لڑکیوں کو گھٹن زدہ سوچ کی بھینٹ چڑھتا دیکھتی ہوں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ لوگوں کے جذبات کو دبائیں گے، تو وہ خاموش رہیں گے؟ بالکل بھی نہیں……! نئی نسل کو جب آزادی سے زندگی کو سمجھنا اور جینا نہیں سکھایا جاتا، تو وہ باغی ہوکر چور راستوں سے اپنی گھٹن کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ چور راستہ اُنھیں بربادی کی جانب لے جاتا ہے۔ کیوں کہ اُن میں شعور اور تجربات کی کمی ہوتی ہے۔ چور راستہ کبھی آپ کے اندر موجود تجربات، شعور کے خلا (Gap) یا اس کی کمی کو پورا نہیں کرتا، بلکہ معاشرے میں مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔
اچانک انڈیا کا یوں اپنے کلچر کا ہر جگہ پرچار کرنا، کرکٹ میں اپنی من مانی کرنا ہو، یا ’’جی ٹوینٹی‘‘ (G20) میں انڈیا کی ثقافت تاریخ کا بھر پور اظہار کرنا، یہ سب تبھی ممکن ہوا جب انڈیا کی معیشت مضبوط ہوئی، تبھی انڈیا اور اس کی ہزاروں سال پرانی ثقافت منظرِ عام پر آئی۔ اس سے پہلے ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔
سوشل میڈیا پر انڈین سائنس دان خواتین کی تصاویر شیئر کرتی اور اُنھیں سراہتی ہماری پاکستانی خواتین…… یہ مناظر تب وجود میں آتے ہیں، جب معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ انڈیا نے معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے بہت بڑے اور کٹھن قدم اٹھائے ہیں۔ صرف سیاست کی سطح پر نہیں بلکہ ثقافتی سطح پر بھی۔ انڈیا عورتوں کو ’’ورک فورس‘‘ میں شامل کررہا ہے، تو اُس کے لیے قوانین کے علاوہ ڈراموں، کرائم شوز، فلموں اور ہندو مذہب جس میں ’’عورت شکتی دیوی کا روپ ہے‘‘، کے ذریعے پیغام دے کر ذہن تیار کررہا ہے نئی نسل کا، یہ سب کچھ بہت آہستگی سے انجام پاتا ہے، آئیڈیل سچویشن کہیں نہیں ہوتی، البتہ آپ چھوٹی چھوٹی کوششیں کرتے ہیں جو ایک دن بڑے نتیجے کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہیں اور اکثر نتیجے دیکھنے کے لیے وہ لوگ زندہ بھی نہیں ہوتے جن کی قربانیاں یا جد و جہد رنگ لائی ہوتی ہے۔
کلچر پتھر پر لکیر نہیں ہوتا۔ یہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے اور ہمیں اس کے ساتھ خود کو بدلنا سیکھنا ہوتا ہے۔ ثقافت سے پرانے، دقیانوسی اور گھٹن زدہ عناصر ہٹانے کی شروعات گھر سے کریں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں کی تعلیم پر مکمل توجہ دیں۔ حکومت کے آسرے نہ بیٹھیں۔ حکومتی ادارے اپنی چھوٹی سی دنیا میں بہت خوش ہیں۔ آپ اپنے آپ سے شروعات کریں۔ آنے والی چند نسلوں میں نتیجہ اُبھر کر سامنے آئے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔