کوہساروں کے اس وطن کی کیا بات کی جائے۔ کہتے ہیں کہ یہ گوشہ نشین طبیعت رکھنے والوں کے لئے ایک جنت سے کم نہیں۔ یہاں بے قرار روحوں کو قرار آ جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ اس کو حضرتِ خضر کی سرزمین کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ہی گندم کا دانہ یہاں پر لے آئے ہیں۔ کہیں چشموں، آبشاروں اور جھیلوں کی بات ہو، تو غذر کی بات کیوں نہ ہو؟ آثارِ قدیمہ کی بات ہو، تو ضلع غذر کا علاقہ بہت زرخیز ہے۔ اس حوالے سے محمد جان رحمت جان کی ایک تفصیلی تحقیقی آرٹیکل ’’ضلع غذر کے آثارِ قدیمہ‘‘ سے اک اقتباس قارئین کی نذر ہے: ’’جوں ہی ہم یاسین کے مشرق سے نازبر نالے کی طرف اُترتے جاتے ہیں، وہاں فتی داس کے کناروں سے تھوڑا سا آگے ایک چٹان دکھائی دیتا ہے، اس کو بہت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا ہے۔ اس پر جانوروں کی تصاویر جیسی نقش و نگاری ہے، جو پامیر سے ملتی جلتی ہے۔ پامیر یہاں سے دور نہیں۔ ایسالگتا ہے کہ انہی کے ثقافتی آثار ہیں۔ گوپس سے پھنڈر جھیل تک شندور چترال کی طرف راستے میں بھی بہت سارے نقش ونگاری، مجسمہ سازی اور کندہ کاری کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس بارے مقامی لوگ عجیب و غریب کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ جیسے گوپس ڈوڈو شوٹ کے اوپر پہاڑی پر ایک دروازے کی شکل کی کندہ کاری یا آثار ہیں۔ مقامی روایات میں اس کو پریوں کا مسکن بھی کہا جاتا ہے۔ اہم تقریبات اور شادی بیاہ میں اس پہاڑی سے گزرتے ہوئے کسی جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ آج کل مرغیاں ہی اس قربانی اور نذرانے کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔‘‘
یاسین میں رات بھر گپ شپ اور تمام شمالی علاقوں میں سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کی خاطر آپس میں تعاون اور رابطوں کو بڑھانے کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانے کی ضروت پر تفصیل کے ساتھ بات چیت کی گئی۔ چھے ستمبر کی صبح یومِ دفاع کے موقع پر غلام محمد کے ساتھ شہید لالک جان نشانِ حیدر کے مزار پر حاضری دی اور وطن پر اپنی جان نچھاور کرنے کے صلے میں ان کو سلوٹ پیش کیا۔ شہادت کے و قت ان کی عمر کوئی بتیس سال تھی۔ ’’وادئی یاسین‘‘ صوبیدار لالک جان شہید کا گاؤں ہے۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر جنگ میں شمولیت کی تھی۔ لالک جان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے واحد فوجی ہیں جو یہ نشان حاصل کرسکے ہیں۔

وادئی یاسین کا ایک دلفریب منظر
اگلی رات ہمیں پی ٹی ڈی سی گوپیس میں وزیرِ سیاحت فدا خان فدا کے مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اُن کے ساتھ بہت سنجیدگی کے ساتھ یہاں کے سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے کئی باعمل تجاویز پر گفت و شنید ہوئی۔ ہنزہ اور سوات کو ’’جڑواں شہر‘‘ کا سٹیٹس دینے کے لئے سول سوسائٹی کے ساتھ بنیادی مکالمہ شروع کرنے پر بھی بات ہوئی۔ آپس میں آمد و رفت کے مواقع بڑھانے پر بھی تبادلۂ خیال ہوا اور تمام حاضرین نے اس بارے اپنا رول ادا کرنے کی حامی بھی بھری۔
قدرتی خوبصورتی کے علاوہ یہ دنیا قیمتی پتھروں اور معدنیات سے مالامال ہے۔ یہاں پر سو ڈیڑھ سو سے زیادہ مقامات پر اعلیٰ قسم کا سونا پایا جاتا ہے۔ اٹک اور دیگر مقامات میں لوگ دریائے سندھ کے کنارے ریت کو چھانتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اسی سونے کی تلاش میں رہتے ہیں جو یہاں کے پہاڑوں سے زرات کی شکل میں بہتا بہتا پنجاب کے میدانی علاقوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ پر زنک، کوبالٹ، پلاٹینیم، کاپر، روبی، ٹوپاز وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ ان بے تحاشا وسائل کے ہوتے ہوئے بھی یہاں کے لوگ غربت کے گرداب میں پھنسے اور لامتنامسائل سے برسرِپیکار ہیں۔ ہونا چاہیے کہ حکومت پاکستان یہاں کے جمہوری سسٹم کو مزید مضبوط کرے۔ اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے اسے بھرپور آزادی دے، تاکہ وہ اپنے مسائل کو مقامی سطح پر اچھے انداز میں پیش کرکے اس کے لئے کوئی قابلِ عمل حل ڈھونڈے۔ مقامی لوگوں کو نوکریاں دی جائیں۔ ماحول دوست انڈسٹریز کا دوور دورہ ہو۔ سی پیک بارے اُن کی بے چینی دور ہو۔ اس کے تمام منصوبوں میں اس علاقے کو اولیت ملے۔ مقامی لوگوں کی جو زمینیں کسی منصوبے کے لئے زبردستی ہتھیا لی گئی ہیں، اُس پر از سرِ نو غور ہو اور لوگوں کو مناسب کمپنسیشن ملے یا ان کی زمینیں واپس ہو۔ جب تک یہاں کا سٹیٹس کلیئر نہیں ہو تاور ان کو کافی حد تک خود مختاری دینے میں حائل رکاوٹیں دور نہیں کی جاتیں، تب تک یہ لوگ اپنے مسائل خود ہی چاٹتے رہیں گے۔ حکومت پاکستان نے نیم دلانہ طور پر اس کو نیم صوبائی حیثیت ضرور دی ہے، لیکن اب اس سے آگے مزیدا قدامات کرنا پڑیں گے جو وقت کی ضرورت ہے، ورنہ یہاں کے عام لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔

وادئی گوپیس کا ایک دلفریب منظر
آج چودھویں کا بھرپور چاندہے۔ اس کو انجوائے کرنے کیلئے ہوٹل انتظامیہ نے ہال کے باہر لان میں بیٹھنے کا بھی انتظام کیا ہوا ہے اور ہوٹل کے عقب میں واقع جھیل کے ساتھ بھی۔
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
آج ہم نے جھیل کے بیچ میں چاند کا نظارہ کرنے کی بجائے زیادہ تر وقت دوستوں کے دماغ میں جھانک کریہ سٹڈی اور سروے کرنے کی کوشش کی کہ کس کس پراپنی ’’بیگم جان‘‘ اور کس کس پر اپنی ’’محبوبہ جان‘‘ کا بھوت زیادہ سوار ہے؟ اس سٹڈی سے مہرِ تصدیق اس بات پر ثبت ہوئی کہ ہر ایک باکردار دوست کے دماغ میں ’’بے کردار محبوبہ‘‘ کا جلال زیادہ اور ’’باکردار بیگم‘‘ کی شبیہ برائے نام ہے۔ غیب کا علم خدا جانے لیکن ’’دی سائنس آف مائنڈز‘‘کی تھوڑی بہت ورق گردانی ہم نے بھی کی ہے۔
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کئے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا
بڑی محبتوں، مسرتوں، وعدوں اور دعاؤں کے ساتھ فدا خان فدا، غلام محمد،جان محمد، شیر افضل خان اور اُن کے دیگر ساتھیوں اور پی ٹی ڈی سی کے منیجر اور سٹاف سے رخصت لے کر ہم اگلے دن گیارہ بجے گلگت کے لئے روانہ ہوئے۔ یہی سے ہماری رُخِ زیبا ’’استور‘‘ کی طرف ہے، جہاں بعض دوستوں نے دیوسائی جھیل کے نیلگوں پانی میں اپنی خیالی پریوں کی شبیہ دیکھنی ہے اور واپس آ کر گھروالیوں کو اُس شبیہ کے بارے موبائلز ویڈیوز کے ذریعے بریفنگ دینی ہے۔(جاری ہے)
……………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔