تھانہ پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں ہونے والا خودکش حملہ سانحہ اے پی ایس کے بعد پشاور میں ہونے والا دوسرا بڑا سانحہ ہے، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب تک 100 سے زیادہ لوگ شہید ہوچکے ہیں، جب کہ درجنوں شدید زخمی ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اس سانحہ پر ہر آنکھ اشک بار ہے اور ہر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ قوم پے در پے صدموں کی زد میں آئی ہے۔ معیشت کی زبوں حالی نے عوام کا جینا پہلے سے دوبھر کر رکھا ہے۔ بے تحاشہ مہنگائی نے نچلے طبقے سے ایک وقت کا کھانا چھین لیا ہے۔ لوگ ہاتھوں میں پیسے پکڑے آٹا لینے کے لیے صبح تا شام قطاروں میں لگے ہیں۔ مزدور پریشان ہیں کہ آٹے کی لائن میں لگتے ہیں، تو دیہاڑی مر جائے گی۔ دیہاڑی پر جاتے ہیں، تو گھر میں پکانے کے لیے آٹا نہیں ہوتا۔ جائیں تو کہاں جائیں، کریں تو کیا کریں؟
ناقص پالیسیوں اور اقتدار کے حریص سیاست دانوں کی لڑائی نے پاکستان جیسے زرعی ملک کا یہ حال کر دیا ہے کہ گندم اور دالیں امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عوام کے مسائل ہیں کہ بڑھتے ہیں، چلے جا رہے ہیں۔ حکومتی زعما اپنے کیس ختم کروانے اور اپوزیشن کو رگڑا لگانے کے لیے نئے نئے کیس بنانے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن لیڈر اور ہم نوا حکومتی وزیروں مشیروں کے خلاف ’’کرپشن، کرپشن‘‘ کی یک مصرعی قوالی میں مصروف ہیں۔ عوام سے کسی کو ہم دردی ہے، نہ ان کے مسائل سے دلچسپی۔
طُرفہ تماشا یہ ہے کہ قومی اور ملکی سانحات کو بھی اب اپنی سیاسی دکان داری چمکانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ آپ پہلے پشاور کے ہسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد دینے والے ایک ڈاکٹر صاحب کا بیان پڑھ لیں، اس کے بعد بات کو آگے بڑھاتے ہیں:
’’مَیں موقع پر موجود تھا، میری آنکھ نم تھی اور زخمیوں کو طبی امداد بھی جاری تھی۔ تقریباً 70 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے، جب کہ 160 زخمیوں کو مختلف واڑڈز میں داخل کیا گیا تھا۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کَہ رہا ہوں کہ جو بچ چکے تھے، ان کے پاس سیاسی لوگ تصویریں بنانے کے لیے پیش پیش تھے۔ پولیس کے افسران اور سیاسی قائدین نے تو اس وقت حد ہی کر دی جب وہ ہر زخمی کے پاس جا کر مبارک باد دیتے کہ شکر ہے تم بچ کر غازی بن گئے ہو۔ ہم ڈاکٹروں کو ان افسران اور سیاسی عمائدین کے فوٹو سیشنوں نے انتہائی حد تک ذہنی کوفت اور اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا، کیوں کہ ہر سیاسی رہنما کے ساتھ کم از کم بیس تیس افراد ہوتے جن کا کام صرف تصویریں بنانا اور پروٹوکول فراہم کرنا ہوتا تھا، جس کی وجہ سے مریضوں کی دیکھ بھال متاثر ہو رہی تھی۔‘‘
ارے بھائی! آپ لوگوں کو اتنی ہم دردی جتانی ہے، تو کم از کم ان تصویریں بنانے والے اپنے ساتھیوں کو بلڈ بینک بھجواتے کہ خون عطیہ کرتے، مگر نہیں، یہاں تو خون کی کمی کی وجہ سے مریض مر رہے تھے اور آپ غازی غازی اور شہید شہید کے کھیل میں مصروف تھے۔
اخلاقی طور پر اس جیسے حادثے میں ابتدائی طبی امداد کے موقع پر افسران اور سیاسی عمائدین کا وزٹ ہسپتالوں پر بند ہونا چاہیے اور اس کے لیے قانون بننا چاہیے۔ کیوں کہ بہت سے مریض اس دخل اندازی اور دیر سے طبی امداد ملنے کی وجہ سے ہر بار متاثر ہو جاتے ہیں، مگر افسوس کہ ہماری ترجیحات دھماکوں پر سیاست کرنا اور زخمیوں کو غازی ڈکلیئر کرنا ہوتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اخباری نمائندگان و فوٹوگرافران، افسران اور سیاسی عمائدین اس طرح کے سانحے کے بعد ہسپتالوں پر ’’یلغار‘‘ کر دیتے ہیں۔ اخباری رپورٹرز اپنے چینل یا اخبار کی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں انسانی ہم دردی کے جذبے سے بے حس ہو کر تڑپتے ہوئے زخمیوں کی تصاویر اور فوٹیج بنانے میں محو ہوتے ہیں…… جب کہ سیاست دان اپنی سیاست چمکانے کے لیے ذاتی فوٹو گرافروں اور اخباری رپورٹروں کے سامنے پوز بنا بنا کر فوٹو سیشن کرواتے اور رٹے رٹائے بیان دہرانے میں لگے ہوتے ہیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ چینل اور اخبارات میں کوریج مل جائے۔ اپنے ذاتی میڈیا سیل سے اخبارات اور چینلوں کو خبریں اور تصاویر ارسال کی جاتی ہیں۔ دل خراش سانحہ کو بھی ’’موقع غنیمت‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہوتے ہیں کہ کب یہ ’’بلائیں‘‘ ٹلیں اور انھیں زخمیوں کو طبی امداد دینے اور ان کا علاج کرنے کا موقع ملے۔
دیکھا جائے تو حکومتی زعما اور سیاست دانوں کے یہ وزٹ زخمیوں کے مصائب میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی زبانی ہم دردی اور میڈیا کے لیے تشہیری مہم بعض زخمیوں کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ اس لیے زخمیوں کے پاس صرف انھیں ہی جانے کی اجازت ہونی چاہیے جن کی وہاں ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کے علاوہ مریضوں کے قریب کسی کو بھی نہ جانے دیا جائے۔ اگر کسی سیاست دان یا اس کے حواریوں کو بہت زیادہ ہم دردی ہو، تو اس ہم دردی کا عملی ثبوت دینے کے لیے ہسپتال کے بلڈ بنک میں جا کر خون کے عطیات دیں، بلکہ مناسب یہ ہے کہ ایسے موقع کے لیے ایک نیا کلچر متعارف کروایا جائے اور وہ یہ کہ سیاسی پارٹیاں مقابلہ بازی کی فضا پیدا کرتے ہوئے اپنے ورکرز کے ذریعے خون کے عطیات دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس طرح مقامی سیاسی قیادت اور ورکرز فوری طور پر مالی عطیات اکٹھے کریں جنھیں زخمیوں اور شہدا کے گھر والوں تک پہنچائیں، تاکہ وہ مالی مشکلات کے سبب پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ صرف زبانی ہم دردی، مصیبت زدگان کے کسی کام کی نہیں ہوتی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔