آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، تو پیر کا دن اور نومبر کی 13 تاریخ ہوگی۔ ابھی کل ہی ’’آخری چٹان‘‘ فضل حیات چٹان کی تیسری برسی منائی گئی۔
فضل حیات چٹان سے میرا تعلق دیرینہ تھا۔ میں اُن کو اپنا مشر اور وہ مجھے کشر سمجھتے تھے۔ اس لئے میں اُن کو ’’خان دادا‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ چٹان کالج کے زمانے سے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سے منسلک تھے اور ٹھیک شہادت کے وقت تک پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔ 2012ء میں جب تحریک انصاف عروج پر تھی اور بیشتر لوگ اس میں ٹکٹ کے حصول کے لئے شامل ہو رہے تھے، تو اُس وقت میرے ایک قریبی دوست کے ساتھ تحریک انصاف کا ایک اہم عہدہ تھا۔ اُن میں خیبر پختون خوا کے کسی بھی حلقہ میں ٹکٹ دینے کی صلاحیت تھی۔ ایک دن خان دادا نے مجھے فون کرکے اُس شخص کے بارے میں پوچھا کہ آپ کے اس کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ اچھے ہیں۔ خان داد ا نے کہا کہ اُن سے میرے لئے ٹکٹ کی بات کرو۔ میں نے اُن سے بات کی اور انہوں نے ملاقات کی دعوت دی۔ دس محرم الحرام کو میں اور خان دادا سوات سے روانہ ہوئے۔ جس شہر میں اُن صاحب سے ملاقات تھی، تو محرم کے جلوسوں کی وجہ سے وہ مکمل بند تھا۔ جگہ جگہ پولیس کے ناکے تھے۔ ہم کسی طرح اُن کے دفتر پہنچ گئے۔ وہ چٹان کو پہلے سے جانتے تھے اور اُن کی سیاست سے واقف بھی تھے۔ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ گویا ایک طرح کا انٹرویو سیشن تھا۔ اس شخصیت نے چٹان کو کہا کہ میں خان صاحب (عمران خان ) سے بات کرکے فیاض ظفر کو کال کے ذریعے بتادوں گا۔ ہم کافی مطمئن وہاں سے واپس سوات کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں سیاست اور 2013ء کے انتخابات پر بات چیت چل رہی تھی۔ ایسے میں کچھ دن گزر گئے لیکن خان دادا نے مجھے واپس کال کرکے نہیں پوچھا کہ نتیجہ کیا نکلا؟ کچھ دن بعد پی ٹی آئی کے اس عزیز دوست نے مجھے کال کی اور کہا کہ پی کے 81 کے لئے فضل حیات چٹان کا ٹکٹ فائنل ہوگیا ہے۔ آپ اُن سے بات کرکے قمبر میں شمولیتی جلسہ کا پروگرام بنائیں۔ ہم صوبائی قائدین آکر شمولیتی جلسہ میں شرکت کریں گے اور پی کے 81 کا ٹکٹ بعد میں فضل حیات چٹان کو دے دیا جائے گا۔ میں نے ’’خان دادا‘‘ کو فون کرکے یہ خوشخبری سنائی، لیکن اُن کی جانب سے کسی خاص خوشی کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ’’فیاض، تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے جواباً کہا کہ میں اپنے دفتر میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ دیر میں تمہارے دفتر آرہا ہوں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ واقعی دفتر آگئے اور چائے کی فرمائش کی۔ میں نے اُن کو بتایا کہ آپ کا پی کے 81 کا ٹکٹ فائنل ہوگیا ہے اور اب آپ شمولیتی جلسے کا پروگرام بنائیں۔ انہوں نے جواباً مجھے کہا کہ ’’فیاض، ہم جب تحریک انصاف والوں کے پاس گئے تھے، تو وہ میری غلطی تھی، جس پر میں تم سے معذرت خواہ ہوں۔‘‘ میں نے وجہ پوچھی، تو انہوں نے بتایا کہ ’’فیاض! اُس ملاقات کے بعد میں ہر رات سونے سے پہلے اپنے گریباں میں جھانک کر اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا میں نے یہ فیصلہ ٹھیک کیا؟ تو میرا ضمیر ہر رات مجھے ملامت کرتا ہے۔ میں سکول اور کالج کے زمانے سے پیپلز پارٹی میں ہوں۔ میں نے ہمیشہ ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگایا۔ میں پیپلز پارٹی کا نظریاتی کارکن ہوں اور اب اگر میں محض ایک صوبائی حلقہ جیتنے، ایم پی اے یا وزیر بننے کے لئے اپنے نظریات کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو جاؤں گا، تو میرا ضمیر مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘ میں نے بھی اُن کی باتوں سے اتفاق کیا اور اپنے عزیز دوست کو فون کرکے بتایا کہ فضل حیات چٹان تحریک انصاف میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ انہوں نے بھی جواباً کہا کہ ’’چٹان کو کہو کہ تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔‘‘ خان دادا نے کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو، اگر پیپلز پارٹی نے مجھے ٹکٹ دیا، تو بس میں صرف پارٹی کے ٹکٹ پر ہی انتخابات میں حصہ لوں گا اور چائے پی کر چلے گئے۔
2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اُن کو پی کے 81 کا ٹکٹ دیا۔ انہوں نے خراب حالات میں بھی انتخابی مہم چلائی۔ ’’غریب اور متوسط طبقہ‘‘ تک پہنچنے اور ہارنے کے باوجود بھی انہوں 4427 ووٹ حاصل کیا۔ اس حلقہ سے تحریک انصاف کے اُمیدوار ہی کامیاب ہوا۔ اگلے دن میں نے خان دادا کو فون کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار نے جتنے ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ہے، اگر ان کی جگہ آپ ہوتے، تو آپ تین تا چار ہزار ووٹ زیادہ لیتے۔ انہوں نے جواباً کہا کہ ’’ہارنے کے باوجود میں آج بہت خوش ہوں۔ کیوں کہ میرے ضمیر نے مجھے ملامت نہیں کیا۔ ایک بار پھر عہد کرتا ہوں کہ مرتے دم تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہوں گا۔‘‘
خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں لیکن خان دادا میں چند خوبیاں ایسی تھیں جو ان کی خامیوں پر حاوی تھیں۔ ایک، وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے۔ اگر وقت گزر جاتا، تو وہ قضا پڑھ لیتے، غریب لوگوں کی حتی المقدور مدد کرتے، میں نے اُن کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کی غیبت کرتے سنا۔ انتہائی نڈر اور بے باک تھے۔ حق بات کے لئے آخری حد تک جاتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ یونین کونسل قمبر کے لوگوں نے اُن کو دوبار ناظم منتخب کیا تھا۔ 12 نومبر 2014ء کو جب وہ نمازِ عشا پڑھنے کے بعد مسجد سے واپس گھر جارہے تھے، تو ظالموں نے اس نڈر، بے باک، نظریاتی، حق پرست اور خدا ترس شخص کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ بلوگرام فٹ بال گراؤنڈ میں تاریخی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد کی شرکت چٹان کی بے گناہی اور دلیری کی تصدیق ہے۔ آرمی نے اُن کی قبر پر میت کو سلامی پیش کرکے سرکاری اعزاز کے ساتھ انہیں سپرد خاک کرکے اُن کے محب الوطنی اور پاک دامنی کی تصدیق کی۔
فضل حیات چٹان کو تو بزدلوں نے شہید کر دیا، لیکن آج بھی وہ ’’آخری چٹان‘‘ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
