ویسے تو جاپان پوری دنیا میں بہترین ٹیکنالوجی کے لئے مشہور ہے اور یہاں کی کاریں اور الیکٹرانکس اشیا کی مضبوطی اور پائیداری کی وجہ سے دنیا بھر کے صارفین اس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، تاہم جاپانی قوم اپنی منفرد ثقافت اور روایات کے لئے بھی دنیا بھر میں جانی اور مانی جاتی ہے۔ جاپان کی سیمورائے فلمیں ہوں یا ہائیکو شاعری، یہاں کے شینٹو شرائین ہو یا گینجی کی کہانی، دلفریب خواتین کا کیمونو لباس ہو یا سوشی مچھلی کاڈش، عظیم فوجی پہاڑ ہوں یا گرم پانی کے چشمے، یہاں کی سومو پہلوانی ہو یا لوگوں کا احتراماً جھکنا، سب کے سب سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں، تاہم بہت کم لوگ ’’جاپان کی اماں‘‘ کے بارے میں جانتے ہیں۔

جاپان کی امائیں (Courtesy of the Mie Prefectural Board of Education)

یہ وہ والی اماں نہیں بلکہ جاپان کے ساحلوں پر رہنے والی وہ غوطہ خور خاتون ہے، جو سمندر میں غوطہ لگاکر سمندری سیپیاں، جھینگا مچھلی اور سمندری گھونگھے جمع کرکے باہر لاتی ہے۔ جاپانی زبان میں اماں کے معنی ماں کے نہیں بلکہ ’’سمندری عورت‘‘ کے ہیں۔ جب کہ بعض اوقات ان مردوں کو بھی اماں کہتے ہیں جو سمندر میں سیپیوں اور سمندری گھونگھوں کے لئے غوطے لگاتے ہیں۔
’’اماں‘‘ کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ معلوم تاریخ میں اس کے آثار دو ہزار سال تک دریافت ہوئے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بغیر اکسیجن ماسک اور جدید آلات کے سمندر کی تہہ تک جاتی ہے۔ سمندری سیپیاں اور گھونگھے وغیرہ تلاش کرکے ایک ٹوکری میں جمع کرتی ہے اور کچھ دیر بعد واپس باہر آتی ہے۔ یوں اماں یہ عمل کئی بار دہراتی ہے اور جب اس کا شکار پور ا ہوجاتا ہے، تو واپس آکر مارکیٹ میں اسے فروخت کرکے اپنے خون پسینے کی کمائی گھر لاتی ہے۔ بعض اوقات اسے مذکورہ سیپیوں میں ہیرے بھی ملتے ہیں جس سے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔

جاپان کی اماں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بغیر اکسیجن ماسک اور جدید آلات کے سمندر کی تہہ تک جاتی ہے۔ سمندری سیپیاں اور گھونگھے وغیرہ تلاش کرکے ایک ٹوکری میں جمع کرتی ہے اور کچھ دیر بعد واپس باہر آتی ہے۔ (Courtesy of the Mie Prefectural Board of Education)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پیشہ سے وابستہ خواتین میں سے زیادہ تر کی عمریں 70 یا 80 سال کے لگ بھگ ہوتی ہیں، مگر پھر بھی بڑی پھرتی سے یہ سمندر کے اندر جاکر شکار کرتی ہیں۔ ان خواتین کے لئے سمندر میں غوطہ لگانا محض سیپیاں، گھونگھے تلاشنا یا آمدنی کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک طرح سے ان کے لئے روحانی عمل ہوتا ہے۔ سمندر کے ساتھ ان کا جذباتی لگاؤ ہوتا ہے۔ یوں کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ سمندر اور اماں کا رشتہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس رشتہ کو ہم سمندر اور اماں خاتون کی پریم کہانی کا نام دے سکتے ہیں۔
میرے جاپان کے دورے میں میری ملاقات ’’شیما‘‘ نامی جگہ میں 65 سالہ اماں ’’یوشی اوزاکی‘‘ سے ہوئی جو غوطہ خوری اور سمندر کے ساتھ جنون کی حد تک محبت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ سمندر میں غوطہ خوری اور گھونگھے مچھلیاں پکڑنے کا عمل اسے جوان رکھتی ہے: ’’مجھے سمندر میں پہلا غوطہ لگانے سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ ہر رات میں صبح ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہوں کہ کب رات ڈھلے گی اور میں سمندر میں غوطہ لگاؤں گی۔‘‘ یوشی اوزاکی نے مجھ سے کہا۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے آگے کہتی ہے کہ پیسے کمانے سے زیادہ اسے سیپیاں اور گھونگھے مچھلیاں پکڑنے سے دلی سکون ملتا ہے۔ اس کی جوانی کے دنوں میں ہر دوشیزہ کا یہ خواب ہوتا تھا کہ کب وہ سمندر میں غوطہ لگانا اور پھر سیپیاں اور گھونگھے پکڑنا سیکھے گی۔

پیسے کمانے سے زیادہ اسے سیپیاں اور گھونگھے مچھلیاں پکڑنے سے دلی سکون ملتا ہے۔ (Courtesy of the Mie Prefectural Board of Education)

وہ کہتی ہے: ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح مجھے خوشی کی اتنہا نہ تھی جب میں نے پہلی دفعہ سمندر میں غوطہ لگایا تھا اور شکار پکڑا تھا۔‘‘ وہ تھوڑی شرمیلی مگرانتہائی جذباتی ہوکر کہنے لگیں کہ سمندر میں غوطہ لگانا اور شکار کھیلنے میں اتنا مزہ اور خوشی ملتی ہے کہ اگر دوسرے پیشوں کے افراد ایک دفعہ غوطہ لگائیں اور شکار کھیلیں، تو وہ ہمیشہ کے لئے اپنے پیشے چھوڑ کر غوطہ خوری کرنے لگ جائیں اور سمندری گھونگھوں کا شکار ہی کرنے لگ جائیں۔ تاہم وہ اس بات پر رنجیدہ ہے کہ نئی نسل غوطہ خوری اور شکارکا پیشہ اپنانا نہیں چاہتی اور اسی لئے جاپان کی اس قدیم روایتی اماؤں کا پیشہ سکڑ رہا ہے۔ ’’میں مرتے دم تک سمندر میں غوطہ خوری اور مچھلیوں کا شکار کھیلوں گی۔ کیوں کہ مجھے سمندر سے پیار ہے۔ یہ محض غوطہ خوری نہیں بلکہ میرے اور اس پانی کے درمیان جذباتی لگاؤ ہے۔ پانی جب مجھے مس کرتا ہے، تو میرے اندر عجیب جذباتی کھیل شروع ہوجاتا ہے اور پھر میں شکار کھیلتی ہوں اور یہی احساسات مجھے جوان رکھتے ہیں۔‘‘ اس کی آنکھوں کی چمک اور جسم کی لرز ش میں نے صاف طور پر محسوس کی۔

مصنف کی اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک جاپانی ماں کے ساتھ باجماعت تصویر۔

جاپان میں اماں گھونگھے اور سیپیاں جمع کرنے کے اس پیشے میں تنہا نہیں ہوتی۔ بیشتر اوقات میں اماں اور اس کا مرد اکٹھے سمندر جاتے ہیں اور جب اماں سمندر میں غوطہ مار کر اندر جاتی ہے، تو اس کا مرد کشتی میں اس کا انتظار کرتا ہے۔ اماں جب سمندر میں غوطہ لگاتی ہے، تو ایک رسی اس کے ساتھ نیچے جاتی ہے جس کا ایک سرا کشتی سے اور دوسرا اماں سے جڑا ہوتا ہے۔ جب اماں شکارمکمل کرتی ہے، تو رسی کو کھینچ کر اوپر اپنے مرد کو اشارہ دیتی ہے اور وہ پھر گھونگھوں اور سیپیوں سے بھری ٹوکری اور اماں کو اوپر لانے میں مدد دیتا ہے۔
یہ بات قابل ستائش ہے کہ جاپان کی حکومت اماں کے پیشے کو محفوظ کرنے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے مختلف سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں ’’می اے پریفکچر‘‘ کے تعلیمی بورڈ (The Mie Prefecture Board of Education) جو اماں کو یہاں کا ثقافتی ورثہ گردانتا ہے، اس پیشہ کو محفوظ کرنے کے لئے کئی اقدامات کر ر ہا ہے۔ اس ادارے کا ایک اہلکار ’’سکورائے تکوما‘‘ کے مطابق ان کا ادار ہ کئی اقدامات کر ر ہا ہے جس میں موجودہ اماؤں کو مراعات اور نوجوان دوشیزاؤں کو اس طرف راغب کرنا شامل ہے۔ یہ ادارہ اس پیشہ کو سیاحت سے بھی جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطا بق ’’می اے پریفکچر‘‘ میں 2010 ء میں 978 اماں خواتین تھیں جن کی تعداد سال 2014ء میں 755 رہ گئی تھی، تاہم یہ ادارہ پُرامید ہے کہ وہ اس منفرد ثقافتی پیشے کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ادارہ اس قدیم روایتی اور ثقافتی پیشہ کو یونیسکو کی عالمی ورثہ کی لسٹ میں شامل کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔
اگر آپ جاپان میں ہیں یا جاپان جانے کے خواہش مند ہیں، تو آپ بھی جاپان کی اماں سے ضرور ملیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ آپ کی زندگی کا منفرد اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔ اماں ایک کردار نہیں بلکہ ایک تاریخی اور ثقافتی تسلسل ہے اور یہ محض جاپانی خاتون اوراس کی آمدنی کا پیشہ نہیں بلکہ نسوانیت، سمندر کا پانی اوسمندری گھونگھوں کے درمیان جذبات اور کیفیات کا رشتہ ہے جسے ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔
کیوں کہ اگر اماں نے سمندر جانا چھوڑدیا، تو اس سے نہ صرف یہ قدیم ثقافتی پیشہ ختم ہوجائے گا بلکہ جاپان کے سمندر بھی افسردہ رہ جائیں گے۔

……………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔