انعام الحق

الحمد للہ امن کے لیے ہر جگہ کامیاب مظاہرے ہوئے، لیکن آگے کے لیے کیا روٹ میپ یا وژن ہونا چاہیے…… تاکہ جب عوامی قوت ’’بندوق برداروں‘‘ کو خواہ وہ دہشت گرد ہو، فوج ہو یا کوئی مذہبی فکر……ان کو پسپا کردیں، تو بوقت ضرورت ریاستی اداروں سے مذاکرات کے لیے ہمارے سامنے ایک مکمل اور جامع روٹ میپ ہو، جو امن کا ضامن ہو، فوج اور طالبان کو دور رکھے، تاکہ ایک طبعی اور جمہوری طریقے سے معاشرے کی فکر پنپ سکے۔ میرے خیال میں درجِ ذیل نِکات ہیں جو قارئین کی فکر کے لیے پیش خدمت ہیں:
٭ فوج کو امن کی بحالی کے لیے کسی بھی صورت سوات یا متاثرہ علاقوں میں نہ لایا جائے۔ یہ فوج کے لیے نہ پاکستان کے لیے اور نہ امن کے لیے ہی مفید ہے۔ اس کا نتیجہ ماضی میں دیکھا گیا ہے…… اور اگر حکومت یا فوج ایسا کرتی ہے، تو اس کی شدید مزاحمت کی جائے۔ سوات سے یا کسی بھی متاثرہ علاقوں سے کسی بھی حالت میں خود نقلِ مکانی کی جائے اور نہ ہونے دی جائے۔ اس طرح سول سوسائٹی اور عوامی نمایندے اپنے حال اور مستقبل کا فیصلہ خود کریں نہ کہ اوپر سے فیصلہ مسلط ہو۔
٭ اگر فوج نہیں آئے گی، تو مسلح افراد کو امن و امان کو خراب کرنے سے کیسے روکا جائے گا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مینگورہ، منگلور، چارباغ، خوازہ خیلہ، مٹہ، بری کوٹ، کبل، مدین، بحرین، کالام اور متاثرہ علاقوں میں ہر گاؤں کی سطح پر امن کمیٹیاں بنائی جائیں۔ نوجوان خطرے کے دنوں میں پہرہ دیں یا کم ازکم رات کو گشت کریں۔ کسی بھی غیر مقامی شخص کو اسلحہ سمیت دیکھ کر فوراً پکڑا جائے۔ چاہے وہ کسی وردی میں ملبوس شخص ہو یا لمبی داڑھی اور بالوں والا…… اس کو متعلقہ کمیٹی کے سامنے لاکر اس سے کیمروں کی موجودگی میں تفتیش کی جائے کہ وہ کون ہے، کہاں سے اور کس کے کہنے پر آیا ہے اور کیا ہدف لے کر آیا ہے؟ اس کے بعد کچھ مناسب مرمت کے بعد اس کو مقامی چار پانچ وکیلوں کی موجودگی میں پولیس کے حوالے کیا جائے اور عدالت میں پیشی اور فیصلے تک انتظامیہ پر پریشر قایم رکھا جائے، تاکہ وہ مجرم قانون کے مطابق اپنے انجام تک پہنچ سکے۔ اُس سے حاصل شدہ معلومات کو مقامی صحافیوں کے ذریعے سوشل میڈیا اور باقی قومی میڈیا پر لایا جائے، تاکہ معاملات شفاف اور غیر مبہم ہوکر قوم کے سامنے آجائیں۔ اس میں کسی مقامی لیڈر، بااثر شخصیت، پولیس، عدالت اور انتظامیہ کے دباو میں بالکل نہ آیا جائے اور ہر علاقہ اور گاؤں اپنے کیس کو آخر تک پہنچائے۔اگر ہوسکے، تو ضلع کی سطح پر قابل اعتماد وکلا، علما اور دیگر لیڈران کا ایک سیل بنایا جائے، جہاں اس کیس کو ریکارڈ کیا جائے۔
٭ طالبان یا جو بھی شخص ایک مسلمان ملک میں مسلح جد و جہد کرتا ہے، شریعت کی رو سے یہ ناجایز ہے اور اس کے جواز کے لیے فقہا نے پانچ کڑی شرایط مقرر کی ہیں……جس میں ایک بھی شرط یہاں پوری نہیں ہوتی۔ الحمد للہ ہمارے جو بھی علما شریعت کا علم رکھتے ہیں، ان کو پتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مسلمان ملک میں کبھی علمانے اس کی اجازت نہیں دی۔لہٰذا جو بھی طالب یا دین دار یا دینی مزاج رکھنے والا بندہ یہ رجحان رکھتا ہے، تو اس کو کھل کر چیلنج کیا جائے…… اور کہا جائے کہ مولانا تقی عثمانی صاحب یا مفتی منیب صاحب یا ازہر سے مسلح جد و جہد کے جواز کا فتوا لائے، تو ہم سب ساتھ مل کر لڑیں گے، ورنہ ہم بالکل اجازت نہیں دیں گے۔
اگر ہم دو ٹوک اور اعتماد والا علمی موقف نہیں اپنائیں گے، تو کبھی نیم خواندہ دین داروں یا نیم پروفیشنل سیکورٹی اہل کاروں کے رحم و کرم پر بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گزاریں گے، کبھی سیاست دان باریاں تبدیل کرتے رہیں گے اور ہم مظاہرے ہی کرتے رہیں گے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔