فون کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر نظر ڈالی، تو پتا چلا کہ محمد خلیل قاضی صاحب بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ کال اُٹھائی، تو دوسری طرف سے آواز آئی: ’’ارے سحابؔ! تمھاری فیس بک وال پر حاجی شیرزادہ کے انتقال کی خبر پڑھی۔ یار، وہ تو مینگورہ شہر کے کامیاب کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ تمھیں شاید پتا نہ ہو، مگر سوات میں اول اول ’’کارپٹ‘‘ (Carpet) اُنھوں نے ہی متعارف کرایا تھا۔‘‘
کامریڈ امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
محمد خلیل قاضی ایس پی ایس کالج کے بوائز سیکشن میں ہمارے پرنسپل رہ چکے ہیں۔ مَیں جب بھی اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرکے اخبار کی زینت بناتا ہوں، تو قاضی صاحب کال کرکے ایک ایک جز کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’سحابؔ! فُلاں حوالہ تم بھول گئے، فُلاں شخص کا ذکر کیوں نہیں کیا، فُلاں جگہ تشنگی باقی رہی، وعلی ہذا القیاس۔‘‘ مَیں جواباً معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرکے اُنھیں کہتا ہوں: ’’سر! یہ میری یادداشتیں ہیں، مجھے یاد رہنے والی چیزیں ہی قلم بند ہوتی ہیں جب کہ باقی رہ جاتی ہیں۔‘‘ دوسری طرف قاضی صاحب ’’گپ مہ لگوہ کنہ سحابؔ صیب……!‘‘ کہتے اور قہقہہ لگاتے ہوئے فون کاٹ دیتے ہیں۔ یوں اگلی تحریر تک رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔
حاجی شیرزادہ (مرحوم) کے انتقال کے روز قاضی صاحب کی مختصر سی فونک گفت گو نے میری رگِ تحقیق پھڑکا دی۔ اولاً چند جانے پہچانے لوگوں کے ساتھ ملا۔ حاجی صاحب (مرحوم) کے حوالے سے جو بات سامنے آتی، نوٹ کرتا جاتا۔ اب جہاں سے جو حوالہ ہاتھ آیا ہے، نذرِ قارئین ہے۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عظیم المعروف ’’جمو‘‘ جو ایک عرصے سے حاجی صاحب (مرحوم) کے جمعہ کے روز سیرکرنے والے گروپ کے ساتھی ہیں، کے بقول: ’’حاجی شیرزادہ (مرحوم) مینگورہ شہر کے پرانے دکان داروں میں شمار ہوتے ہیں۔ فروری 1952ء کو انھوں نے مینگورہ شہر کے مین بازار میں پہلی دکان کھولی۔ اس طرح 1958ء کو کانجو سے نقلِ مکانی کرکے مینگورہ شہر میں رہایش اختیار کی۔ 1968ء میں نیو روڈ میں دکان لے لی مگر کافی عرصہ مین بازار ہی میں رہے۔ ان کی شہر کی بیشتر کاروباری و سیاسی شخصیات کے ساتھ راہ و رسم و رفاقت تھی۔
حاجی صاحب (مرحوم) کے صاحب زادے حاجی فضل اللہ (اباسین کارپٹس کے مالک) کہتے ہیں کہ 1968ء میں ہماری نیو روڈ والی دکان میں اولاً ہمارے والدِ بزرگوار نے ہوٹل (ریسٹورنٹ) کھولا، پھر چائے کا کاروبار شروع کیا، مگر دونوں کام حاجی صاحب کی طبیعت کے موافق نہیں تھے، اس لیے اپنے کاروبار (چمڑے کا لین دین) کی طرف واپس آگئے۔ پھر سنہ 1977ء یا 1978ء کو حاجی صاحب (مرحوم) نے مین بازار والی دکان میں فوم کا کاروبار شروع کیا، جب ’’ڈائمنڈ کمپنی‘‘ نے باقاعدہ طور پر فوم کی ایجنسیاں دینے کا کام شروع کیا۔
محمد عظیم نے محمد خلیل قاضی کی فون پر بتائی ہوئی بات ( سوات میں اول اول ’’کارپٹ‘‘ اُنھوں نے ہی متعارف کرایا تھا) کی نفی کرتے ہوئے اپنی باتوں میں یہ بھی کہا کہ ’’حاجی صاحب (مرحوم) سوات میں فوم (Foam) کو متعارف کرنے والے پہلے شخص تھے۔‘‘
اس حوالے سے حاجی فضل اللہ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈائمنڈ کمپنی سے پہلے فوم عجیب قسم کا ہوتا تھا۔ ’’اُس وقت کا فوم آج کل کی طرح آرام دِہ یا اس شکل میں نہیں ہوا کرتا تھا۔ آج کی طرح کنٹینروں میں نہیں بلکہ بنڈل کی شکل میں لاہور سے اَڈّے کے ذریعے حاجی صاحب (مرحوم) اُس دور کا فوم وصول کیا کرتے تھے۔‘‘
ڈائمنڈ کمپنی سے پہلے اَڈّے کے ذریعے وصول کیے جانے والے فوم کی تاریخ، سال یا وہ دور حاجی فضل اللہ کے بقول، ’’مجھے یاد نہیں۔‘‘ کہتے ہیں: ’’آج کل تو متوسط طبقہ بھی فوم کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے، اُس دور میں فوم ملک، نواب یا صاحبِ جائیداد شخص کے گھروں میں ہوا کرتا تھا۔‘‘
حاجی فضل اللہ تو یہ بھی دعوا کرتے ہیں کہ ’’صرف فوم ہی نہیں بلکہ جاڑے میں چھتوں کو ٹپکنے سے روکنے والی پلاسٹک کی تہہ اور ’’ریکسین‘‘ (جسے مختلف گاڑیوں کی نشستوں میں پوشنگ کی غرض سے استعمال کیا جاتا) کو بھی میرے والد (مرحوم) سوات میں متعارف کرانے والے پہلے شخص تھے۔‘‘
حاجی فضل اللہ کہتے ہیں کہ اُس دور میں مکان باغ میں ’’طوطی باڈی میکر‘‘ کے نام سے ایک دکان ہوا کرتی تھی۔ سوات کے ساتھ ساتھ دیر، بونیر اور شانگلہ سے گاڑیاں (جن میں ڈاٹسن نامی گاڑی کی تعداد زیادہ ہوتی) لائی جاتیں۔ طوطی باڈی میکر والے گاڑیوں کے لیے باڈیاں بناتے۔ اس طرح گاڑی کی چھت پر ترپال اور نشستوں کی پوشنگ کے لیے ہماری خدمات حاصل کی جاتیں۔سنہ 1982ء یا 1983ء تک طوطی باڈی میکر کی دکان مکان باغ ہی میں تھی۔ اُس دور میں پوشنگ میں رشید اُستاذ کا ثانی نہیں تھا۔ باڈی ’’طوطی باڈی میکر‘‘ بناتا، میٹریل ہماری دکان سے لیا جاتا اور پوشنگ ’’رشید استاذ‘‘ کرتے۔
محمد عظیم کہتے ہیں کہ حاجی صاحب (مرحوم) دورانِ سفر اکثر اپنے دوستوں کا ذکر بڑی حسرت کے ساتھ کرتے۔ ’’شیرزادہ ٹھیکیدار (مرحوم)، سوات ہینڈی کرافٹس والے گل احمد حاجی صاحب، فیروز شاہ (کباب خانے والا)، سیدو شریف کالونی کے رہایشی حاجی رحمانی گل (مرحوم) وغیرہ کا ذکر چھیڑتے، تو ٹھنڈی آہ بھرتے۔ ذکر شدہ شخصیات کے ساتھ بیتے ہوئے لمحوں کو حسرت کے ساتھ یاد کرتے۔‘‘
حاجی صاحب (مرحوم) نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، یعنی وہ کبھی سکول نہیں گئے تھے۔ محمد عظیم کہتے ہیں کہ جیسے ہی ریاستی دور میں مینگورہ میں دکان کھولی، تو کانجو کے (مرحوم) طوطی ہیڈ ماسٹر کو اپنا ٹیوٹر رکھ لیا اور اُن سے پڑھائی اور خاص کر ہندسے پڑھنا اور لکھنا سیکھے۔
اس حوالے سے حاجی فضل اللہ کہتے ہیں: ’’والدِ بزرگوار کے سکول نہ جانے کی وجہ ہمارے دادا (مرحوم) تھے، جن کا کہنا تھا کہ مَیں اپنی اولاد کو انگریزی درس گاہوں میں نہیں بھیجنا چاہتا۔ یوں کانجو کے طوطی ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمارے والد کو ہندسوں کے ساتھ، تھوڑی بہت ریڈنگ اور دستخط کرنے کا عمل بھی سکھایا۔‘‘
محمد عظیم کہتے ہیں کہ اکثر سرِ راہ اگر کوئی سائن بورڈ آجاتا، تو اُسے باآسانی پڑھ لیتے اور مجھ سے تصدیق بھی کرواتے کہ ٹھیک پڑھا……!
سفر پر نکلتے، تو حاجی صاحب (مرحوم) کو مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے کا عمل اچھا لگتا۔ تاریخ اور تاریخی حوالے انھیں بے حد اچھے لگتے۔ ولی عہد میانگل اورنگزیب کے ساتھ حاجی صاحب (مرحوم) کا وقت زیادہ گزرا تھا، بیش تر اُن کی باتوں کی تان میانگل اورنگزیب پر آکر ٹوٹتی۔
حاجی فضل اللہ کے بقول، کبھی والدِ بزرگوار کو نہیں سنا کہ وہ موچی رہے ہیں۔ انھیں کہتے سنا تھا کہ سنہ 86ء تک چمڑے کا کاروبار کرچکے ہیں۔
محمد عظیم کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب مینگورہ کے مشہور چینہ مارکیٹ کے ساتھ چمڑا تیار کرنے کے لیے بڑے بڑے تھال آگ کے اوپر رکھے جاتے۔ کہتے ہیں کہ حاجی صاحب (مرحوم) نے ایک دن سفر میں گپ شپ کے دوران میں ہمیں بتایا کہ میانگل اورنگزیب (مرحوم) نے چمڑا تیار کرنے کا عمل رُکوایا اور کہا کہ اس سے نہ صرف ندی کا صاف پانی گندا ہوتا ہے، بلکہ تعفن بھی پھیلتی ہے۔ اُس دن کے بعد ندی کنارے چمڑا تیار کرنے کا کام ختم کیا گیا۔
اس بات کی تصدیق حاجی صاحب (مرحوم) کے صاحب زادے حاجی فضل اللہ بھی کرتے ہیں۔
محمد عظیم کہتے ہیں کہ حاجی صاحب (مرحوم) کی کامیابی کا راز شاید دو باتیں تھیں۔ ایک وہ سود سے ایسا دور بھاگتے، جیسے آدمی خود کو آگ سے دور رکھتا ہے، تاکہ جل نہ جائے۔ دوسری بات، وہ اپنی والدہ صاحبہ کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے تھے۔
محمد عظیم کے بقول، حاجی صاحب (مرحوم) نے ایک دفعہ اپنے والد کے انتقال اور خاص کر اُن کی تدفین کے وقت کا احوال کچھ اِن الفاظ میں میرے گوش گزار کیا: ’’جب میرے والد کی تدفین کی جا رہی تھی، تو اُس وقت ایک مولانا صاحب نے سود کی ممانعت پر بار بار زور دیا۔ جیسے ہی مَیں گھر لوٹا اور والدہ صاحبہ سے اس بابت پوچھا، تو والدہ فرمانے لگیں کہ تیرے والد (مرحوم) نے کچھ پیسا سود پر دے رکھا ہے۔ بس اُسی وقت مَیں نے پیسا اکھٹا کیا۔ سود الگ کرکے خالص پیسا جو اُس وقت 18 سو روپیا بنتا تھا، کاروبار میں لگا دیا۔ ‘‘
حاجی صاحب (مرحوم) کے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ بیٹوں میں سب سے بڑے ’’حاجی محمد رسول خان‘‘، ’’حاجی فضلِ سبحان‘‘، ’’حاجی فضل اللہ‘‘، ’’حاجی فضل ربی‘‘ اور ’’حاجی فضل رحمان‘‘ ہیں۔ اس طرح حاجی فضل اللہ کے بقول، حاجی صاحب (مرحوم) کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسویں کی تعداد 50 سے زاید ہے۔
محمد عظیم کہتے ہیں کہ حاجی صاحب (مرحوم) خوش خور انسان تھے۔ چپلی کباب شوق سے کھاتے تھے۔ سوات سے باہر جانا ہوتا، تو تخت بھائی کا مشہور چپلی کباب چٹخارے لے لے کر تناول فرماتے۔ گرمیوں میں سوات کے سیاحتی مقام بحرین کی سیر ضرور کیا کرتے۔ ایک تو حاجی صاحب (مرحوم) میں برداشت کا مادہ زیادہ تھا اور اُس کے ساتھ فیصلہ سازی کی قوت بھی اُن میں کمال کی تھی۔ یہی خوبیاں ہی اُنھیں ایک کامیاب کاروباری شخصیت بنا گئیں۔
اباسین کارپٹس کا نام پڑنے کے حوالے سے محمد عظیم کہتے ہیں کہ جب 90ء کی دہائی میں کارپٹس کا کاروبار شروع کرنے کا حاجی صاحب (مرحوم) نے ارادہ کیا، تو اُس روز اتفاق سے ریل گاڑی (اباسین ایکسپریس) میں محوِ سفر تھے، اُسی ایکسپریس کے نام پر نئے کاروبار کا نام ’’اباسین کارپٹس‘‘ رکھا۔
قومی شناختی کارڈ میں حاجی صاحب (مرحوم) کی تاریخِ پیدایش 1929ء درج ہے۔ 17 جنوری 2023ء کو انتقال کرگئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔