تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(قارئین! ’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل لیکچرار کامریڈ تیمور رحمان  کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ اس سلسلے کی پہلی قسط ملاحظہ ہو، مدیر)
فلسفہ (Philosophy) دراصل یونانی زبان کا لفظ ہے، جو دو الفاظ "Philo” اور "Sophia” سے مل کر بنا ہے۔ اس میں "Philo” کا مطلب محبت اور "Sophia” کا مطلب علم یا حکمت ہے…… یعنی فلسفے کا مطلب علم سے محبت ہے۔
ظاہر ہے جو سماج علم سے پیار کرتا ہے، وہ ترقی کرسکتا ہے…… اور جو سماج علم سے محبت نہیں کرتا، وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ فلسفہ، درحقیقت تمام علوم کی ماں ہے۔ چاہے سیاست ہو، قانون ہو، سائنس ہو، ریاضی ہو، تاریخ ہو، غرض تمام علوم کی ماں فلسفہ ہے۔
٭ ہم فلسفہ کیوں پڑھتے ہیں ؟
نیوٹن نے ایک بار کہا تھا کہ اگر ایک شخص دیو کے کندھوں پر کھڑا ہوجائے، تو وہ اُس دیو سے بھی دور دیکھ سکتا ہے۔
اگر ہم تاریخ کو پڑھیں، تو ہمیں یہ بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ فلاسفرز میں ہر شعبے کے لوگ تھے۔ کچھ امیر تھے، تو کچھ غریب، کچھ بادشاہ تھے، تو کچھ فقیر۔ اُن میں تھوڑے کچھ پاگل تھے، تو کچھ ڈاکٹر بھی تھے…… لیکن بہت کم خواتین تھیں، جنھوں نے فلسفے میں حصہ لیا۔ فلسفے کو پڑھنے کے تین طریقے :
٭ تھیمیٹک سٹڈی (Thematic Study)
٭ میتھاڈولوجیکل سٹڈی (Methodological Study)
٭ کرونولوجیکل سٹڈی (Chronological Study)
سب سے پہلے آتے ہیں’’تھیمیٹک سٹڈی‘‘ کی طرف۔ اس میں ہم مابعد الطبیعات، اخلاقیات، جمالیات، علمیات وغیرہ پڑھتے ہیں۔ اگر ہم فلسفے کو "Theme” کی نگاہ سے دیکھیں، تو اُن میں اہم سوالات یہ آتے ہیں جیسے:
وجود کیا ہے؟
حقیقتِ وجود کیا ہے؟
علم کیا اور علم کی حقیقت کیا ہے؟
میڑیرریلزم، آئدیلزم، ریشلنزم، اور سکیفٹزم وغیرہ کیا ہیں؟
اخلاقیات کیا ہے اور اخلاقیات کے معیارات کیا ہیں؟
فری وِل اور ڈٹرمنزم کیا ہے؟
انسان کی قدرت کیا ہے ؟
زندگی کا کیا مقصد ہے؟
ریاست کا کیا مقصد ہے؟…… وغیرہ۔
٭ میتھاڈولوجیکل سٹڈی:۔ اگر ہم فلسفے کی ’’میتھڈز‘‘ (Methods) کا مطالعہ کریں، تو ان میں یہ آتا ہے کہ "Inductive Method” کیا ہے اور "Deductive Method” کیا ہے، جہاں ایک طرف افلاطون (Plato) ہے، تو دوسری طرف ارسطو (Aristotle) ہے۔
٭ کرونولوجیکل سٹڈی:۔ فلسفہ کو تاریخ کی نگاہ سے دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم نے اس کی تاریخ کو نہیں پڑھا، تو ہمیں فلسفے کی سمجھ نہیں آئے گی۔ جیسے اگر ہم ایک فلم کو بیچ سے دیکھنا شروع کریں، تو اس کی کہانی کو ہم نہیں سمجھ سکیں گے۔
اگر ہم "Chronologically” چلیں گے، تو ہمیں یہ پتا چلے گا کہ ایک فلاسفر سے پہلے کون تھا، کیا تھا اور کس طرح ایک مسئلہ کے حل کے نتیجے میں دوسرا مسئلہ پیدا ہوا اور دوسرے مسئلے کے حل کے نتیجے میں کس طرح تیسرا مسئلہ پیدا ہوا اور اس طرح چوتھا اور پانچواں ……؟ یعنی تاریخ اور سوچ کے ارتقا کے ڈائرکشن کو سمجھ سکیں گے…… اور یہ سمجھیں گے کہ کس طرح سوال سے سوال جنم لیتا گیا…… کس فلاسفر نے کس طرح جواب دینے کی کوشش کی، ہر فلاسفر کو انفرادی سمجھ سکیں گے، اس کے سیاق و سِباق کو سمجھ سکیں گے، اس کے تاریخی تناظر کو سمجھ سکیں گے کہ کس طرح ایک فلاسفر نے دوسرے فلاسفر کو متاثر کیا، کس طرح دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر لوگوں کی وجہ دوسرے کونے کے لوگوں کی سوچ تبدیل ہوئی، وغیرہ۔
٭ فلسفے کی تاریخ میں تین اہم مراکز:
فلسفہ تین اہم اور بڑے مراکز پر مشتمل ہیں ؛
٭ چائنیز فلسفہ (Chinese Philosophy)
٭ ہندوستانی فلسفہ (Indian Philosophy)
٭ مغربی فلسفہ (Western Philosophy)
مغربی فلسفہ، جس میں روم، یمن، عیسائی، اسلامی اور ماڈرن فلاسفی سب شامل ہیں۔
فلسفے کو پڑھ کر ہم دراصل سائنس کی سوچ کو سمجھ سکیں گے، تاریخ کو سمجھ سکیں گے، آج کی سماج کو ٹھیک کر سکیں گے۔
٭ ایک فلاسفر کو کس طرح سمجھنا چاہیے؟
یاد رکھے ایک فلاسفر کو کھلی سوچ سے پڑھنا چاہیے۔ اگر آپ اِس سوچ کے ساتھ پڑھیں گے کہ مجھے پتا ہے…… یا اس کو کچھ نہیں آتا تھا، یا غلط تھا…… تو آپ اُس فلاسفر کو صحیح طرح سمجھ نہیں سکیں گے۔
٭ ہر فلاسفر کو اپنے تاریخی تناظر سے سمجھنا ضروری ہے۔ اگر آپ اُسے تاریخی تناظر اور سماج سے باہر نکال دیں گے، تو آپ یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ وہ کس حالت میں کس سوال کا جواب دے رہا تھا…… اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکیں گے، اس لیے اس کا تاریخی پس منظر ضروری ہے۔
٭ چوں کہ ہر فلاسفر کسی دوسرے فلاسفر کے سوال کا جواب دے رہا ہوتا ہے، تو اس کے مخالف نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
کچھ تحفظات و تعصبات (Biases):
فلسفہ ہو، سوشیالوجی ہو، یا کوئی اور سبجیکٹ…… کچھ تحفظات و تعصبات سے آزاد نہیں۔ اس لیے پہلے بیان کرنا ضروری ہے۔
٭ سب سے پہلے فلسفے کی تاریخ میں یہ تعصب ہے کہ کسی خاص علاقے کے بادشاہ نے تاریخ کو اپنی نگاہ سے بیان کیا ہے، خواہ وہ جنگ کی تاریخ ہو، فلسفے کی تاریخ ہو، یا سیاست کی۔ جو بادشاہ یا جو گروہ غالب تھا، وہی اپنے نقطۂ نظر سے تاریخ لکھتے تھے۔
٭ دوسرا تعصب یہ ہے کہ فلسفے کی تاریخ کو صرف مرد کی نگاہ سے لکھا گیا ہے۔ کیوں کہ اُس وقت مرد، عورتوں پر غالب تھا ۔ یعنی فلسفے کی ان اقساط میں "Patriarchal Bias” بھی شامل ہوگی۔
٭ آخری یہ کہ جو تاریخ پڑھتا، پڑھاتا اور لکھتا ہے…… اُس کے اپنے خیالات بھی شامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ پڑھانے والے پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اپنے تجربے کے مطابق کن فلاسفرز کو زیادہ نمایاں کرتا ہے اور فلاسفرز کے کن کن نظریات کو زیادہ دقیق نگاہ سے پیش کرتا ہے، یعنی ان اقساط میں (Pedagogical Bias) بھی شامل ہوگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تاریخ کو پڑھنے کا کیا فائدہ جس میں اتنے سارے تحفظات و تعصبات ہوں؟ اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہم ان تعصبات کو بھی سمجھیں گے کہ اگر مردوں نے تاریخ لکھی ہے، تو کیا تاریخ لکھی ہے…… اگر حکم ران طبقے نے تاریخ لکھی ہے، تو اُس نے کیا تاریخ لکھی ہے…… یعنی ان تحفظات و تعصبات کو کس نوعیت سے لکھا گیا ہے…… کیوں کہ اس تاریخ کے نتیجے میں ہی ہمارا معاشرہ بنا ہے اور ان سب biases کو بھی سمجھنا بہت اہم ہے ۔
جیسے ارسطو کہتا ہے کہ آپ کسی چیز سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن اسے مکمل طور پر سمجھنا ہی تعلیم کا مقصد ہے ۔
باقی لیکچرز آیندہ!
کامریڈ تیمور رحمان کا فیس بک پیج لنک ذیل میں دیا جا رہا ہے:
https://www.facebook.com/laalislaal
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔