مئی کی 26 تاریخ تھی۔ پاکستان کے بیشتر شہروں کا درجہ حرارت 45 ڈگری سیلشئس سے زیادہ تھا۔ مجھے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ میں کسی چٹان کی اوٹ کی تلاش میں تھا، تاکہ اس ٹھنڈی ہوا سے بچ سکوں۔ ساتھیوں کی حالت بھی ایسی تھی۔ ایسے میں مجھے شہروں میں بستے ان غریبوں کی فکر ستانے لگی جو جھلسا دینے والی گرمی میں سخت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ مجھے وہ ٹیکسی ڈرائیور یاد آیا جو دو دن پہلے مجھے اسلام آباد میں ملا تھا۔ اس کی آنکھیں خوابیدہ تھیں۔ وہ رات کو نہیں سو سکا تھا۔ رات کو نہ سونا اس کا معمول بن چکا تھا۔ کیوں کہ جب وہ روٹی روزی کمانے کے بعد گھر آتا اور سونے کا ارادہ کرتا، تو بجلی لمبے عرصے کے لئے چلی جاتی اور وہ بغیر پنکھے سو نہ سکتا۔ صرف وہ نہیں پیارے ملک کی واضح اکثریت بجلی کی اس کمی سے اکسویں صدی میں بھی جان نہیں چھڑا سکی ہے۔
میں سوات کے پُرفضا مقام بحرین قصبے کے مشرق کی جانب دریائے درال کے کنارے اُس دن ساتھیوں سمیت ٹہل رہا تھا اور دریا کی لہراتی موجوں سے اٹھتی ہوئی ٹھنڈی ہوا سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسے میں ساتھیوں کو روک کر ان سے سرگوشی کی، ہم واقعی خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسی جگہ رہ رہے ہیں جہاں جون، جولائی میں بھی اگر بارش ہو، تو لوگ چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ ذرا شہروں میں بستے لوگوں کو ذہن میں لائیں، تو اندازہ ہوگا کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں۔ ساتھیوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ایک سِنکی ساتھی نے تاہم طویل سردی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ اس کے بعد ساتھیوں میں ایک طویل بحث چھڑ گئی جو اپنے اندر سوات اور شمالی پاکستان کی تاریخ، جغرافیہ، کئی درپیش مسائل اور تنوع کو سموئی ہوئی تھی۔
وادئی سوات جسے اکثر لوگ مشرق کا سویٹزر لینڈ بھی کہتے ہیں، جہاں تاریخی اعتبار سے اہم ہے وہاں یہ اپنے قدرتی حسن میں بھی منفرد ہے۔ گندھارا اور داردا ثقافتوں کی یہ امین وادی اپنے اندر کئی چھوٹی وادیوں کو چھپائی ہوئی ہے جو اکثر سیاحوں کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں۔ یہاں ملم جبہ، مرغزار، میاں دم، مدین، بحرین اور کالام تو شائد کئی لوگوں نے دیکھے ہیں لیکن بحرین، مدین اور کالام کی ذیلی وادیوں، سرسبز چراہگاہوں، جھیلوں اور پہاڑی راستوں کا پتا کم ہی لوگوں کو ہوگا۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہاں سے چترال، دیر کوہستان اور اباسین کوہستان کی وادیوں کو ٹریکس جاتی ہیں۔ مہوڈنڈ جہاں شورش کے بعد گرمیوں میں اکثر ’’خاص لوگ‘‘ دیگر ’’خصوصی لوگوں‘‘ کے لئے میلے سجاتے ہیں، سے آگے درہ میں جائیں ،تو یہ راستہ آپ کو ’’اندرب‘‘ اور ’’بینیش‘‘ سے گزار کر پولو گراؤنڈ شندور سے نکالے گا۔ یہ راستہ دو تین دنوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ راستے میں گاہے بگاہے آپ یخ بستہ پانیوں اور آبشاروں میں ٹراؤٹ مچھلی کے جنگلی ذائقے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہ راستہ دشوارگزار بھی نہیں۔ آپ کے ساتھ بس کچھ راشن، ایک پوٹر اور ایک گائیڈ کا ہونا ضروری ہے۔ ایسے لوگ آپ کو کالام یا پھر مٹلتان میں ملیں گے۔
اگر آپ مٹلتان سے دائیں طرف کا درہ پکڑ لیں، تو ایک آدھ دن میں آپ کندھیا وادی میں اتریں گے۔ اتروڑ کی جانب جائیں، تو آپ دیر کوہستان کے خوبصورت علاقے کمراٹ میں خود کو پائیں گے۔ اب تو اتروڑ سے دیر کی طرف جیب بھی جاسکتی ہے۔
کالام اور بحرین کے بیچ مانکیال کا درہ پڑتا ہے۔ اسی درّے کے اوپر سوات کی مشہور چوٹی مانکیال چوٹی جسے مقامی زبان میں ’’کوشجن‘‘ کہتے ہیں، ملے گی۔ یہ وہی چوٹی ہے جو بریکوٹ اور سوات کے دوسرے علاقوں سے دکھائی دیتی ہے۔ یہ چوٹی ملاکنڈ ٹاپ کے اوپر پہاڑی سے بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے زمانے میں جب آلودگی کم ہوتی تھی ’’کوشجن‘‘ پشاور کے قلعہ بالاحصار سے بھی دیکھی جاسکتی تھی۔
مانکیال کے اس دّرے سے آپ اباسین کوہستان کے دوبیر اور کندھیا وادیوں میں اتر سکتے ہیں۔ مدین کی مشرق میں بشیگرام درّے سے آپ الپوری ضلع شانگلہ اتر سکتے ہیں۔
ان پاسیز کے علاوہ ان ذیلی وادیوں کے یہ درّے خوبصورت پہاڑی راستوں کے ذریعے آپس میں بھی ملتے ہیں۔ مثلاً آپ بحرین کے درال درے سے جاکر اتروڑ کے کنڈول جھیل پہنچتے ہیں۔
ٹریکنگ کے لئے سوات وادی بہت آسان اور خوبصورت ہے۔ یہاں کے پہاڑی راستے خطرناک نہیں اور لینڈ سلائڈنگ کا بھی اتنا خطرہ نہیں۔ گلیشیرز بھی اتنے بڑے نہیں کہ بندہ کہیں کھو جائے۔ یہ راستے جنگلات اور سبزے سے اٹے ہوئے ہیں جو اِن کو گلگت بلتستان کے راستوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ راستے اتنے طویل بھی نہیں۔ ایک عام سیاح بھی جاسکتا ہے، تاہم مہم جو ٹریکرز کے لئے سوات سے مہوڈنڈ سے ہوتے ہوئے شندور پاس سے نکل کر چترال کے بروغل وادی اور وہی سے پامیر پہاڑوں کے دامنوں سے ہوتے ہوئے غذر کے اکشمن وادی یا پھر شاہراہِ ریشم پر سُوست کے قریب نکلنا بڑی مہم جوئی ہوگی۔ یہ ایک ایسا ٹریک ہے جس پر نہ صرف مختلف ثقافتوں سے بلکہ قدرت کے مختلف مناظر سے واسطہ پڑتا ہے۔
ضلع سوات کے ان بالائی علاقوں کالام، بحرین اور مدین کو گرمیوں میں ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ اب صرف ملکی سیاح آتے ہیں۔ پہلے غیر ملکی بھی بہت آتے تھے۔ البتہ گذشتہ مہینے تھائی لینڈ سے ایک وفد کی آمد نے سیاحت سے وابستہ لوگوں کی امیدوں میں اضافہ کیا ہے۔ اب سوات آنے کے لئے غیر ملکیوں سے سرکاری اجازت نامے کی شرط کو منسوخ کیا گیا ہے۔
ملکی سیاحوں کی آمد میں اب ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ملک میں گرمی کی شدت اور بجلی کی قلّت ہے۔ لوگ تنگ آکر ان علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔
ان علاقوں میں سیاحت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کی خستہ حال سڑکیں ہیں۔ یہ سڑکیں خواہ نیشنل ہائی ویز اٹھارٹی کی شاہراہ N -95 کا بحرین تا کالام کا حصہ ہوں یا پھر اسی کا چکدرہ تا فتح پور کا حصہ، سبھی کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اسی طرح کالام سے مہوڈنڈ یا پھر اتروڑ کو گبرال کی سڑکیں ہوں، سب حکومتی بے رخی کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ ان ہی سڑکوں پر آئے روز حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں کئی انسانی جانیں دریا کے سپرد ہوجاتی ہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی غربت اور بے تعلیمی میں گھری ہوئی ہے۔ ان کے لئے صحت کی سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی مناسب تعداد اور معیار میں سکولز۔ اس غربت کی کمی میں یہاں کی سیاحت ایک مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے، اگر اس کے لئے یہاں کی سڑکوں اور راستوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تعمیر کیا جائے۔ اسی طرح یہاں سرمائی سیاحت کو بھی بڑا فروغ مل سکتا ہے، اگر یہ سڑکیں بنی ہوں، تو۔
اس نشست میں، مَیں نے کوشش کی کہ آپ کو سوات کی سیر کرائی جائے۔ یہاں کی چوٹیوں، جھیلوں، آبشاروں، ندیوں اور وادیوں میں آپ کو لے جایا جائے اور آپ پر ڈورے ڈالے جائیں، تاکہ آپ بھی اس موسم میں کسی طور اپنا بیگ اٹھا لیں اور یہاں کا رُخ کریں۔ باتوں باتوں میں کچھ مسائل کا بھی سرسری ذکر ہوگیا۔ اس کے لئے معذرت، مگر کیا کیا جائے! بقول شاعر
لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے
………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔