عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک پر کیے جانے والے پولیس آپریشن پر عالمی اداروں، شخصیات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے آنے والے ردِ عمل نے ’’سرکاری دانش وروں‘‘ اور دسترخوان ریاست ہائے جاتی امرا کے خوشہ چینوں کو بے چین کردیا ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ عمران خاں پر مہربان ہو رہی ہے، یا پھر وہ پاکستان کو عدمِ استحکام کا شکار کرنے کے لیے ان کا ساتھ دینے کی طرف مائل ہے۔ چناں چہ کئی ایک کالم نگار، تجزیہ کار اور ’’وی لاگر‘‘ اب خلقِ خدا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وطنِ عزیز کے مخالفین عمران خاں کو شہ دے رہے ہیں۔ امریکی ان پر مہربان ہیں۔
ارشاد محمود کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irshad-mehmood/
پاکستان ہی نہیں، ایران، ترکی، ملائیشیا سمیت جہاں بھی اپوزیشن کو کچلنے کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال کیا جاتاہے، مغربی ادارے اور میڈیا اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ ملائیشیا کے موجودہ وزیرِ اعظم انور ابراہیم کو کچھ برس قبل جھوٹے الزامات اور مقدمات میں جیل میں ڈالا گیا۔ الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، تو مغربی اداروں، میڈیا او رجمہوریت نواز سیاست دانوں نے ملائیشیا کی حکومت پر کڑی تنقید کی اور انور ابراہیم کا بھرپور ساتھ دیا۔
ایران کے اپوزیشن رہنما ہوں یا ترک، سب مغربی میڈیا کی ڈرالنگ ہیں۔ جہاں جہاں حکومت حزبِ اختلاف کا عرصۂ حیات تنگ کرتی ہے، مغربی ادارے اور میڈیا ان کا حلیف بن جاتا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنا ان کی جمہوری اور لبرل اقدار کے تقاضا ہے، کوئی احسان نہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے حملوں، میڈیا پر پابندیوں، اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف طاقت کے غیر ضروری استعمال اور مخالفین سے ہتک آمیز سلوک نے پہلے ہی دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کرا رکھی ہے۔
علاوہ ازیں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت چوں چوں کا ایک ایسا مربہ ہے، جسے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور مریم نواز کی موجودگی میں دشمنوں کی ضرورت نہیں۔ ان کے بیانات اور جگتوں نے بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کے اداروں اور شخصیات کو پاکستان کے بارے میں متفکر کردیا ہے۔ کوئی دن جاتا نہیں جب یہ دونوں عمران خان کو نشانِ عبرت بنانے کی تکرار نہ کرتے ہوں۔
زیادہ پرانی بات نہیں، تحریکِ انصاف کے رہنما اعظم سواتی اور شہباز گل کو حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فواد چودھری کو ہتھکڑی لگائی گئی۔ منھ پر کپڑا ڈال کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور تو اور عمران خان پر دِن دھاڑے قاتلانہ حملہ ہوا۔ محض چودہ سال پہلے راولپنڈی کے لیاقت باغ کی دہلیز پر سابق وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو بے رحمی کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے۔
یہ واقعات دنیا کے اجتماعی حافظے پر نقش ہیں۔ اس پس منظر میں اگر عمرا ن خان کی سلامتی کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر فکر مندی پائی جاتی ہے، تو اس پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کے خلاف قائم ہونے والے سو سے زائدمقدمات کا سن کر اندھا بھی اندازہ کرسکتاہے کہ حکومت انتقام کی آگ میں جل رہی ہے۔ ہر روز ایک نیا مقدمہ اور ایک نیا ہنگامہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ طاقت ور حلقوں کی شہ پر قائم کیے جانے والے ان مقدمات کی حقیقت کسی سے ڈھکی چھی نہیں۔
عالمی میڈیا اور رائے عامہ کے سامنے عمران خاں قانون شکن نہیں بلکہ ایک ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آیا ہے، جو ریاستی جبر کا شکار ہوا ہے۔ وہ ایک ایسی حکومت کا تعاقب کر رہا ہے، جو الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ آئین سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف جسے مولانا فضل الرحمان طنزاً ’’زنانہ‘‘ لبرل حضرات برگر پارٹی اور یار لوگ فین کلب کہتے تھے، حالیہ ہفتوں میں زیادہ متحرک، منظم اور اپنے لیڈر کے ساتھ آزمایش کی ہر گھڑی میں چٹان کی ماند کھڑی ہونے والی سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ غیر موافق سیاسی حالات، انتظامیہ کی مخاصمت اور اداروں سے کشمکش نے پی ٹی آئی کو پہلے سے کئی زیادہ مضبوط سیاسی قوت بنایا ہے…… جسے اب کسی کی چھتری یا سرپرستی کی ضرورت نہیں۔
طاقت کا گھمنڈ انسان کو زمینی حقائق کا ادراک نہیں کرنے دیتا۔ پاکستان کی مقتدر قوتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ الگ دنیا کے باسی ہیں۔ جہاں گرم و سرد ہواؤں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ سیاست دانوں کو موم کی گڑیا اور جیب کی گھڑی سمجھتے ہیں۔ طاقت ور حلقوں کا خیال تھا کہ جس طرح انھوں نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ڈرا دھمکا کر کچھ عرصے کے لیے سیاست اور ملک سے باہر کیا تھا، اُسی طرح عمران خان کو بھی وہ برطانیہ نقلِ مکانی پر مجبور کردیں گے۔ ان کا یہ خیال وقت اور حالات نے غلط ثابت کیا، لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔
پاکستان بدل چکا ہے۔ یہ محض نعرہ یا خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس ملک کی آبادی کا 60 فی صد نوجوان پر مشتمل ہے، جو طبقاتی نظام سے نفرت کرتا ہے۔ ایک طرف اشرافیہ کی زرق برق طرزِ زندگی کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف بلکتی سسکتی مخلوق کو تو نفرت کی آگ میں اس کا خون کھولتا ہے۔ سوچتے ہیں کہ نہ جانے اس وطن کو کس کی نظر لگی ہے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتیں گذشتہ کئی دہائیوں سے برسرِ اقتدار ہیں۔ لوگ انھیں اپنے افلاس، بے روزگاری اور مسائل کا ذمے دار تصور کرتے ہیں۔ 90 لاکھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ان جماعتوں اور شخصیات کو دیکھ دیکھ کر عاجز آچکے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اب ان کی اولادیں تخت نشین ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ بغیر کسی محنت، ریاضت اور جد و جہد کے وہ جماعتوں کے سربراہ بن چکے ہیں جیسے یہ سیاسی جماعتیں نہیں، نجی کمپنیاں ہوں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو مسائل کے گرادب سے نکالنے کا مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو کی زنبیل میں ایسا کون سا نسخہ ہے جو نواز شریف اور زرداری صاحب کے پاس نہیں تھا۔ عوام آخر کس برتے پر ایک بار پھر ڈسنے کے لیے تیار ہوں!
میری طرح کے بہت سے لوگ عمران خان کو مسیحا نہیں سمجھتے اور نہ ان کی شخصی کم زوریوں سے ناواقف ہیں۔ یہ بھی بخوبی اندازہ ہے کہ جن گھمبیر مسائل سے پاکستان دوچار ہے، غالباً عمران خان سمیت کوئی بھی حکم ران آسانی سے ان مسائل سے نبرد آزما نہیں ہوسکتا۔ باوجود اس کے روایتی سیاسی خاندانوں سے نجات چاہتے ہیں۔اسی طرح اسٹبلشمنٹ نے 70 برسوں سے اقتدار کا جو سرکس لگا رکھا ہے، یہ کھیل بھی اب تمام ہونا چاہیے۔
عمران خان روایتی سیاسی جماعتوں اور مقتدر قوتوں کے متبادل کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ عوام کی بھاری اکثریت اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ کیوں نہ کھڑی ہو…… تقدیر کے آگے تدبیر نہیں چلتی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔