معیشت کی تھوڑی سی شد بد رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ مہنگائی کا براہِ راست تعلق طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ جب طلب بڑھ جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں رسد اس طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ کاروباری لوگ، مل اور فیکٹری مالکان اور تاجر حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور وقتاً فوقتاً مصنوعی قلت پیدا کرکے اشیا ضرورت کی قیمتوں میں مرضی کا اضافہ کرکے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہتے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سسٹم ابھی مضبوط نہیں ہوا، جس کی وجہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر ایک کا اپنا بھاو ہے۔ چیز لینی ہے، تو لو ورنہ آگے سے ہٹ جاؤ کہ لائن میں لگے لوگ منھ مانگی قیمت پر سودا خریدنے کو بے تاب ہیں۔
ہمیشہ سے ہمارے مشاہدے اور تجربے میں یہ آ رہا ہے کہ رمضان کا متبرک مہینا شروع ہوتے ہی 30 روپے کلو میں بکنے والا پیاز ڈیڑھ سو روپے کلو، 50 روپے کلو والا آلو 200 روپے کلو، 200 روپے کلو والی کھجور 500 روپے کلو تک جا پہنچتی ہے۔ اس طرح فروٹ اور مشروبات کی قیمتیں ہوش رُبا حد تک بڑھ جاتی ہیں۔ مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے، جسے روکنا سرکار کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اربوں روپے کے ریلیف پیکیج سے سرکاری سرپرستی میں رمضان بازار لگائے جاتے ہیں، جہاں معمولی ریلیف دے کر ناقص اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔ عام بازاروں میں مہنگائی پر کنٹرول کرنے کی بجائے دکان داروں اور تاجروں کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔
مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے سرکاری افسران کا سارا زور دکان داروں کو جرمانے کرنے پر ہوتا ہے، دکان دار جرمانے کی رقم بھی سودا مہنگا کرکے گاہکوں سے پوری کرتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ سردی کا موسم آتے ہی انڈوں کی قیمت اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کیا مرغیاں انڈے دینا کم کر دیتی ہیں یا ان کی خوراک میں مہنگے خشک میوے شامل کیے جاتے ہیں؟
فصل کی کاشت کے موقع پر کھادوں کی مصنوعی قلت پیدا کرکے فی بوری ہزاروں روپے مہنگی بیچی جاتی ہے۔ کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں، مگر گندم دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ منصوبہ بندی کا ہر شعبے میں فقدان ہے۔ سیاست دان ہوں یا سرکاری اہل کاران و افسران، ہر کوئی دہاڑی لگانے کے چکر میں ہے۔ بے چارے عوام پِس رہے ہیں، مگر ان کی شنوائی کرنے والے بذاتِ خود چکی کے دو پاٹ بنے ہوئے ہیں۔
جب مسیحا ہی ڈاکو بن جائیں، تو پھر کس سے فریاد کریں، کس سے منصفی کی توقع رکھیں؟ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خود عوام ہی کو اپنے اس درد کا علاج کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔
وہ قدم کیا ہو گا؟
سب سے پہلے تو ہمیں ایک قوم بننا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم مختلف گروہوں میں بٹا ہوا ایک ہجوم ہیں۔ سیاست دانوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ہمیں دل کش اور دل نشیں نعروں کے لولی پاپ دے کر اپنے چنگل میں پھنسا رکھا ہے۔ ہمیں اس سنہری جال کو توڑنا ہوگا۔ ہمیں عقل سے کام لے کر سوچنا ہو گا کہ مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کا انعقاد کرنے والے عوام کے ہم درد نہیں، بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلے والوں سے بھی زیادہ عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا سنہرا سپنا دکھانے والے اقتدار میں آ کر لوگوں سے نوکریاں اور گھر چھین لیتے ہیں۔
ہمیں سیاست دانوں کی غلامی سے نکلنا ہوگا۔ ’’فیورٹ ازم‘‘ کے چکر میں پڑکر مخالفین کی اچھائی کو برائی ثابت کرنے اور اپنے لیڈر کی ہر برائی کا دفاع کرنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔
ہمیں اس عادت کو چھوڑنا ہو گا کہ مخالف لیڈر کے گناہ اس کے پارٹی ورکرز کے کھاتے میں ڈال کر ان پر طعنہ زنی کی جائے۔ ہمیں اب مجموعی جہالت کے خول کو توڑ کر اپنے حقوق اور محرومیوں کا اِدراک کرنا ہوگا۔ ہمیں ’’یوتھیا‘‘، ’’پٹواری‘‘ اور ’’جیالا‘‘ بن کر نہیں بلکہ ’’پاکستانی‘‘ بن کر آگے بڑھنا ہوگا، تبھی ہم ایک قوم بن سکتے ہیں…… اور جب ہم قوم بن جائیں گے، تو ہماری سوچ بھی ایک ہو جائے گی۔ ہم پھر مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ایک دوسرے کو آسانی سے ’’موٹی ویٹ‘‘ کرسکیں گے کہ مہنگائی طلب اور رسد کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ تب ہم گھروں میں اشیائے ضروریہ کا سٹاک کرنے کی بجائے ضروری مقدار میں چیزیں خریدیں گے۔ ایک دوسرے کو قایل کرسکیں گے کہ چند دن پھل نہ کھانے سے ہم مر نہیں جائیں گے۔ انڈوں کا بائیکاٹ کریں گے، تو ان کے خراب ہونے کے ڈر سے قیمتیں خود بخود نیچے آ جائیں گی۔ ضروت سے زاید خریداری سے اجتناب کر کے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف 95 فی صد عوام کے متحد ہونے کی ہے، جسے 5 فی صد لوگ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
اب جاتے جاتے ایک زندہ قوم کا واقعہ بھی پڑھ لیجیے، بقولِ شاعر
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
ارجنٹائن کا ایک شہری انڈوں کا کارٹن خریدنے گیا، بیچنے والے نے بتایا کہ کارٹن کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ وجہ پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ ایسا تقسیم کاروں کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ’’مجھے انڈے نہیں خریدنے!‘‘ یہ کہتے ہوئے شہری نے کارٹن واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ ’’ہم انڈوں کے بغیر رہ سکتے ہیں!‘‘ یہ کہتے ہوئے تمام شہریوں نے انڈوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ کوئی ہڑتال ہوئی اور نہ جلوس نکلا…… صرف مجموعی ’’بائیکاٹ مہم‘‘ شروع ہوئی۔ کمپنیوں سے سٹوروں نے انڈوں کی سپلائی لینی بند کر دی کہ پہلے والے انڈے ہی سٹوروں میں پڑے پڑے خراب ہو رہے تھے۔ بالآخر پولٹری مالکان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ عوام کے مطالبے پر انھوں نے تمام میڈیا میں اپنی حرکت پر معافی مانگی اور سابقہ قیمت سے بھی ایک چوتھائی کم پر انڈے فروخت کرنا شروع کر دیے۔
قارئین! یہ ایک سچا واقعہ ہے۔ کسی تخیل کی پیداوار نہیں۔ ہم بحیثیتِ عوام کسی بھی شے کی قیمت کم کروا یا بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی مہم یا ہڑتال کی بھی ضرورت نہیں، بس ہماری رضا اور عزم کی ضروت ہے۔ بقولِ شاعر
ہمت کرے انسان، تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے، جو وا ہو نہیں سکتا
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔