فرانز کافکا کی ترجمہ شدہ کتاب ’’کایا کلپ‘‘

تبصرہ: محمد بلال رفیق 
کتاب کا اُردو ترجمہ منظور احمد نے ’’کایا کلپ‘‘ کے نام سے کیا ہے، جنھوں نے بلاشبہ اپنے تسلسل، روانی اور موزوں الفاظ کے چناو کے ساتھ ترجمہ کو چار چاند لگادیے ہیں۔
منظور احمد نے کہانی کی روح کو اُردو کے قالب میں ڈھالنے کی بھرپور اور قابلِ تحسین کوشش کی ہے۔ ترجمہ پڑھنے کے بعد یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ آیا آپ اصل کتاب پڑھ رہے ہیں، یا ترجمہ…… !
کہانی کی شروعات’’گریگر سیمسا‘‘سے ہو تی ہے، جو سفر کرنے والا سیلز مین ہے۔ایک دن جب وہ بیدار ہوتا ہے، تو بستر پر ایک خوف ناک رینگنے والے جانور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقی طور پر سوچتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے……؟
اور وہاں اس کو سب کچھ بہت مخصوص نظر آتا ہے۔
بہر حال وہ گھڑی کی طرف دیکھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ وقت گزر رہا ہے اور مجھے اُٹھ کر کام پر جانا چاہیے۔ اسے جو کچھ محسوس ہوتا ہے، اس سے وہ حیران رہ جاتا ہے۔ کیوں کہ وہاب اپنی آہنی خول والی پشت کے بل لیٹا ہوا ہوتا ہے۔
وہ اپنے اُوپر اُٹھے ہوئے پیٹ کو دیکھتا ہے، جو محرابی حلقوں میں تقسیم ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کی پتلی پتلی ٹانگیں بے بسی میں لہرا رہی ہوتی ہیں۔
کہانی آگے بڑھتی ہے اور اس کا دھیان اپنے خاندان کے بارے میں جاتا ہے کہ یہ میرا خاندان کیسے زندہ رہے گا؟ کیوں کہ وہ خاندان کی آمدنی کا واحد سہارا ہوتا ہے۔
اسی طرح وہ اپنی کمپنی کے بارے میں سوچتا ہے کہ آیا میرے باس کا کیا ہوگا۔ مَیں تو کبھی کام سے ناغہ بھی نہیں کرتا تھا اور پوری دل جمعی کے ساتھ کام کرتا تھا، تاکہ خاندان کا قرض اُتار سکوں۔
یوں تو کہانی کا اولین جملہ ہی اس ناولٹ میں اداسی اور ایک مخصوص قسم کا غیر موزوں ماحول پیدا کرتا ہے کہ ’’وہ ایک مہیب کیڑے کا روپ دھار چکا ہے۔‘‘
ان سطور سے مایوسی، حیرت اور قاری کے لیے دل جوئی بڑھ جاتی ہے، جو آخر تک برقرار رہتی ہے۔ اس صورتِ حال میں وہ اب بھی اپنے تقریباً کام اور ہر چیز پر غور کر رہا ہے۔ وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ اس کا خاندان ان تمام ذمے داریوں کو کیسے پورا کرے گا؟
ایک بار پھر، اس کے لیے حالات مزید افسوس ناک اور خوف ناک ہوجاتے ہیں۔ جب خاندان والے اُسے اِس حالت میں دیکھ کر کمرے میں بند کردیتے ہیں ۔
جہاں مرح اس کی بہن ’’گریٹی‘‘ اسے کھانا دینے جاتی ہے، تو وہاں اس کے والدین اس سے دوری اختیار کیے رکھتے ہیں۔
ایک بار جب اُس کی ماں اُس کے کمرے میں جاکر اس کی خوف ناک اور بدصورت شکل جو اَب ایک کیڑے کا روپ دھار چکا ہے، دیکھتی ہے، تو بے ہوش ہوجاتی ہے۔ جس پر اس کا باپ ’’مسٹر سمسا‘‘ اُسے اس کی خوف ناک حرکتوں کی وجہ سے مارتا ہے، اور وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور بے سدھ ایک ہی جگہ پر پیٹ کے بل لیٹے رہتا ہے۔
اُس کی حرکتوں سے تنگ اُس کی بہن بھی ایک دن باپ کو کَہ ہی دیتی ہے کہ ’’اب اُس سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیے!‘‘
اس کا خاندان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یہ سب نہیں سمجھ سکتا۔ کیوں کہ ’’وہ سیم سا نہیں کیڑا ہے۔‘‘
انھی باتوں کی وجہ سے وہ افسردہ رہتا ہے، اور بالآخر ایک دن اس کی موت ہو جاتی ہے۔
جس دن وہ مر جاتا ہے، اسے گھر سے باہر نکال کر اس کا خاندان ایک نئی اور خوش حال زندگی شروع کر دیتا ہے۔
اس ناولٹ کو پڑھنے کے دوران میں ہنسی اور غم کی ملی جلی کیفیات میں ڈوبا رہا۔ ’’کا فکا‘‘ کی تحریروں میں یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو دکھوں کے درمیان بے بسی اور لاچاری و مجبوری میں بھی بے تکے پن پر ہنستا ہے اور پڑھنے والوں کو ذہنی الجھاؤ میں ڈال کر ہنساتا ہے۔
مجھے یہ کہانی اس وقت مایوسی کی طرف لے گئی کہ ایک کام کرنے والے شخص کے پاس جب کرنے کو کچھ نہیں اور وہ مزید کام نہیں کرسکتا، تو کیسے اس کے خاندان والے اسے بوجھ اور مجبوری سمجھ کر اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ بس ایک گندے کمرے میں بھوکا پیاسا پڑھا رہتا ہے۔ وہ ڈپریشن اور مایوسی میں جل جاتا ہے اور آخرِکار اسے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس بات پر ہنسی کے ساتھ رونا بھی آیا کہ تمام رشتے اُس وقت تک مخلص اور آپ کے ہم درد اور آپ کی کی خدمت اور آپ سے محبت کرنے والے ہیں، جب تک انھیں آپ سے مطلب ہو اور جب تک آپ ان پر بوجھ نہ ہوں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے