لفظ ’’شہادت‘‘ کا دانستہ و غیر دانستہ طور پر جس قدر گمراہانہ استعمال کیا جاتا رہا ہے، شائد ہی کوئی اور لفظ اس طرح استعمال ہوا ہو۔ دنیا کی ہر قوم اپنے لوگوں کو مروا کر اُنھیں شہید قرار دے دیتی ہے اور جو ابھی نہیں مرے ہوتے، اُنھیں شہادت کا بتا کر جنگوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے…… یا پھر منفعت بخش دہشت گردی کی نذر کردیا جاتا ہے۔
ظہیر الاسلام شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
گذشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا مرکزی نشانہ مسلمان رہے ہیں، اپنوں یا پھر غیروں کے ہاتھوں۔ پاکستان کی اگر بات کی جائے، تو پختون خوا میں جس طرح سفاکی سے خونی کھیل کھیلا جاتا رہا ہے، اُس کی مثال ملک کے دوسرے خطوں میں تو کیا، باقی دنیا میں بھی مشکل سے ملتی ہے اور اِس کا سب کو پتا ہے، تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔
لوگ ریاست کیوں بناتے ہیں؟ اس لیے نا کہ جنگل کا ویسا قانون نہ ہو، جس کا تذکرہ تھامس ہابز نے اپنی کتاب "Leviathan” میں کیا ہے؟ ہابز کہتا ہے کہ انسان خود غرض ہے اور ریاست کے بغیر فطری حالت ایسی ہوتی ہے جس میں لوگوں کے درمیان پُرتشدد مقابلے کا بازار گرم ہوتا ہے، جس کا جو بس چلتا ہے، کر گزرتا ہے، ہر فرد کی ہر دوسرے فرد کے ساتھ ایک مستقل لڑائی ہوتی ہے اور تعاون کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اُن کے الفاظ میں "War of every man against every man”
اب اس فطری حالت سے نکلنے کا راستہ وہ ’’عمرانی معاہدہ‘‘ (Social Contract) قرار دیتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر افراد کی مجموعی سمجھ بوجھ کے نتیجے میں اُن کے باہمی اتفاق سے سب کی بھلائی کے لیے کچھ قوانین لاگو کرنے اور کچھ حقوق مقرر کرنے کا معاہدہ ہوتا ہے۔ اسی معاہدے کی تشکیل اور تعمیل کی ضرورت کے تحت ریاست کی پوری انتظامی ساخت وجود میں آتی ہے…… یعنی ریاست کے وجود کا واحد جواز یہ ہے کہ اس کی بدولت متفقہ طور پر منظور شدہ قوانین کی پاس داری ہوگی اور اس کے نتیجے میں شہریوں کی جان، مال اور آزادی جیسے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت ہوگی۔
اب اگر ریاست وجود میں آجائے، جیسے ہمارے ہاں ہے، لوگ اس کے تقاضے، جیسے ٹیکس، قانون پر عمل درآمد وغیرہ…… پورے کر رہے ہوں، لیکن ریاست اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی ہو، جب کہ وہ ذمے داریاں ایسی بھی نہیں ہوں جو وہ پوری نہ کرسکے، بلکہ ستم تو یہ ہو کہ بہت سارے ناگوار واقعات ایسے ہوں (جیسے افغانستان کی پراکسی اور ڈالری جنگ میں خود بھی کودنا اور سیاسی شعور نہ رکھنے والے عام شہریوں کو بھی دھکیلنا) جس میں ریاست بذاتِ خود اور بھرپور طریقے سے ملوث ہو، تو ایسے میں شہریوں میں اتنا شعور ہونا چاہیے کہ وہ ریاست کے متعلقہ اداروں سے ان کی ذمے داریوں کے بارے میں پوچھ گچھ کریں اور اُن کی بدعنوانیوں کا احتساب کریں، نہ کہ اُن کی کوتاہیوں اور بے حسی کو چھپانے یا اُن کی شدت میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کمی کرنے کے لیے اُلٹی سیدھی تاویلات پیش کریں۔
ایک پُرامن احتجاج یا بیٹھک شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اسی طرح ریاست کی حدود میں آزادی اور حفاظت سے گھوم پھر سکنا بھی ہر شہری کا انتہائی بنیادی حق ہے۔ ریاست کے سیکورٹی ادارے قوم کے ٹیکسوں کا بہت بڑا حصہ ہضم کرلیتے ہیں، جواب میں شہری کیا چاہتے ہیں…… صرف ’’جینے کا حق……!‘‘
اب شہری بازار میں گھوم رہے ہیں، کوئی احتجاج کر رہے ہیں، مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں یا پھر مندر میں مصروفِ عبادت ہیں اور ان پر دھماکا ہوتا ہے، جسم چھلنی چھلنی ہوجاتا ہے، اعضا ہوا میں اس قدر بکھر جاتے ہیں کہ شناخت کرنا ممکن نہ رہے…… تو ایسے میں آپ یہ نہ کہیں کہ اتنے اور اتنے ’’شہید‘‘ ہوگئے، سچ بولیں کہ اتنے اور اتنے ’’قتل‘‘ کر دیے گئے اور ریاست جواب دے کہ ایسا کیوں اور کیسے ممکن ہوا؟
جب آپ لفظ ’’شہادت‘‘ استعمال کرلیتے ہیں، تو آپ اس بے رحم اور انتہائی بے حس کھیل کو نہ صرف مقدس بنا دیتے ہیں، بلکہ اس کی شدت، جو بہت زیادہ ہے، اور اصلیت، جو کہ نہایت گھناؤنی ہے، کو بھی مسخ کر دیتے ہیں۔ ان دہشت گرد دھماکوں اور جنگوں میں قتل کیے گئے معصوم شہریوں میں سے کتنے ایسے تھے جو گھر سے اس ارادے سے نکلے تھے کہ ’’شہادت‘‘ نصیب ہوجائے؟ ایسی نہیں ہوتیں شہادتیں، یہ قتل ہوتے ہیں!
حکم ران اگر ’’شہادت‘‘، ’’شہادت‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، تو وہ دراصل اپنی بے پروائیوں کو چھپا رہے ہوتے ہیں یا پھر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ میرے اور آپ جیسے عام شہریوں کو کیا پڑی ہے کہ اپنے ہم وطنوں کے بہیمانہ قتل پر شہادت کا ٹھپا لگائیں؟ مولانا فضل الرحمان اگر ایک طرف اس قتل عام کو ’’شہادت‘‘ گردانتے ہیں اور اوپر سے یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم مزید شہادتیں دینے کے لیے بھی تیار ہیں، تو اُن سے کَہ دیں کہ آپ اپنی طرف سے انتظام کرلیں، اپنے جگر گوشوں اور خود کو پیش کریں، قوم تیار نہیں، گذشتہ چالیس سال کی خوں ریزی کافی تھی۔
ایک اور انتہائی اہم بات یہ کہ آپ میں سے جو دہشت گردی کا شکار ہیں، آپ نے اپنے مسائل کا حل خود نکالنا ہے۔ محسوس اُن کو ہوتا ہے اور مسئلہ اُن کا ہوتا ہے جن پر گزر چکا ہوتا ہے، گزرتا ہے یا پھر گزرنے کا بھرپور امکان ہوتا ہے۔ ساحل کے تماشائیوں کو آپ کی ناوکے ڈوبنے یا پار ہونے سے کوئی سروکار نہیں۔ اس میں جہاں ایک طرف بے حسی کا عمل دخل ہے، وہاں یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مختلف حالات کے زیرِ اثر مختلف ترجیحات، مسائل اور دلچسپیوں کا بھی ہے۔ حب الوطنی اور یک جہتی کے نعرے کتابوں، نغموں اور ڈراموں ہی میں اچھے لگتے ہیں۔ لہٰذا ساحل سے آتی چند ایک حساس، مخلص اور ہم درد آوازوں کا شکریہ ادا کرنا اگر آپ ضروری سمجھتے ہیں، تو ضرور ادا کر لیں؛ مَیں نہیں سمجھتا۔ یہ اُن کا فرض ہے؛ لیکن اُن کی بدولت یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ باہر سے کوئی مسیحا آئے گا اور آپ کے لیے آپ کے مسائل حل کرے گا۔ اگر ریاست آپ کی فریاد کو بار بار نظر انداز کر رہی ہے، تو اُس سے بھی آس لگانا چھوڑ دے۔ مشران اور نوجوانان مل بیٹھ کر خود فیصلہ کرلیں کہ کیا کرنا ہے؟ یہ زندگی اور موت کی بازی ہے، اس کو ذرا سنجیدہ لیں اور جس حد تک آئین کی اجازت ہو، جائیں۔ آئین آپ کی جان کی حفاظت نہ کر پا رہا ہو، تو آئین کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر لیں!
آپ زندہ رہیں گے، تو پارٹی بازی بھی کرلیں گے۔ ایک دوسرے پر فتوے بھی صادر کرسکیں گے۔ فلسطین، عراق اور شام کا دکھ بانٹنے کے لیے سڑکوں پر ٹائر بھی جلا لیں گے۔ ایک دوسرے کے کاموں میں ٹانگ بھی اَڑا سکیں گے اور اگر چاہیں، تو باشعور شہریوں کی طرح مہذب زندگی بھی گزار سکیں گے، لیکن ان سب امور کے لیے آپ کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ جتنی جلدی یہ بات سمجھ آجائے، بہتر ہے۔
ایک مقامی سیاسی کارکن کے مطابق باجوڑ میں ہونے والے دھماکے میں قتل شدہ افراد کی تعداد 54 تک پہنچ گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد 80 سے زیادہ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔