مجھے ایک لڑکی کا اِن باکس میں میسج آیا کہ اسے ایک نفسیاتی بیماری ہے، لیکن اسے سمجھ نہیں آرہا کہ کون سی بیماری ہے؟ اس کا پورا میسج پڑھنے پر معلوم ہوا کہ اسے ایک لڑکے نے مسترد (Reject) کیا ہے اور وہ اس انکار کو قبول (Process) نہیں کر پارہی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُس لڑکے میں کوئی ایسی خوبی نہیں کہ اُس کے پیچھے دیوانہ ہوا جائے، لیکن اس کا دماغ محض اس انکار کو قبول نہ کرنے کے واسطے اُس لڑکے کو خوبیوں کا پیکر بتاتا ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے بارے میں سوچتی رہتی ہے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
کبھی کبھار ’’ری جیکشن‘‘ ہمارے اندر بہت ہی گہرے اور پیچیدہ جذبات اور پرانے زخموں کو تازہ کردیتی ہے اور ویسے بھی انسانوں کے لیے انکار کو قبول کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ہم سماجی مخلوق ہیں اور بچپن سے لے کر پروفیشنل لائف ہو یا رومانوی رشتے، ان سب جگہوں پر لوگوں کی منظوری حاصل کرنے کی تگ و دو ہمارے اندر ’’ری جیکشن‘‘ کی جانب بہت ہی منفی جذبات کو اجاگر کرتی ہے۔ اس ری جیکشن نامی حالت کا سامنا کیے اور اس سے نمٹے بغیر ہم زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے اور اسے نظرانداز کرنا یا اس سے بھاگنا ہمیں مزید تکلیف دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے نمٹا کیسے جائے؟ نفسیات اور فلسفہ ہمیں مسترد کیے جانے کے بعد والے احساسات سے کس طرح نمٹنا سکھاتا ہے؟
کچھ دیر کے لیے فرض کریں کہ آپ فلسفی ہیں (فرض نہ بھی کریں تو کوئی مسئلہ نہیں) تو آپ مسترد کیے جانے سے کس طرح نمٹیں گے؟
سوات میں دہشت گردی کی تازہ لہر اور عمومی نفسیاتی مسایل:
https://lafzuna.com/blog/s-29773/
٭ انکار کا نفسیات سے تعلق:۔ اگر آپ واقعی خود سے محبت کرتے ہیں، تو خود پر ایک احسان کیجیے کہ کبھی فرصت کے لمحات نکال کر اپنی حرکتوں اور عادتوں پر غور و فکر کرکے اپنا اٹیچمنٹ اسٹائل (Attachment Style) ضرور معلوم کرلیجیے۔ آپ کا اٹیچمنٹ اسٹائل بتاتا ہے کہ آپ کا زندگی میں دوستی، دولت، کام، جنسی تعلق، اولاد، ہم سفر، جسمانی صحت، ذہنی صحت، چیزوں اور حالات کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ جب آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ کا اٹیچمنٹ اسٹائل کیا ہے، تو پھر بہت امکانات ہوتے ہیں کہ آپ یہ بھی جان لیں گے کہ آپ محض ان لوگوں کو ہی اپنی جانب کیوں کھینچتے ہیں جو آپ کی زندگی میں محض ڈراما اور نحوست لے کر آتے ہیں؟ پھر آپ اکثر یہی گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ دنیا کے سارے فضول اور بے کار لوگ مجھے ہی کیوں ملتے ہیں؟
مثال کے طور پر اگر آپ کے اٹیچمنٹ اسٹائل میں ’’بے چینی‘‘ یا ’’فکر مندی‘‘ (Anxious Attachment) کا عنصر نمایاں ہے، تو بہت ممکن ہے کہ آپ ایسے افراد کی جانب مایل ہوں جو انتہا درجے کے ’’بے فکر‘‘ یا ’’بے حس‘‘ (Avoidant Attachment) افراد ہوں۔ رشتوں میں فکر مندی اور بے فکری کا ناچ ساری انرجی ضایع کرتا ہے۔ یہ ناچ بہت ہی بے ہودہ اور ڈرامے سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان فکرمند پارٹی (Anxious) کا ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایسے افراد خواہ مخواہ ہر بات کو لے کر فکر مند رہتے ہیں، اور ایسے افراد کے لیے انکار کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے خون کا آخری قطرہ تک بے فکر افراد (Avoidants) کی توجہ اور محبت حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں، جب کہ ان کو بدلے میں بھرپور کھانا نہیں بلکہ صرف ڈبل روٹی کے ٹکڑے (Bread Crumbs) ہی ملتے ہیں۔
توانائی کا مسئلہ اور دست یاب وسایل:
https://lafzuna.com/blog/s-29768/
اٹیچمنٹ اسٹائل کا تعین بچپن میں ہمارے زمینی خدا (والدین) کے رویے پر منحصر ہوتا ہے، اگر ان زمینی خداؤں کی جانب سے آپ کو مسترد کیا جائے، کیوں کہ آپ ان کے بنائے معیار پر پورے نہیں اترتے، تو بالغ ہوکر ’’ری جیکشن‘‘ آپ کے رشتوں اور دیگر معاملات میں آپ کو چپکو (Anxious) یا حالات سے بھاگنے والا (Avoidant) اور ایک محدود سوچ کا انسان بنا دیتی ہے، جو محبت اور رشتوں جیسے پیچیدہ لیکن خوب صورت احساسات کو نہ سمجھ پاتا ہے اور نہ اس سے لطف اندوز ہی ہوپاتا ہے، یا تو آپ پریشانی میں رہتے ہیں یا پھر جذبات کو دبا کر بے حس ہوجاتے ہیں۔ والدین کی جانب سے ملی ری جیکشن آپ کو ترک کرنے کے احساس سے جنم لینے والے نفسیاتی مسایل (Abandonment Issues) کا شکار کردیتی ہے جس کی وجہ سے آپ کو مسترد کیے جانا موت کے مترادف لگتا ہے، کسی کے چھوڑ کر جانے کا درد یوں ہوتا ہے کہ جیسے کوئی واقعی آپ کو جسمانی نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسے آپ محبت کا نام دیتے ہیں لیکن یہ محبت نہیں ہوتی، بلکہ اسے والدین کی جانب سے ملنے والی ری جیکشن سے ملنے والے زخم کا تازہ ہونا کَہ سکتے ہیں۔
اس لیے اگر زندگی میں ڈراما کم اور اور اچھا رومانوی تعلق چاہتے ہیں، تو جہاں آپ کی محبت کا جواب بے حسی ہو یا پھر محبت میں اس طرح ادلا بدلی نہ ہو جس طرح آپ چاہتے ہیں، تو پہلی فرصت میں ایسے لوگوں سے جان چھڑائیں۔ اپنی عزت خود کریں۔ اپنے اٹیچمنٹ اسٹائل پر غور کریں اور سب سے اہم یہ کہ حدود مقرر کریں۔
کچھ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں:
https://lafzuna.com/blog/s-29739/
ویسے تو مسترد ہونا انسانی زندگی کا حصہ ہے اور اس سے ملنے والا درد کچھ عرصے میں خود ہی ختم ہوجاتا ہے، لیکن اگر درد کم نہ ہو، تو پھر اس کی تہہ میں کچھ غیر حل شدہ نفسیاتی مسایل (Unresolved Psychological issues) ہوتے ہیں، جنھیں جاننا اور پھر سلجھانا ضروری ہوتا ہے۔
٭ انکار کو فلسفی کی طرح کیسے قبول کیا جائے؟:۔ فلسفہ کلبیہ کے پیروکار (Cynic Philosopher) ڈایوجینیز ایک مرتبہ ایک مورتی کے سامنے کھڑے ہوکر کھانا مانگ رہے تھے، تو پاس سے گزرتے ہوئے آدمی نے پوچھا کہ یہ کیا کررہے ہیں آپ؟ ڈایوجینیز نے جواب دیا کہ ’’مَیں مسترد ہونے کی پریکٹس کررہا ہوں۔‘‘ (فلسفی ایسے ہی ہوتے ہیں)
انسانوں کی زندگی منظوری (Approval) اور انکار (Rejection) کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ پروفیشنل زندگی ہو یا رومانوی رشتے، کبھی کبھار کسی کا ہمیں مسترد کرنا درست ہوتا ہے۔ کبھی کبھار ہم واقعی کسی خاص جاب یا انسان کے لیے مطابقت نہیں رکھتے، لیکن اکثر کچھ ایسی وجوہات جو غیر منطقی اور جانب دارانہ ہوں، اس پر بھی ہمیں انکار سننے کو ملتا ہے اور دونوں صورتوں میں ہمارے پاس انکار کو قبول کرنے اور آگے بڑھنے کے علاوہ اور کوئی چارا نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ اپنی ساری انرجی/ زندگی اس ایک انکار کو اقرار میں بدلنے پر لگادیتے ہیں، لیکن یہ سود مند نہیں اور کسی کو زبردستی اپنی جانب مایل کرنا (خاص کر تب جب اس شخص کو ہم میں دلچسپی نہیں) ممکن نہیں، یا اس مخصوص جاب کو حاصل نہ کرنے پر اس درد کے ساتھ چپک جانا محض ذہنی اذیت کو بڑھاتا ہے۔
فلسفی آرتھر شپنہار کہتے ہیں کہ اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ انسانوں کے خیالات، رائے اور فیصلے اکثر کس قدر بے وقوفانہ، غیر منطقی اور جانب دارانہ ہوتے ہیں، تو آپ لوگوں کی جانب سے انکار کو خواہ مخواہ اتنی اہمیت ہرگز نہیں دیں گے۔ اگر آپ کسی کے معیار پر پورے نہیں اترتے، تو یہ اس انسان کا مسئلہ ہے، آپ کا نہیں! معیار اس کا بنایا ہوا ہے، تو آپ کیوں کر اس پر پورا اتریں گے؟ اس کے معیار پر پورا نہ اُترنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ آپ میں کمی ہے، بلکہ آپ اس انسان سے مطابقت نہیں رکھتے اور آپ کو اس بات کو قبول کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے۔
اروند کجریوال ہی سے کچھ سیکھ لیں:
https://lafzuna.com/blog/s-29671/
اسٹائک فلاسفر کہتے ہیں کہ کسی کے مسترد کیے جانے سے اگر آپ کو تکلیف ہورہی ہے، تو مسئلہ مسترد کرنے والے میں نہیں بلکہ آپ کی توقعات میں ہے۔ آپ مسترد کیے جانے سے اس لیے خوف زدہ ہوتے ہیں یا تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں، کیوں کہ مسترد کیا جانا آپ کی توقعات میں شامل نہیں ہوتا۔ اسٹائک فلاسفر ایپکٹیٹس کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی خواہشات یا وہ حالات جن سے ہمیں نفرت ہو، کے متعلق زیادہ حساس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ جو معاملہ بھی ہوا (اچھا یا برا) آپ نے اسے ٹھیک سے نمٹایا اور عدم یقینی (Uncertainty) کو قبول کیا، تو اس سے آپ کو مسترد ہونے کا خوف یا اس کے بعد کی تکلیف پریشان نہیں کرے گی۔
فرض کریں کہ آپ کسی مرد/ عورت (جس میں آپ کو دلچسپی ہو)، جب آپ ان کی جانب یہ سوچ کر قدم بڑھائیں کہ میرا کام صرف اس مرد/ عورت سے اپنے احساسات یا دلچسپی کا اظہار کرنا ہے، اب آگے سے وہ انکار کرے یا قبول کرے یہ سراسر میرا دردِسر نہیں اور نہ ان کا ردِعمل میرے اختیار میں ہی ہے۔ لہٰذا اگر انکار ہوتا بھی ہے، تو آپ پہلے ہی خود کو سمجھا چکے ہیں کہ یہ سراسر آپ کے اختیار میں نہیں اور نہ کسی کا انکار یہ بتاتا ہی ہے کہ آپ میں کوئی کمی ہے۔ انکار کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے اور اس مرد/ عورت کی شخصیت اور سوچ میں فرق ہے اور لوگوں کی پسند، ناپسند یا ترجیحات میں فرق ہونا لازم سی بات ہے۔ اب اگر آپ اس انکار کو اپنی ذات پر لے کر خود کو کم تر محسوس کررہے ہیں یا آپ کے اندر بدلے کی آگ بھڑک رہی ہے، تو یہ سراسر آپ کے ذہن کی کارستانیاں ہیں جو آپ کو خواہ مخواہ تکلیف دے رہی ہیں۔ اسی لیے ذہن اور اس سے پیدا ہونے والی سوچوں پر غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے، اور انھیں روکنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ ایک خاموش اور کنٹرول میں رہنے والا ذہن بہت بڑی نعمت ہے۔
سیاست کوئی جرم نہیں:
https://lafzuna.com/blog/s-29662/
کائنات کا قانون ہے کہ وہ ہر چیز کو توازن میں لاتی ہے۔ مطلب یہی کہ ہر ناکامی میں بھی کوئی نہ کوئی امید کی کرن ضرور ہوتی ہے۔ کائنات آپ کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتی۔ بس امید کی کرن دیکھنے والی نگاہ چاہیے ہوتی ہے…… اور یہ اَن مول سبق ہمیں ٹاؤازم (Taoism) کا فلسفہ سکھاتا ہے۔ مَیں ہمیشہ تقریباً ہر آرٹیکل میں جونگزا (Zhuangzi) کی لکڑہارے والی کہانی کا ذکر کرتی ہوں، جس میں لکڑہارا ایک ٹیڑھے درخت کو بے کار کَہ کر مسترد کردیتا ہے اور اسے نہیں کاٹتا، لیکن کچھ عرصے میں وہ درخت ایک مقدس درخت مانا جانے لگتا ہے اور لوگ وہاں منتیں ماننے آتے ہیں۔ سوچیں کہ اگر کسی مرد/ عورت نے آپ کو مسترد کیا ہو اور وہ انسان واقعی میں آپ کے لیے بہتر نہ ہو، کیا معلوم وہ کوئی نارساسسٹ یا ٹاکسک انسان ہو۔ وہ کمپنی جہاں آپ کی درخواست مسترد ہوئی، وہ اس بات کا ثبوت بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے ہنر (Skill Set) کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ سوچیں کہ اس انکار نے آپ کو موقع دیا کہ آپ اپنے اوپر مزید غور کریں اور وہ جگہیں جہاں معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، بہتر کریں۔ نہ کہ خود کو کم تر سمجھ کر نفرت اور بدلے کی آگ میں جلیں۔ بے شک جلنے کا نقصان محض آپ کو ہے۔
ہر انکار، ہر مصیبت، ہر دکھ اپنے ساتھ ایک نئی شروعات لاتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ وہ قوتوں کو توازن میں لے کر آتی ہے (فزکس میں بھی پڑھتے ہیں ہم یہ قانون۔)
ایک چھوٹی سی مشق (Practice) کے ساتھ اس آرٹیکل کو ختم کروں گی اور وہ یہ کہ ایک قلم اور صفحہ اٹھائیے اور کسی خاموش جگہ بیٹھ کر سوچیں اور لکھیں کہ آپ کا زندگی میں مصیبت، آفت، دولت، سیکس، دوست، ہم سفر، محبت، کام وغیرہ، ان سب چیزوں کے ساتھ تعلق (Relationship) کیسا ہے؟ آپ ان سب معاملات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
بہت ممکن ہے کہ لکھتے اور سوچتے ہوئے آپ کو اپنی بہت سی غلطیاں معلوم ہوجائیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کو خود کو بہتر طور پر جاننے کو ملے۔ بے شک سب سے بڑا علم خود کو جاننا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔