چوہدری پرویز الٰہی کی ایڈوائس پر پنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی ہے۔ وزرا اب وزرا نہیں رہے اور ایم پی ایز بھی اب ’’عام انسان‘‘ بن کر گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔
یعنی جن کے دیدار کو حلقے کے عوام ترستے تھے، اب وہ بھکاریوں کے روپ میں بار بار ووٹ کی خیرات مانگنے آئیں گے۔
وہ جو برہمن بن گئے تھے، اب دوبارہ شودروں سے رشتہ داریاں نکالیں گے…… جن کے بار بار اشارہ کرنے پر بمشکل گاڑی روکی جاتی تھی اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی دومنٹ عنایت کیے جاتے تھے، اب ان کے گھروں تک پیدل جایا جائے گا۔ جن سے ہاتھ ملانے کے بعد صابن سے ہاتھ دھولیے جاتے تھے کہ ان جراثیم زدہ ہاتھوں سے کوئی بیماری منتقل نہ ہو جائے، اب ان ہاتھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگایا جائے گا۔
عام لوگوں کے پیروں کی دھول بھی اب سیاست دانوں کی آنکھوں کا سرمہ بن جائے گی۔
مزدوروں کے پسینے سے شرابور بدبودار جسموں سے اب عود و عنبر اور کستوری کی مہک آیا کرے گی۔
گذشتہ چار سال کے عرصے میں حلقے کے فوت شدگان کی فہرستیں بنائی جائیں گی اور سیاسی فاتح خوانیوں کا سلسلہ بھی مقابلے پر شروع ہوجائے گا۔
اگلے تین ماہ تک بہروپیے ایسے رنگ بدل کر سامنے آئیں گے کہ گرگٹ بھی شرما جائے گا۔ وہ وہ بہروپ بھریں گے کہ بہروپیے اپنے پیشے سے تائب ہونے کے بارے میں سوچنے لگیں گے۔
دیکھا جائے، تو سابقہ پنجاب حکومت کا دورانیہ اساتذہ اور محکمۂ تعلیم پر انتہائی بھاری اور کرب ناک رہا۔ سارا عرصہ اساتذہ اپنے حقوق کے لیے قریباً ساڑھے چار سال تک سڑکوں پر خوار ہوتے رہے…… مگر مرکز میں عمران خان اور صوبے میں عثمان بزدار و پرویزالٰہی نے انھیں جھوٹے دلاسے اور طفل تسلیوں سے بہلانے کے ساتھ ساتھ طاقت اور ڈنڈے کے استعمال سے بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنائے رکھا۔
دسمبر اور جنوری کی ٹھٹھرا دینے والی سردی میں اسلام آباد میں اُس وقت کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کے حکم پر مرد و خواتین اساتذہ کے ساتھ ساتھ شیر خوار بچوں پر بھی ایکسپائری اور زہریلی آنسو گیس کے شیلوں کی وہ شدید برسات کی گئی کہ ان کے اثرات بعض اساتذہ اور بچوں میں بھی اب بھی پائے جاتے ہیں، مگر سنگ دلی اور سفاکی کی انتہا دیکھیے کہ شیخ رشید نے ان اساتذہ کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا پر آ کر بڑے فخر سے کہا کہ آنسو گیس کے شیل ایکسپائر ہونے کے بعد پڑے پڑے بے کار ہو رہے تھے، ہم نے سوچا کہ انھیں اساتذہ پر آزما لیا جائے۔
اس سے بڑھ کر بے حسی کیا ہو سکتی ہے کہ قوم کے معماروں پر ظلم و تشدد کا آخری حربہ تک آزما لیا جائے۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اساتذہ کے مطالبات پھر بھی نہ مانے گئے اور انھیں لولی پاپ دے کر گھروں کو بھیج دیا گیا۔
اساتذہ کا بڑا مطالبہ ایک ہی تھا کہ ایس ایس ایز اور اے ای اُوز کو مستقل کیا جائے۔ ٹائم سکیل پروموشن کا مطالبہ گذشتہ حکومت نے تسلیم کرنے کے بعد آرڈرز بھی جاری کر دیے تھے، مگر چند روز بعد ان آرڈرز کو کینسل کر کے اساتذہ کا تنزل کر دیا گیا۔
اساتذہ کے مطالبات میں ٹائم سکیل پروموشن کا جایز مطالبہ بھی شامل تھا، مگر اسے بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ اساتذہ نے ضلع اور پنجاب کی سطح پر بھی بار بار اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا مگر ان کی شنوائی نہ ہوئی۔
گذشتہ ماہ زمان پارک میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اساتذہ کو خوش خبری سنا دی گئی کہ ان کا مستقلی والا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ سابق صوبائی وزیرِتعلیم مراد راس نے ہر موقعے پر اساتذہ کے ساتھ دھوکا کیا۔ انھیں جھوٹے دلاسوں اور جھوٹی ہم دردی کے جال میں پھنسائے رکھا اور بالآخر پنجاب اسمبلی لیرو لیر ہوگئی…… مگر اساتذہ اپنے مطالبات لیے ا بھی تک نکتۂ آغاز پر کھڑے ہیں۔
اب نئی حکومت کی تشکیل تک انھیں انتظار کی سولی پر لٹکنا ہوگا اور اس کے بعد اپنی جد و جہد پھر سے شروع کرنا ہوگی۔ کیوں کہ بیورو کریسی تو پہلے ہی اساتذہ کو ریلیف نہیں دینا چاہتی۔
گذشتہ دور میں میرٹ کے نام پر ایک اور ڈھونگ رچایا گیا۔ آن لائن ٹرانسفر کا فریب دے کر اساتذہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ ٹرانسفر کے لیے آن لائن اپلائی کرنے والے اساتذہ کو ایس ٹی آر اور سنگل ٹیچر کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا جب کہ مٹھی گرم کرنے والے تبادلوں پر پابندی کے دنوں میں بھی ’’ایکسٹریم ہارڈ شپ‘‘ کے زمرے میں ہر رکاوٹ کو عبور کر کے من کی مراد پاگئے۔ آن لائن تبادلوں کی ’’شفافیت‘‘ کی بہتی گنگا میں بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے ایجنٹوں نے ہاتھ ہی نہیں دھوئے ڈبکیاں اور غوطے بھی لگائے۔
قبل ازیں ضلع کی سطح پر تبادلے ہوتے تھے، تو کلرک چند ہزار میں یہ کام کر دیتے تھے۔ مراد راس کی آن لائن سروس نے رشوت کا یہ ریٹ لاکھوں تک پہنچا دیا۔ میرٹ کا قتلِ عام ہوتا رہا اور میرٹ و انصاف کے علم بردار قوم کے معماروں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو سیدھا دکھا کر الٹا ہاتھ مارتے رہے۔
پنجاب کے سکولوں میں اس وقت اساتذہ کی ایک لاکھ سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ 2018ء کے بعد سے اساتذہ کی بھرتیوں پر کوئی کام نہیں ہوسکا۔ ہر تین چار ماہ بعد بھرتیوں کا خوش نما نعرہ لگا کر نوجوان نسل کو بار بار دھوکا دیا گیا۔ کبھی چالیس ہزار، کبھی پچیس ہزار، کبھی پانچ، تو کبھی بیس ہزار اساتذہ کی بھرتیوں کی منظوری کے جھوٹے دعوے کیے گئے۔ وزیرِ تعلیم مراد راس نے کئی بار ٹویٹ کر کے نوجوانوں کو بھرتیوں کی نوید سنائی، مگر اس سلسلے میں ان کا کوئی ایک دعوا اور وعدہ بھی سچ ثابت نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان ’’اوور ایج‘‘ (Over age) ہونے کے بعد مایوسی اور فرسٹریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔
پنجاب میں گذشتہ ساڑھے چار سالہ دورِ حکومت اساتذہ اور محکمۂ تعلیم پر بہت بھاری رہا۔ اساتذہ اور نوجوانوں کو ٹرک کی نت نئی بتیوں کے پیچھے لگایا گیا۔ اساتذہ نے بہت دکھ اٹھائے، بڑے صدمے جھیلے مگر مراد راس کے دور میں ’’نامراد‘‘ ہی رہے۔
پنجاب اسمبلی ٹوٹنے پر ان کا اب ایک ہی سوال ہے کہ
اے شامِ غم بتا کہ سحر کتنی دور ہے
آنسو نہیں جہاں، وہ نگر کتنی دور ہے
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔