تحریر: حنظلۃ الخلیق
ایک ماں کے حمل میں دو ننھے بچے ایک دوجے سے تکرار کرنے لگے۔
ایک کہنے لگا:
’’کیا تو ماں کے پیٹ سے باہر کی زندگی کو مانتا ہے؟‘‘
دوسرا بولا:
’’کیوں نہیں! پیدا ہونے کے بعد کچھ تو ضرور ہوگا، جس کی خاطر اب ہم یہاں ہیں اور تیار ہو رہے ہیں۔‘‘
پہلا بچہ بولا:
’’بے وقوف! پیدایش کے بعد کیسی زندگی……؟ ہم بس یہاں ہی زندہ ہیں۔ اس کے بعد کہیں اور نہیں۔‘‘
دوسرا بولا:
’’مجھے اُس زندگی کی زیادہ خبر تو نہیں…… مگر شاید وہاں، یہاں سے زیادہ روشنی ہو۔ شاید وہاں ہم اپنی ٹانگوں پر چل سکیں اور منھ سے کھا پی سکیں…… یا ہمارے کچھ احساسات جو ابھی معدوم ہیں، وہاں ہم ان کا ادراک کرلیں۔‘‘
پہلا کہنے لگا :
’’انتہائی عجیب……! بھلا کوئی ٹانگوں پر بھی چل سکتا ہے؛ اور منھ سے کھانا تو بالکل مضحکہ خیز بات ہے۔ ہم یہاں اپنی ناف کی نالی سے خوراک لیتے ہیں اور دیکھو ذرا……! یہ نالی کتنی چھوٹی سی ہے، یعنی بس ہماری یہاں کی چند دن زندگی کا سامان لیے ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی زندگی ہوتی، تو کیا یہ نالی اتنی ناپائیدار ہی ہوتی……؟ یقینا یہاں سے باہر کوئی زندگی نہیں۔
دوسرا پھر اپنی بات پہ مصر کہنے لگا:
’’بھائی! یہاں سے باہر کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے…… جو اس پیٹ جیسا نہیں…… بلکہ اس سے بہت بڑا اور مختلف ہے، جس میں ہمیں اپنی اس خوراک کی نالی کی ضرورت بھی شاید نہ ہو۔‘‘
پہلا بچہ پھر غصے سے بولا:
’’ابے بے عقل……! اگر باہر کوئی زندگی ہے، تو پھر وہاں سے کوئی آج تک اِدھر واپس کیوں نہیں آیا……؟ پیدایش کے بعد کوئی زندگی نہیں، بلکہ ایک اندھیرا اور خاموش خلا ہے بس……! جس میں ہمارا کوئی وجود نہیں…… نہ ہم کہیں جاسکتے ہیں۔‘‘
’’اچھا…… ! ‘‘دوسرا بولنے لگا:
’’مجھے اس بارے کچھ نہیں معلوم…… مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہم اُس زندگی میں اپنی ماں سے ضرور مل سکیں گے جو ہمارا بہت خیال رکھے گی۔‘‘
یہ بات سن کر پہلا بچہ کہنے لگا:
’’ماں……! کیا تم ماں کے وجود کو مانتے ہو؟ کتنی عجیب بات ہے…… اگر ماں ہے، تو وہ ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتی…… کہاں ہے وہ…… ؟‘‘
دوسرے نے جواب دیا:
’’ماں…… ماں تو ہمارے ہر طرف ہے۔ اُس نے ہی تو ہمارا احاطہ کر رکھا ہے۔ ہم اس کے وجود سے ہی تو زندہ ہیں اور اس کے اندر سانس لیتے ہیں۔ ماں کے بغیر تو ہماری یہ دنیا بھی باقی نہیں رہ سکتی۔‘‘
پہلا بولا:
’’بھلے تو جو بھی کَہ لے، معقول بات یہی ہے کہ ماں ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس وجہ سے اس کا کوئی وجود نہیں۔‘‘
یہ سن کر دوسرا بچہ آخری بار بولا:
’’تم کبھی خاموشی میں متوجہ ہونا۔ تمھیں ضرور اس کے وجود کا احساس ہوگا اور تم اس کی محبت بھری آواز بھی سن سکوگے جو اُوپر سے ہمیں پکار رہی ہوگی۔‘‘
اس کے بعد دوسرا بچہ مکمل خاموش ہوگیا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔