وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھارت نے جو سلوک کیا اور جو بھد بلاول بھٹو نے انٹرویوز میں بھارت کی اڑائی، وہ دنیا براہِ راست دیکھ اور سن چکی ہے…… لیکن یہ بات واضح ہوگئی کہ اس دورے نے پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے امکانات پر پانی پھیر کر رکھ دیا۔
ارشاد محمود کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irshad-mehmood/
پاکستان کا شنگھائی وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ دانش مندانہ تھا۔ بلاول بھٹو کی شرکت اس لیے بھی ضروری تھی کہ شنگھائی تعاون تنظیم چین کا ’’برین چلڈ‘‘ ہے۔ اس کی ناکامی سے چین کی سبکی کا خدشہ بھی لاحق تھا۔ علاوہ ازیں اگر پاکستان وہاں موجود نہ ہوتا، تو غالب امکان تھا کہ بھارت، پاکستان کے خلاف کوئی قرارداد پاس کرالیتا یا پھر بھارت یک طرفہ طور پر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو ہوا دیتا۔
بلاول بھٹو نے کانفرنس میں اور بعد ازاں انٹرویوز میں بڑی مہارت اور مدلل انداز میں نہ صرف پاکستانی نقطۂ نظر بیان کیا، بلکہ بھارت کے دوغلے پن اور مسلمانوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی اور بھارتی حکومت کے متعصبانہ رویہ کی قلعی بھی کھول دی۔ بھارتی میڈیا کے ذریعے متبادل نقطۂ نظر بھی اُجاگر کیا، البتہ
آئینہ اُن کو دِکھایا تو برا مان گئے
کشمیر کے حوالے سے بلاول بھٹو نے جو موقف اختیار کیا، وہی قومی موقف ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی بھی یہی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آئین کا آرٹیکل 370 اور 35 اے بحال کرے، تو دونوں ممالک مذاکرات کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ یہ نقطۂ نظر صائب اور اُصولی ہے۔
بلاول بھٹو کے دورے کے دوران میں پیدا ہونے والی تلخی اور کشیدگی کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنرل (ر) باجوہ کے دور سے چلنے والی خفیہ مفاہمت ہوا میں اُڑ گئی۔ جنرل باجوہ کی کشمیر پالیسی نے بھارت کو موقع دیا تھا کہ وہ بغیر کسی ردِ عمل کے خوف کے کشمیریوں کی تحریک کو کچلے۔ لیڈر شپ کو جیلوں میں محبوس کرے اور سیاسی آزادیوں کا گلا گھونٹ دے اور کوئی آہ و بکا کرنے والا بھی نہ ہو۔
گذشتہ چند ماہ میں قومی سطح پر جنرل باجوہ کی کشمیر پالیسی کو جس طرح بڑے پیمانے پر زیرِ بحث لاکر مسترد کیا گیا، اُس نے مقتدر قوتوں کو یہ باور کرایا ہے کہ قوم کشمیر پر ’’سودے بازی‘‘ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بند کمروں میں کشمیر پر ہونے والے فیصلوں کی کوئی بھی سیاسی اُونر شپ لینے کو دست یاب نہ ہوگا۔ جو سیاست دان ایسا کریں گے، عوام انھیں مسترد کردیں گے ۔
افسوس! تمام تر معلومات، تجزیہ اور ماہرین کی موجودگی کے باوجود جنرل باجوہ یہ ادراک نہ کرسکے کہ بھارت انھیں کوئی رعایت نہیں دینے والا۔ حالاں کہ بھارت کے پاکستان کے تئیں رویے کے اسباب بہت واضح ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی، پاکستان سے محاذآرائی اور کشمیریوں کو جسمانی اور نفسیاتی تشدد کانشانہ بنانے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت داخلی سیاسی کامیابیوں کو خارجہ پالیسی یا خطے میں امن کی خاطر قربان نہیں کرتی۔
دوسرا پہلو بھارت کا چین کے ساتھ سرحدی تنازع اور چین اور امریکہ کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی ہے۔ بھارت کو امریکی امداد اور سفارتی حمایت ہر وقت اس لیے دست یاب رہتی ہے، تاکہ وہ چین کے خلاف امریکی کی طرف سے جاری مہم کا سرگرم شراکت دار بنا رہے۔ اسی پس منظر میں پاک چین اکنامک کوریڈور کے خلاف وہ متحرک رہتا ہے۔ حالیہ شنگھائی کانفرنس میں بھی بھارت کے وزیرِ خارجہ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ بھارت جغرافیائی کنکٹویٹی کی حمایت کرتا ہے لیکن اپنی علاقائی سالمیت کی پامالی کی قیمت پر نہیں۔ باالفاظ دیگر انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان سے گزرنے والی پاک چین راہ داری پر اسے قبول نہیں۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کی نگاہ سے عمومی طور پر یہ پہلو اُوجھل رہتاہے کہ بھارت میں برسرِاقتدار طبقہ عالمی حمایت، معاشی ترقی، مالی استحکام اور پاکستان کے داخلی انتشار کی بدولت پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ پاکستان کے ساتھ صرف اپنی شرائط پر مفاہمت چاہتا ہے۔ جیسے کہ باجوہ صاحب کے دور میں بھارت کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان کشمیر کو منجمند کردے گا اور صرف دو طرفہ تجارت پر توجہ مرکوز رہے گی۔ اسی وجہ سے مودی پاکستان کا دورہ کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں بھارت کے حکم ران طبقے میں زیادہ تر افراد سخت گیر اور جنگجویانہ مزاج رکھنے والے ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ وزیرِ خارجہ جے ایس شنکر نہ صرف نک چڑھے اور طاقت کے نشے میں چور ہیں، بلکہ وہ دنیا بھر کو بھارت کی عزت اور تکریم کا بھاش دیتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے گفت گو کرتے ہوئے وہ اکثر توازن کھو دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو پر انھوں نے رکیک حملے کیے۔ وہ اسلام آباد کو دہشت گردوں کا مرکز اور وکیل کہتے ہیں۔ جے ایس شنکر کی کابینہ میں ہم نوا ہیں نیشنل سیکورٹی ایڈوائز اجیت ڈول، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی حکومت کو یہ سمجھاتے آئے ہیں کہ پاکستان سے بات چیت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، لہٰذا ساری توجہ اسے ’’فکس‘‘ کرنے یعنی اس کا مکھو ٹھپنے پر مرکوز کی جائے۔ وزیرِ داخلہ امیت شاہ جو وزیرِ اعظم مودی کا بازوئے شمشیر زن ہیں، وہ بھی کشمیر یا پاکستان بارے کسی لچک کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ناسازگار ماحول میں مذاکرات یا مفاہمت کی بھیک مانگنے کے بجائے پاکستان کو کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ روز روز جو پالیسی بدلی جاتی ہے، وہ کشمیریوں کو بھی کنفیوژ کردیتی ہے اور داخلی طور پر پاکستان کو عدمِ استحکام کا شکار کرتی ہے۔ کشمیر کے اندر سے آنے والی اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں پرجو خوف طاری کررکھا تھا، وہ بتدریج ہوا ہورہاہے۔ بھارت نواز کشمیری سیاسی جماعتوں کو کم زور کرنے سے بھی بھارت کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ کشمیریوں کو اپنی شناخت اور مسلم کلچر کے تحفظ کی فکر دامن گیر ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے کو لوگ تیار نہیں۔
تمام تر کوششوں کے باوجود کشمیر میں امن بحال نہیں ہوسکا۔ آئے روزشہریوں یا سرکاری اہل کاروں کی ہلاکتوں کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ کریک ڈاؤن معمول بن چکا ہے۔ سیاسی لیڈر اور کارکنوں سے بھارتی جیلیں بھری پڑی ہیں۔ میڈیا بالخصوص اخبارات کو سرکاری ہینڈ بل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہزاروں نوجوانوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کو پُرامن دکھانے کے لیے بھرتی گیا ہے، لیکن اس کے باوجود جو حقائق منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں، جو اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ کشمیری خوف زدہ ضرور ہیں لیکن مطمئن اور خوش ہر گزز نہیں۔
مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات جیسے اُمور پر قومی سطح پر وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ کشمیر پر ایک دوسرے کو ’’غدار غدار‘‘ قرار دینے کا سلسلہ اب تھم جانا چاہیے۔ اس موضوع پر ساری قوم ایک پیج پر ہونی چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔