وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
’’موہلن وال‘‘ کے مقام پر مہنگائی کے ستائے عوام نے آٹے کا ٹرک لوٹ لیا۔ حالاں کہ یہ آٹا انھی عوام کو مفت فراہمی کے لیے وہاں لایا گیا تھا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف نے ماہِ رمضان کے دوران میں مستحقین میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب یہ اعلان کیا گیا تھا، تو ہم نے اسی کالم میں وزیرِ اعظم صاحب سے گزارش کی تھی کہ اربوں روپے کا مفت آٹا تقسیم کرنے کی بجائے یہی رقم یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو سبسڈی کی مد میں دے کر وہاں اشیائے ضروریہ سستی کر دی جائیں۔
ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ قوم کو بھیک پر لگانے کی بجائے قیمتیں کنٹرول کی جائیں۔
بہرحال جنابِ وزیرِ اعظم کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ایک حیرت ابھی تک برقرار ہے کہ قریباً 10 کروڑ سے زائد افراد کے لیے لاکھوں ٹن آٹا مفت تقسیم کیا جائے گا…… جب کہ ابھی حال ہی میں سستے آٹے کے حصول کے لیے عوام پہروں قطاروں میں لگ کر خوار ہوتے رہے…… لیکن انھیں آٹا نہیں ملتا تھا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ کبھی پیسے ہاتھ میں پکڑے عوام آٹے کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں، تو چند دن بعد انھیں مفت آٹے کی مژدۂ جاں فزا سنائی جاتی ہے۔
آٹے کے مستحقین کے لیے باقاعدہ ایک طریقۂ کار وضع کیا گیا ہے، جس کے تحت دیے گئے نمبر 8070 پر آٹا لکھنے کے بعد اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر سینڈ کرنا ہوتا ہے۔
کمپیوٹر متعلقہ فرد کا ڈیٹا چیک کرتا ہے اور خودکار نظام کے تحت مستحق افراد کو میسج مل جاتا ہے کہ وہ مفت آٹا لینے کے حق دار ہیں۔
اس کے لیے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں بننے والی ٹیموں نے ہر شہر اور قصبے میں مفت آٹا کی سپلائی کے پوائنٹ بنا دیے ہیں اور ان کی تشہیر بھی کر دی گئی ہے۔
ایسا ہی ایک ٹریکنگ پوائنٹ لاہور میں ’’موہلن وال‘‘ کے مقام پر بھی بنایا گیا ہے، جہاں اتوار 19 مارچ کو مفت آٹا لینے والے مستحقین پہنچ کر آٹے کا انتظار کرنے لگے۔
دراصل ’’موہلن وال‘‘ اور اِردگرد کا علاقہ زیادہ تر مزدور پیشہ دیہاڑی دار لوگوں پر مشتمل ہے…… جس کی وجہ سے آٹا لینے والوں کا بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ جوں ہی آٹے سے لدا ٹرک وہاں پہنچا، تو لوگوں کو احساس ہوا کہ مستحقین کی تعداد زیادہ ہے اور آٹے کی مقدار کم ہے…… چناں چہ وہ ٹرک پر ٹوٹ پڑے۔ تین نوجوان ٹرک پر چڑھے اور انھوں نے آٹے کے توڑے نیچے کھڑے لوگوں کی طرف پھینکنے شروع کر دیے۔ ہاتھ میں چھڑیاں پکڑے سرکاری عملہ روکتا ہی رہ گیا، مگر لوگوں نے رُکنا تھا…… نہ رُکے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹرک خالی ہو گیا، جس کے ہاتھ جتنے توڑے لگے، وہ لے اُڑا۔ بوڑھے اور عورتیں منھ دیکھتے رہ گئے۔
یہ واقعہ مرکز سے کہیں دور دراز مقام پر نہیں…… بلکہ لاہور میں پیش آیا ہے، جو لمحۂ فکریہ ہے۔
ایک کسان کی فصل سے خرگوش گزر گیا۔ کسان یہ دیکھ کر رونے لگا۔ لوگوں نے اس کا مذاق اُڑایا اور کہا کہ چھوٹا سا تو جانور ہے، معمولی سا نقصان ہوا ہوگا۔ آپ تو ایسے رو رہے ہیں جیسے بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔ کسان جواباً کہنے لگا: ’’رونا نقصان کا نہیں…… مَیں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ میری فصل میں سے گزرنے کا راستہ بن گیا ہے۔ اب لوگ بھی یہاں سے گزرنا شروع کر دیں گے……!‘‘
اللہ تعالا ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ موہلن وال کا واقعہ کہیں ’’خرگوش کی گزران‘‘ ہی نہ ثابت ہو جائے۔
مہنگائی عوام کی برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔ حکومت عوام کو حوصلہ دینے کی بجائے مزید مہنگائی کی خبریں سنا کر اپنی ناکامی کا برملا اعتراف کر رہی ہے۔
اگر حالات یہی رہے، تو لوگوں کے گھروں میں پڑا ہوا اناج بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
خدارا……! عوام پر رحم کیا جائے۔ ان کے خون کا آخری قطرہ بھی آپ نچوڑ چکے ہیں۔ اب ان میں مزید سکت نہیں رہی۔ ڈریں اُس وقت سے کہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام امیروں کے غلے اور اناج سے بھرے گوداموں پر ٹوٹ پڑیں۔ ان کے گارڈز گولیاں چلائیں۔ بے گناہ عوام مارے جائیں۔ ملک میں انارکی پھیل جائے اور پھر’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی آواز سنائی دے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔