ریاستی اربابِ اختیار جب بھی بیرونِ ملک دوروں پر جاتے ہیں، تو واپسی پرغیر ملکی حکم رانوں کی طرف سے انتہائی قیمتی تحائف سے نوازے جاتے ہیں۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جہاں ہمارے طبقۂ اشرافہ اور حکم رانوں کا اپنا مفاد ہوتا ہے، وہاں پالیسیاں اور قانون بھی اپنی مرضی اور منشا کا بنا کر سب کچھ ہڑپ کرلیا کرتے ہیں۔ توشہ خانے سے تحائف وصول کرنے، کرانے کا قانون بھی اُنھوں نے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے وضع کیا، جس میں اربوں روپے کے تحائف کروڑوں، کروڑوں کے لاکھوں اور لاکھوں کے چند ہزار کے عوض وصول کرنے کی گنجایش موجود ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر اتحادی حکومت نے گذشتہ 20 سال کا توشہ خانہ ریکارڈ عوام کے سامنے پیش کردیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق چند ایک کو چھوڑ کر جس جس کو موقع ملا، اُس نے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے مالیت کے تحفے قومی خزانے میں انتہائی کم رقم جمع کرکے حاصل کیے اور کہتے پھرتے ہیں کہ انھوں نے کوئی غیر قانونی کام تھوڑی کیا ہے…… بلکہ کوڑیوں کے بھاو مہنگے مہنگے تحائف جو ہم گھر لے گئے ہیں، عین وہ حکومتی پالیسی کے مطابق ہے۔ اس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ توشہ خانے کے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے توشہ خانہ کے تحائف پر خوب ہاتھ صاف کیا ہے۔ آصف علی زرداری ارب پتی ہونے کے باوجود دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں توشہ خانے سے لے اُڑے ہیں۔ اس کے علاوہ توشہ خانہ ریکارڈ میں بہت کچھ ہے۔
پیپلز پارٹی کے وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف نے بھی پورا پورا انصاف فرمایا ہے۔
اس طرح ماں باپ کے کھرب پتی بیٹے بلاول جس کو کسی چیز کی کمی نہیں، اُنھیں بیرونِ ملک جو بھی تحائف ملے، انتہائی رعایتی قیمت ادا کرکے رکھ لیے۔
اس دوڑ میں میاں محمد نواز شریف بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اُنھوں نے مرسڈیز گاڑی، قیمتی گھڑیاں، قالین اور جو بھی کسی نے دیا، کوڑیوں کے مول خرید کے رکھ لیا۔
شاہد خاقان عباس کا کہنا تھا کہ وہ گھڑیاں نہیں پہنتے، مگر اُس نے کروڑوں کی گھڑیاں خود رکھ لیں، بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی توشہ خانے سے دلوائیں۔ اُن کی بیوی نے بھی دس کروڑ مالیت کے دو ہاروں کا سیٹ دو کروڑ میں خریدا۔
جیو ٹی وی کے پروگرام میں سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے دعوا کیا تھا کہ تحفے تو اُن کی ذات کو دیے گئے، اس کا ریاست اور عہدے سے کوئی تعلق نہیں۔ اُن کی یہ دلیل سمجھ سے بالا تر ہے۔ کوئی تو اُن سے پوچھے کہ جب وہ وزیرِ اعظم، وزیر یا مشیر نہیں تھے، تو اُنھیں غیر ملکی حکم رانوں کی طرف سے ذاتی طور پر کتنے تحائف ملے؟
ہمارے وزیر، مشیر اسحاق ڈار، خواجہ آصف، احسن اقبال، فواد حسن اور دیگر بھی اس ’’قانونی لوٹ کھسوٹ‘‘ میں شامل ہیں۔ یہ تو صرف 20 سال پہلے کا ریکارڈ پبلک ہوا ہے۔ تماشا تو اُس وقت لگے گا جب 1985ء سے 2000ء تک توشہ خانہ کے حقائق سامنے آئیں گے، پھر دیکھنا۔ کیوں کہ اصل لوٹ مار تو 90ء کی دہائی میں ہوئی ہے۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین، سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اُس کی اہلیہ نے بھی توشہ خانے سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ توشہ خانے کے اس حمام میں کھڑے حکم رانوں کو صرف عمران خان ہی ننگا نظر آرہا ہے اور تالیاں بجا رہے ہیں کہ دیکھو عمران خان نے توشہ خانہ لوٹا۔ حالاں کہ انھوں نے بھی دوسروں کی طرح مروجہ قانون کے تحت تحائف حاصل کیے۔
پی ڈی ایم حکومت میں شامل بڑی پارٹیوں کے رہنما عمران خان کو توشہ خانہ چور اور گھڑی چور کے القابات سے نواز رہے ہیں۔ حکم رانوں کے ایما پر عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کرنے کا خدشہ ہے۔ گذشتہ روز اسلام آباد ،لاہوری پولیس اور رینجرز عمران خان کو گرفتار کرنے جب زمان پارک (لاہور) پہنچی، تو تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور گرفتاری کے لیے آئی ہوئی پولیس اور رینجرز کے درمیان دو بہ دو مقابلہ ہوا۔ پولیس نے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے ہزاروں شیل استعمال کیے لیکن پھر بھی عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ تاحال زمان پارک میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔
کیا اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ توشہ خان ہے کہ پی ڈی ایم حکم ران عمران خان کے پیچھے اس طرح پڑچکے ہیں؟ اس کے علاوہ عوام کا دوسر اکوئی مسئلہ نہیں؟
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ہر طرف امن و امان ہے۔ بکری اور شیر ایک گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔ عوام چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ امیر اور غریب کے لیے قانون ایک جیسا ہے۔ عوام کو مفت تعلیمی اور صحت کی سہولیات میسر آچکی ہیں۔ ملک میں کوئی بے روزگار نہیں۔ مہنگائی کا نام و نشان تک نہیں۔ سیاسی اور معاشی استحکام آچکا ہے۔ حکم ران اپنی تنخواہوں اور مراعات سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ کوئی پاکستانی شہری بھوکا نہیں سوتا۔ چوری چکاری، ڈاکا زنی ایسی ختم ہوچکی ہے جیسے شیر شاہ سوری کے زمانے میں سونا پہنی خاتون رات کے اندھیرے میں کہیں بھی جاسکتی تھی۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس پر مستزاد قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے والے ارکان کی خالی نشستوں پر ضمنی، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات آئینی تقاضا ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان اس بارے فیصلہ بھی دے چکی ہے، مگر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کسی بھی صورت انتخابات کے لیے تیار نہیں اور آئین و قانون کو پاؤں تلے روندے جاری ہے۔
پاکستان میں توشہ خانہ اور عمران خان پر دیگر دہشت گردی کے مقدمات کا شور شرابا اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک عمران خان نااہل نہ ہوں، اُنھیں جیل میں نہ ڈالا جائے یا خدا نہ کرے…… اُنھیں قتل نہ کیا جائے۔ اگر موجودہ حکم ران اپنے ان مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگئے، تو ریاست کو اس کی بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
توشہ خانے کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ایسے قوانین وضع کیے جائیں کہ بیرونی ممالک سے صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم، وزرا، مشیر، فوجی اہل کار، جج یا دیگر سرکاری عہدے داروں کو جو بھی تحائف ملیں، ان کو توشہ خانہ/ سٹیٹ بینک میں جمع کیا جائے۔ جمع کرائے گئے تحائف کی مارکیٹ ویلیو کا تعین کیا جائے اور جو کوئی تحائف اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند ہو، تو وہ دو تہائی قیمت ادا کرنے کے بعد ہی اس کا مستحق ہو۔ وہ اُن تحائف کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہوئے پایا گیا، تو اُسی پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ باقی تحائف مارکیٹ میں فروخت کرکے رقم ریاستی خزانے میں جمع کی جائے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔