بے شک بہار کے موسم میں پھولوں اور تتلیوں کی لاتعداد اقسام جھیل کے آس پاس دیکھ کر انسان خمار کے جس عالم میں ڈوب جاتے ہوں گے، وہ بیان سے باہر ہوگا، لیکن وہی خمار اِس وقت بہار کے نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے بعض دوستوں کو مخمور کئے ہوئے ہے۔ ایسا خمار جو اپنے قافلے کے گیارہ میں سے دو کے سِوا نو عاشقِ نامراد کے سروں پر سوار ہو رہا ہے، دلوں کو گرما رہا ہے اور روحوں کو ’’جھلسا‘‘ رہا ہے۔ کوئی سچ مچ جھلس گیا، تو مجھے یہ فکر کھائی جا رہی ہے کہ اس کو یہاں دفن کرنے کی اجازت مل جائے گی یا نہیں؟ خواتین سیاحوں کی بھی ’’کاٹو تو لہو نہیں بدن میں‘‘ والی کیفیت ہے۔’’ دی سائنس آف مائنڈز‘‘ کے مطابق اس وقت اُن کا ’’ارمان‘‘ ہے کہ یہ ایرے غیرے یہاں نہ ہوتے اور وہ اپنے اپنے شہزادے کی پری بن کر ملکۂ سبا کی طرح خیالی تختِ سلیمانی پر اس جھیل کے اوپر چکر لگاتیں اور جنوں یا پرندوں کے سائے کی بجائے ڈرون کیمرے اُن کی وڈیو بنا بنا کر محبتوں کی گواہی کے طور پر دنیا کو دکھانے کے لئے وائرل کرتے۔ تو لوگوں کا کیا، میں جانوں، میرا خدا جانے۔باقی اپنا جو حال ہے وہ یہ ہے کہ
ریگ تا ریگ ہو پھیلا ہوا، صحرا کی طرح
اور سرابوں کی فراوانی میں بیٹھا ہوا ہوں
نہ میں بلقیس ہوں کہ ہو شہرِ سبا کی خواہش
نہ غمِ تختِ سلیمانی میں بیٹھا ہوا ہوں
شام کے سائے پھیلنے سے پہلے دیوسائی سے واپسی کے سفر میں کوئی بات ایسی نہیں جو شیئر کی جائے، سوائے گاڑی کی خرابی کے۔ رات ایک بجے چلاس پہنچے۔ ہوٹل میں بجلی کے کنڈوں کے ساتھ منسلک ائیرکولر کو چلا چلا کر وہاں کی گرمی اور مچھروں سے جان بچائی۔ گلگت کے بعد چلاس یہاں کا بڑا کاروباری شہر ہے، جو وفاقی انتظام کے تحت چلتا ہے۔ گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں سردی شدید ہوتی ہے۔ اگلے دن بابو سر کے راستے ناران چل پڑے۔ بابوسر ٹاپ سے ناران، کاغان تک کا علاقہ جو کبھی چھوٹے چھوٹے دیہات اور کھیتوں پر مشتمل تھا، اب ایک نئے دور میں ڈھلتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں اب کھیتوں میں فصلوں کی بجائے ہٹس ’’اُگے‘‘ ہیں۔ باغات میں ریسٹورنٹس پھل پھول رہے ہیں۔ گلی کوچے بازار اور پرانی ’’ہٹیاں‘‘ مارکیٹ اور کمرشل علاقوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ دیہی آبادی مزید دیہہ کی طرف دھکیل دی گئی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں بھی یہاں سیاحوں کا رش تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔گویا پورا پنجاب یہاں اُمڈ آیا ہے۔
ناران میں چہل پہل اپنی انتہا پر ہے۔ ناران میں رشید احمد اخوند صاحب اور اُن کے دوستوں کو منتظر پایا۔ رشید صاحب، اسلام آباد میں یو این ڈی پی کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ اپنے ضروری کام چھوڑ کر خصوصی طور پر اپنے دوستوں سے ملنے ناران آئے۔خطے کے موجودہ حالات پر تفصیل سے بحث و مباحثہ ہوا۔ یہاں اُن کی بھرپور مہمان نوازی اور گپ شپ کا لطف اٹھایا۔ شمالی علاقہ جات کی مختلف صفات سے متعلق وہ اختصار سے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں وادئی غذر کے لوگوں کی خوبصورتی، استور کی تعلیم، وادئی ہنزہ کاکاروبار، گلگت کا تنوع اورچلاس کی پسماندگی مشہور ہے۔ ویسے وادئی غذر کے لوگوں کی خوبصورتی کے تو ہم بھی گواہ ہیں، لیکن ہماری بھابھی اور رشید خان کی بیگم کا تعلق اس وادی سے ہے۔ اس لئے وہ غذر ہی کو خوبصورتی کا منبع قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ چاہے اس بابت ان کو ہنزہ والوں سے یک طرفہ طور پر اعلانِ جنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ناران سے نکلتے ہوئے، پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں۔ دوستوں کی معیت میں شمالی علاقہ جات کا یہ سفر کتنا یادگار،کتنا معلوماتی، کتنا تہلکہ خیز اور کتنا سبق آموز رہا، اس کے حساب کتاب کا کوئی پیمانہ نہیں، نہ اس کو کسی پلڑے میں تولنا ممکن ہے۔ ہاں، ایسا سفر قطعاً ممکن نہ ہوتا اگر افتخار خان کی شدید دلچسپی، اُن کی دوستوں کی محبتیں اور حاضر گل کی ’’کو آرڈی نیشن‘‘ شاملِ حال نہ ہوتی۔
شمالی علاقہ جات کے لوگوں کو بجا طور پر پاکستانی حکمرانوں سے بڑے گلے شکوے ہیں۔ پھر بھی وہ ہ خوش قسمت ہیں کہ بعض غیر حکومتی ادارے یہاں کے مکینوں کی ترقی کے خوابوں کو تعبیر دیتے ہیں۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (اے کے آر ایس پی) دیہی علاقوں کو ترقی دینے کے لئے مظفر الدین صاحب کی زیرِ نگرانی کئی منصوبوں پر کام کرتا ہے۔ اُن سے بھی معلومات سے بھرپور میٹنگ ہوئی۔ زراعت، انرجی اور ’’سکل ڈیولپمنٹ‘‘ کے شعبوں پر اُن کا خصوصی ’’فوکس‘‘ ہے۔ چھوٹے کاروبارکے لئے آسان شرائط پر قرضے کی فراہمی بھی اُن کے پروگرام کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے یہاں پر نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کسی حد تک کم ہے۔ ادارہ اے کے آر ایس پی، چترال کی طرح یہاں بھی بنجر اراضی کی سیرابی کے لئے کئی منصوبوں پر کاشتکاروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرتا ہے۔اب تو کاشتکار باغات اور سبزیاں وغیرہ کاشت کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے کی معیشت اور عام لوگوں کی طرزِ زندگی میں بہتری آئی ہے۔
ادارہ آغا خان ایجوکیشن سروسز (اے کے ای ایس) تعلیم کے میدان میں مثالی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ تعلیم کی شرح اکثر علاقوں میں نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے، جس میں اس چھوٹے سے ادارے کی محدود خیراتی فنڈز کی فراہمی کا بھی حصہ ہے۔
آغا خان ٹرسٹ فار کلچر (اے کے ٹی سی) پوری دنیا میں اپنی کمیونٹی کی سماجی اور معاشی سرگرمیوں پر توجہ رکھتا ہے اور ان کو مدد و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح صحت سے متعلق مختلف پروگرامز غیر سرکاری سطح پر کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ سوات میں بھی ایسے کئی غیر حکومتی ادارے موجود ہیں، جن کو حکومتوں اور ڈونرز ایجنسیوں نے اربوں روپے کے فنڈز مہیا کیں، لیکن افسوس ہے کہ وہ فنڈز علاقے کی ترقی میں بہت کم اور بعض لوگوں کو خوش کرنے میں زیادہ خرچ ہو رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ علم حاصل کرو، چاہے اس واسطے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ہم نے چین کے بارڈر تک پہنچ کر بڑا علم حاصل کیا۔ اندر جا کر علم میں کتنا اضافہ ہوگا! آپ خود سوچیں۔ یہاں آکر پتا چلا کہ تقسیم ہند سے قبل اس خطے میں پانچ سو، ہاں پانچ سو سے زیادہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ سوات، دیر، چترال، امب، بہاولپور، قلات، خاران، مکران، ہنزہ، نگر، خیر پوروغیرہ تو چند نام ہیں، جن کے والی وارث یا نواب وغیرہ اور کچھ نہیں اپنے مکینوں کو حفاظت کا احساس تو دلاتے تھے۔ اُن ریاستوں کے لوگوں سے پاکستان نے وہ احساس بھی چھین لیا۔ سوات اور دیر کا حال ہمارے سامنے ہے۔ دیکھا جائے، تو چین کی ہمسائیگی یہاں کے لوگوں کے لئے بڑی نعمت ہے۔ وہ یہاں کے لوگوں کی حالتِ زار میں بہتری لانے کے لئے سنجیدہ ہے۔ یہ اُن کی ضرورت بھی ہے، مجبوری بھی۔ ایک لمحے کے لئے سوچنے میں کیا حرج ہے! اگر اُن کی مجبوری نہ ہوتی تو یہاں کا احوال بھی چمن، لنڈیکوتل اور واہگہ بارڈر جیسا ہوتا۔ جہاں لوگ اس امیدو بیم کے کیفیت میں زندگی کی روح کو آگے کی طرف کھینچ رہے ہیں کہ کبھی نہ کبھی توامن و سکون آ ہی جائے گا، ان کو نہیں ان کی نسلوں کو تو سکون کی سانس میسر ہو ہی جائے گی۔ جہاں کی زندگی قتل و غارت، جہالت، غربت، محرومی اور دشمنیوں سے عبارت ہے۔ یہاں امن کے گیت گائے جاتے ہیں، وہاں خون کے۔ یہاں پھول، خوشبو اور میوے ہیں اور بارڈر کے رکھوالے زندگی کا لطف اُٹھاتے اور تاش کھیلتے نظر آتے ہیں۔ وہاں بندوقوں کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ یہاں کی معطر ہوائیں خوشبوئیں بکھیرتی ہیں، تازگی کا سامان کرتی ہیں، زندگی بکھیرتی ہیں۔ وہاں کی ہوائیں موت بکھیرتی ہیں، بارود اور بم پھٹواتی ہیں۔ یہاں سیاحت، کاروبار، ترقی،ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور پلازوں کا شور شرابا ہے، وہاں خود کشوں کے سٹریٹس اور بم و بارود کے شاپنگ مال ہیں۔ یہ ایک ملک کے اردگرد کے بارڈر زکی صورتحال کا احوال ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ خنجراب ٹاپ کے پولیس سپاہی سڑک کنارے بیٹھے امن کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ دوسرے اطراف میں بندوق سے گولی فائر کرنے کے لئے بس کوئی سا بہانہ چاہئے۔ ایسا کیوں ہے؟ سوچ و فکر کے دریچے وا کرکے سوچا تو پتا چلا کہ ’’عیاں را چہ بیاں‘‘
جو میں سچ کہوں تو بُرا لگے
جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کی ضد میں ہے
یہاں بات کرنا حرام ہے
جیسے پہلے بھی بات کی گئی۔ یہاں سی پیک کی تکمیل کیلئے ابتدائی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ہر باخبر شہری متجسس ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ مستقبلِ قریب میں اس علاقے کیساتھ کیا ہونے والا ہے؟ کہیں یہ کسی اور ملک کا اڈا تو نہیں بننے والا، خدا خیر کرے! سی پیک اور شمالی علاقوں کی بات ہو، تو پھر گوادر کی بات بھی ضرور ہوگی۔ (جاری ہے)
………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔