عمران خان کی گرفتاری کے بعد پورا ملک بند ہوگیا، نہ صرف بند ہوگیا …… بلکہ مشتعل کارکنوں نے آگ لگا دی۔ ان فسادات میں درجنوں افراد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔
ایسا لگتا ہے کہ انا پرستی، ذاتی خواہشات، بے ایمانی اور بلیک میلنگ کے ذریعے ملک کو آگ میں دکھیل دیا گیا ہے اور اداروں کو مزید کم زور بنایا جا رہا ہے۔ ایسی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں کہ جنھیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کچھ لوگ انقلاب کی باتیں بھی کررہے ہیں۔ خمینی کا انقلاب پڑھیں، یا فرانس کا…… زارِ روس کا حال پڑھیں، یا کسی بھی قوم کا جو اوپر اٹھتی ہے۔ درجۂ دوم و سوم قسم کی لیڈر شپ ہمیشہ ایسے معاملات میں ثانوی ہوجاتی ہے، جب عوام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتی ہے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
اب سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے حوالے سے باتیں چل رہی ہیں کہ وہ اس ساری صورتِ حال میں کہا ہے؟ کسی کو فواد چوہدری نہیں نظر آ رہا، تو کسی کو شاہ محمود غائب لگ رہا ہے۔ کوئی پرویز خٹک، مراد سعید اور کوئی کسی پر چڑھ دوڑا ہے کہ بھئی وہ سب سیاست دان ہیں جب کہ خان صاحب ’’لیڈر‘‘ ہیں۔ ماؤزے تنگ اور خمینی کے کتنے ساتھیوں کو جانتے ہیں آپ……؟ ثانوی لیڈران کی چاندی صرف درجۂ اولا کے لیڈر کے ساتھ رہنے میں ہے۔ اس لیے یہ سب عمران خان کے ساتھ ہیں۔
ایک اور بات بھی اب واضح ہوگئی ہے کہ عمران خان ماضی کے تمام سیاست دانوں سے بڑے لیڈر ثابت ہوئے ہیں۔ بھٹو پھانسی لگ گیا، ملک بند نہ ہو ا۔ میاں نواز شریف گرفتار ہوا، لوگ باہر نہ نکلے۔ لیکن عمران خان کی گرفتاری سے انٹرنیٹ، سکول، ٹرانسپورٹ اور مارکیٹوں سمیت پورا ملک بند ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی، تو پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر ہے، عوام کا حال انتہائی خراب ہے، دو وقت کی روٹی کھانے والے اب ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، گندم عام مارکیٹ میں 5 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مزید مہنگی بھی ہو جائے گی۔ کیوں کہ اس کی غیر قانونی سمگلنگ پورے زور شور سے جاری ہے۔ افغانستان میں پاکستان کی گندم کی سپلائی کنٹینروں کے حساب سے پہنچائی جارہی ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی، تو 6 ماہ بعد پاکستان میں گندم نایاب ہوگی اور جس کے پاس ہوگی، وہ منھ مانگی قیمت لے گا۔
ہماری حکومت کو چاہیے کہ ملک میں سیاسی افراتفری پیدا کرنے کی بجائے ملکی معیشت پر توجہ دے۔ کیوں کہ اس وقت عام لوگوں کا جینا مشکل ہورہا ہے۔ روٹی 25 روپے کی ہونے جا رہی ہے۔ روزگار نہ ہونے سے بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، جس سے جرائم اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اب رات کو باہر نکلتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔
کراچی کی صورتِ حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ گلی محلوں میں ڈکیتیاں عام ہیں۔ آئے روز فائرنگ کے تبادلوں میں شہری اور ڈاکو ہلاک ہورہے ہیں۔ رہی بات پولیس کی، تو وہ اس حد تک بدنام ہوچکی ہے کہ عام شہری بھی حصولِ انصاف کے لیے تھانے جانے سے کتراتا ہے۔ ہمارے ان ’’شیر جوانوں‘‘ کی آشیر باد سے ہمارے گلی محلوں میں منشیات عام فروخت ہورہی ہیں…… بلکہ کچھ جگہوں پر تو پولیس اہل کار خود اس گھناونے کام میں مصروف ہیں۔ اب عمران خان کی گرفتاری کے بعد پولیس کا رہا سہا امیج بھی خطرے سے دوچار ہے۔ ہماری پولیس، حکم رانوں کے گھر کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ افسران اپنی من پسند تعیناتیاں حاصل کرنے کے لیے حکم رانوں کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن کی آڑ میں کروڑوں روپے کا بجٹ ہضم کیا جارہا ہے۔ جیک آباد سے تعلق رکھنے والے ایک باخبر دوست نے بتایاکہ کچے میں فرضی آپریشن ہو رہا ہے، وہاں پر تو ڈاکوؤں نے پوست کی کاشت کر رکھی ہے، جس کی فروخت سے وہ کروڑوں روپے کماتے ہیں اور پولیس اس میں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔ اب جو آپریشن ہورہا ہے، اُس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ ہماری فورس ڈاکوؤں کے ساتھ مصروف ہے۔ اس لیے الیکشن کے لیے سیکورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی۔
کچے کے یہ ڈاکو اتنے مضبوط ہیں کہ ہر سال انکے خلاف آپریشن ہوتا ہے، لیکن آج تک انھیں ختم نہیں کیا جاسکا۔ اس ساری صورتِ حال سے آپ ہماری فورس کا اندازہ لگالیں کہ جو کچے کے ڈاکو ؤں کا صفایا نہیں کرسکی، وہ پکے کے ڈاکوؤں کو کیسے پکڑے گی؟ یہی وجہ ہے کہ عوام کا پولیس سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ یہ بہت بری اور خطرناک صورتِ حال ہوتی ہے کسی بھی ملک کی پولیس کے لیے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پولیس کا جو حشر مَیں نے دیکھا، وہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے ہمیں فوراً انتقامی کارروائیوں سے پیچھے ہونا پڑے گا۔ ورنہ پھر حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ کیوں کہ عمران خان کی گرفتاری سے اب سب کو اندازہ تو ہوچکا ہے کہ نہ صرف لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور ملتان سمیت ملک بھر میں ایک نہ ختم ہونے والا احتجاج شروع ہوچکا ہے، بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی ہیں، وہ عمران خان کے حق میں احتجاج کررہے ہیں۔
اس سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بھی بدنامی ہورہی ہے۔ اس صورتِ حال سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عوام اور ملک کا کوئی بھی اورکچھ بھی نہیں سوچ رہا۔ مفادپرستوں نے میرے ملک کو جنگل بنادیا ہے۔
اب رہی بات پی ٹی آئی پر پابندی کی، تو ایسا اگر ہوگیا، تو یہ بھی ایک بدترین مثال ہوگی۔ اس سے عمران خان یا اس کے ساتھ جڑے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ عمران خان کی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل مَیں نے لکھا تھا کہ اُنھیں اِس وقت گرفتار کرنا درست نہیں ہوگا۔ کیوں کہ عوام کا ردِ عمل آئے گا، لیکن حکومت نے انھیں گرفتار کرکے ملک میں افراتفری کی سیات کا آغاز کردیا ہے۔ لگتا ہے کہ اس کی ابتدا کرنے والے اس کے انجام سے بے خبر ہیں۔ اللہ پاکستان پہ رحم فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
