ایک مرتبہ ایک صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا، جو بااثر طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم انسان یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سماجی مخلوق ہیں اور ہماری زیادہ تر گفت گو غیر زبانی اشاروں (Non-verbal Cues) میں ہوتی ہے۔ جناب کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا، لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ ان کا اسٹیٹس بدل گیا۔ انھوں نے ہر ممکن کوشش کر رکھی تھی کہ وہ ہر زاویے سے ایلیٹ کلاس معلوم ہوں اور وہ ہوبھی رہے تھے، لیکن محض حلیے سے…… کچھ ہی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ انھیں کتنی محنت کرنی پڑرہی ہے اپنے اس مکھوٹے کو لگائے رکھنے میں…… اور جو کچھ بھی وہ کَہ رہے ہیں اور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اُسے کرنے کی دراصل انھیں کوئی عادت نہیں۔ عادت تو شاید ہوجاتی ہے وقت کے ساتھ، لیکن سب سے اہم بات انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
ہم عموماً ایسے لوگوں پر ہنستے ہیں یا اُن پر تنقید کرتے ہیں، لیکن مجھے اُن کے لیے ہم دردی محسوس ہوئی۔ اس لیے نہیں کہ مَیں اچھی عورت ہوں بلکہ اس لیے کہ اوّل تو میرا تعلق نفسیات کی فیلڈ سے ہے (نفسیات پڑھنا صرف لوگوں میں بیماریاں ڈھونڈنا نہیں ہوتا، بلکہ لوگوں کے جذبات کو بلا امتیاز سمجھنے والا ہی اصل نفسیات دان ہے۔ ایسا ہماری سائیکو تھراپی پڑھانے والی استاد کہتی ہیں) اور مجھے معلوم تھا کہ وہ کس جذبے (Emotion) کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں۔دوسرا یہ کہ اِس سب سے میں خود بھی گزر چکی ہوں…… اور شاید ہم سب ہی گزرتے ہیں……!
اس مکھوٹے کے پیچھے کیا ہوتا ہے؟
اس کے پیچھے شیم (Shame) ہوتا ہے۔ آج ہم انسانوں کی لت اور ان کے عجیب رویوں کی جڑ میں موجود شیطان (یعنی شیم) پر بات کریں گے۔ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے شیم!
اکثر دیکھے ہوں گے آپ نے ایسے مرد حضرات، جو خواتین کو حاصل کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو! مَیں کتنا کول (Cool) اور عورتوں کو بے وقوف بنانے میں ماہر ہوں! مَیں جال بچھاتا ہوں اور لڑکیاں پھنس جاتی ہیں۔ ایسے لوگ معنی خیز رشتے ( Deep Meaningful Relationships) بنانے سے ڈرتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر کسی نے بہت قریب سے ان کا شیم یا ان کے زخمی حصے (Vulnerable Parts) دیکھ لیے، تو شاید وہی عورتیں ان سے نفرت کرنے لگیں گی۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے گہرائی میں جانیں اور مجھ سے نفرت کریں، کیوں نہ مَیں کول بندہ (Cool Dude) بن جاؤں، جو کپڑوں کی طرح خواتین دوستوں کو بدلتا ہے اور کسی کے جذبات کا احساس نہیں کرتا۔
دیکھی ہوں گی آپ نے ایسی خواتین، جو دوسروں کو خوش کرنے میں زندگی گزار دیتی ہیں۔ اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کرتیں، جو کہتی ہیں کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے…… انہیں لگتا ہے کہ وہ مزید شرمندہ (Shameful) ہوجائیں گی، اگر انھوں نے اپنی ضروریات کا اظہار کیا۔ کیوں کہ وہ اس سب کی حق دار نہیں…… یا پھر وہ لڑکی جو اکثر لڑکوں اور لڑکیوں سے کہتی پھرتی ہے کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، مَیں کبھی کسی کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتی، مَیں بہت کول لڑکی (Cool Girl) ہوں، مَیں نے یہ ڈرگز (Drugs) بھی لی ہے، مَیں یہ پارٹی کرتی ہوں، مَیں نے وہ ایڈونچر کیا ہے، مَیں یہ کرسکتی ہوں، مَیں وہ کرسکتی ہوں، مَیں بس لوگوں کے ساتھ کھیلتی ہوں……وغیرہ وغیرہ۔ اس سب کی تہہ میں ’’شیم‘‘ ہوتا ہے ۔
کہیں شیم کو ہم اندر محسوس کرتے ہیں اور اس کا اظہار دوسروں کو شرمندہ کرکے یا پھر اکثر اپنا شیم دوسروں پر ڈال کر (Projection) اسے محسوس نہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو کہیں اسے باہر کی جانب دھکیلتے ہیں دوسروں کے سامنے اپنا آپ ثابت کرکے کہ کیسے دِکھتی/ دِکھتا ہوں…… کون کیا بگاڑ لیتا ہے میرا…… مَیں وہ سب کروں گی/گا…… کیوں کہ مَیں کسی سے نہیں ڈرتی/ ڈرتا وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ اس قسم کے شدت پسندانہ رویوں کا صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔
آپ کی لت (Addiction) کی گہرائی میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جب آپ کو شیم کیا جاتا ہے بچپن میں، جب آپ کو ’’ابیوز‘‘ سہنا پڑا ہوتا ہے، جب آپ کا دماغ ان بڑے بڑے جذبات اور واقعات کو سمجھ (Process) نہیں پاتا، جب سوسائٹی آپ کو آپ کے کھرے پن پر شرمندہ کرتی ہے، تب آپ کو وقتی طور پر سکون دینے والی کچھ عادتیں/ چیزیں کب لت میں بدل جاتی ہیں…… پتا ہی نہیں لگتا۔ آپ گھنٹوں ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ خریداری کرتے ہیں۔ کھانے سے بھوک نہیں بلکہ اندر موجود شیم کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ شیم کو پراسس (Process) کرنا زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہے، تو کیوں کہ مَیں اپنی لت سے خود کو مشغول (Distract) یا سن (Numb) کرلوں۔
ہماری استاد کہتی ہیں کہ ہمارے ملک کی بنیاد اور آب و ہوا میں شیم بہت گہرائی میں پیوست ہے۔ ہندوستان سے علاحدگی اور پھر اس کے بعد کے حالات اور ابھی تک اگر آپ جائزہ لیں، تو ہمارا معاشرہ شیم جیسی کم ارتعاش والی توانائی (Low Vibration Energy) میں دھنسا ہوا ہے۔ اس ملک کے نظام اور ہمارے معاشرے کو جو بھی قریب سے جانتا ہے، وہ اس کی بدصورتی کو مزید گہرائی میں دیکھ لیتا ہے۔ یہاں طاقت کی بھوک اور کم زور کو مزید شیم کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ ہمارے اندر شرمندگی کا احساس بہت گہرائی میں پیوست ہے۔ ہمت ہے 22 کروڑ عوام کی، جو رِہ رہے ہیں اس ملک میں…… اس ملک میں رہنے کے لیے خود کو سراہیں۔ کیوں کہ اس آب و ہوا میں رہنا آسان نہیں۔ ایک دوسرے کو سراہیں کہ کیسے آپ صبح سے شام تک موجودہ ذرائع میں اس شرمندگی سے بھرے نظام میں اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں۔
مَیں نے آپ سے کہا تھا نا کہ نفسیات دان کہتے ہیں کہ نارساسزم (Narcissism) کی تہہ میں شرمندگی (Shame) ہوتا ہے، تبھی انھیں طاقت اور تعریف کی بھوک ہوتی ہے۔ طاقت اور تعریف کی بھوک ہم سب کو ہوتی ہے، لیکن اگر نہ ملے، تو ڈپریشن (Depression) ہر کسی کو نہیں ہوتا۔ زیادہ تر نارساسسٹ گزرتے ہیں ڈپریشن سے۔ تعریف اور طاقت کی حقیقت پسندانہ مقدار کا معلوم نہ ہونا نارساسسٹ کو حقیقت کا سامنا کرنے پر ڈپریشن میں لے جاتا ہے۔ کیوں کہ حقیقت میں کوئی بھی انسان بس ایک حد تک طاقت، تعریف اور توثیق حاصل کرسکتا ہے اور نارساسسٹ لوگوں کو وہ حد معلوم نہیں ہوتی، تبھی جب حقیقت سے سامنا ہوتا ہے، تو ان کی جھوٹی بڑی شبیہ (Fake Image) ٹوٹ جاتی ہے اور پھر ڈپریشن اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔
اپنے اندر کے شیم کو شفایاب کیجیے۔ غور کیجیے کہ یہ شیم جو آپ کے جسم میں برے احساسات (Unpleasant Sensations) لے کر آرہا ہے، یہ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے اپنے فائدے یا محدود نظریات کی وجہ سے آپ میں اس شرمندگی کو منتقل کیا جو اس کے اپنے اندر تھی…… جیسے ہمارے ملک کے افسران اور حکم ران اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اس نظام میں کم زور کو اور بھی شرمندہ کرتے ہیں۔ کیوں کہ شیم سے انسان کو بہت آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ والدین بچوں کو شیم کرتے ہیں، تاکہ ان پر اپنا اختیار قائم رکھ سکیں…… اور میڈیا بھی یہی کرتا ہے۔
شیم سے کیسے نمٹنا ہے؟
وہ سب کام کریں جس سے کرنے سے آپ شیم محسوس کرتے ہیں۔ جب بھی شرمندگی محسوس ہو، تو اپنے الفاظ پر غور کریں (’’مَیں ہمیشہ غلط ہوتا ہوں‘‘ کی بجائے یہ بولیں ’’مجھ سے اکثر غلطیاں ہوجاتی ہیں‘‘۔ ان دونوں جملوں میں نمایاں فرق ہے۔) آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ جو ہیں، جیسے ہیں، اللہ نے آپ کو ہر لحاظ سے بہتر بنایا ہے۔ زین بدھسٹ (Zen Buddhist) کہتے ہیں کہ آپ پہلے ہی کامل (Perfect) ہیں، تو پھر اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے اپنے اندر؟ ان کا یہ فلسفہ ’’وابی سابی‘‘ (Wabi-Sabi) پر مشتمل ہے، جس کا مقصد نامکمل چیزوں اور غلطیوں (معاشرے کی نظر میں) میں خوب صورتی ڈھونڈنا ہے۔ آپ میں یہ شیم اور شرمندگی معاشرے اور لوگوں نے پیوست کی ہے اور وہ بھی اپنے فائدے کے لیے۔ اس سے خود کو آزاد کریں اور جب آپ آزاد ہوجائیں گے، تب آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کو کسی کے سامنے خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اور آپ کے جذبات آپ کے اپنے اختیار میں ہیں۔
پھر آپ کو اُن بااثر صاحب جن کا مَیں نے ذکر کیا اور میری طرح کئی لوگوں کی طرح جان کر دوسروں کو ثابت کرنے کے لیے وہ سب کرنے کی ضرورت نہیں جس میں آپ کو دلچسپی نہیں۔
شرمندگی (Shame) اور احساسِ جرم (Guilt)میں کیا فرق ہے؟ احساسِ جرم تب ہوتا ہے جب آپ سے کوئی غلطی ہوجائے یا کوئی بھی برا رویہ جس کی آپ معافی مانگ لیتے ہیں۔ لیکن شرمندگی سے مراد یہ ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ میں کمی ہے، یا آپ کسی خاص چیز کے حق دار نہیں۔ آپ میں کوئی مسئلہ ہے۔ یہ بہت گہرائی میں ہوتا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ بنیادی طور پر ناقص ہیں اور اس ناقص والے احساس کو محسوس نہ کرنے کے لیے آپ وہ سب کرتے ہیں جو آگے چل کر آپ کو مزید تکلیف دیتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔