الزبتھ دوم، 21 اپریل 1926ء کو پیدا ہوئی اور 8 ستمبر 2022ء کو 96 برس کی عمر میں انتقال کرگئی۔ اس نے 6 فروری 1952ء کو ملکہ کا عہدہ سنبھالا اور 8 ستمبر 2022ء کو اپنی وفات تک اس منصب پر فایز رہی۔ اس نے فروری 1961ء میں سوات کا دورہ بھی کیا۔ اُس کے سوات کے دورے کے ضمن میں کئی ایک غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں جن کو دور کرنے کے لیے پورے سیاق و سباق کو بیان کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس کے بغیر ملکہ الزبتھ دوم کے سوات کے دورے کے حوالے سے پیدا کردہ گنجلک کوسلجھایا اور سمجھایا نہیں جاسکتا۔
ملکہ الزبتھ دوم نہ صرف برطانیہ کی ملکہ رہی بلکہ سابق برطانوی نو آبادیات کی بھی رہی، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اگرچہ پاکستان 15 اگست کو باقاعدہ طور پرمعرضِ وجود میں آیا، لیکن قانونی لحاظ سے جب تک یہ اپنے لیے نیا آئین نہ بنا پاتا، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ء، بعض ترامیم کے ساتھ، اس نو زائیدہ ملک کا آئین تھا اور اس کا انتظام اسی ایکٹ کے تحت چلتا رہا، جس میں پاکستان کا گورنر جنرل براہِ راست برطانوی بادشاہ یا ملکہ کا نمایندہ تھا۔ اسی وجہ سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح سے لے کر اسکندر مرزا تک، یعنی 1956 ء کے آئین کے نفاذ تک، تمام گورنر جنرل برطانوی بادشاہ یا ملکہ کے نمایندے بھی تھے اور انھیں جواب دہ بھی۔ اسی وجہ سے پاکستان اور پاکستانی، انتظامی لحاظ سے تو خود مختار تھے لیکن آئینی لحاظ سے برطانیہ کے ماتحت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء سے 1952ء تک جارج ششم پاکستان کا بادشاہ رہا اور اس کی وفات کے بعد الزبتھ دوم 6 فروری 1952ء سے 23 مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے آئین کے نفاذ اور اسلامی جمہوریہ بننے تک پاکستان کی براہِ راست ملکہ رہی۔
یہاں اس کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی اپنے آئین بنانے تک حیثیت ڈومینین سٹیٹس (Dominion States) کی تھی۔ اس وجہ سے ان کے گورنر جنرل اپنے عہدے کا حلف اُٹھاتے وقت برطانوی بادشاہ یا ملکہ (اُس وقت جو بھی صورت ہوتی) کی وفاداری کا حلف بھی اُٹھاتے۔ ہندوستان نے 1951ء میں اپنا آئین بناکر جمہوریہ بن کر مکمل آزادی حاصل کی، لیکن پاکستان 23 مارچ 1956ء تک ڈومینین سٹیٹ ہونے کی وجہ سے برطانیہ کے زیرِ نگیں رہا۔
لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ 1956ء کے آئین کے تحت گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوا اور اسکندر مرزا ’’گورنر جنرل‘‘ سے پاکستان کا ’’پہلا صدر‘‘ بنا، لیکن پاکستان اب بھی برطانوی دولتِ مشترکہ یا برٹش کامن ویلتھ کا حصہ تھا۔ ا س لیے کہ اپنے لیے آئین بنانے اور اسلامی جمہوریہ بننے کے باوجود پاکستان نے دولتِ مشترکہ سے علاحدگی اختیار نہیں کی تھی۔ دولتِ مشترکہ ان ممالک پر مشتمل تھی جو برطانیہ کی نو آبادیاں رہے تھے۔ اگرچہ یہ ممالک براہِ راست برطانوی حکم رانی یا نو آبادی کی حیثیت سے آزاد ہوئے تھے، لیکن دولتِ مشترکہ کے رُکن ہونے کے ناتے ملکہ برطانیہ رسمی لحاظ سے اب بھی ان کی ملکہ تھی۔ چوں کہ پاکستان بھی دولتِ مشترکہ کا رکن رہا، لہٰذا ملکہ الزبتھ دوم اب بھی پاکستان کی ملکہ کی حیثیت کی حامل تھی۔ پاکستان نے 30 جنوری 1972ء کو دولتِ مشترکہ سے علاحدگی اختیار کی۔
اس حوالے سے ایک اور اہم بات کو بھی مدِنظر رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے: ریاستِ سوات کے خارجہ اُمور کی حیثیت کے حوالے سے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد 3 نومبر 1947ء کو ریاستِ سوات کے حکم ران میاں گل عبدالودود نے دستاویز الحاق دستخط کرکے ریاست کا الحاق پاکستان سے کردیا، جسے اُس وقت کے گورنر جنرل پاکستان ’’محمد علی جناح‘‘ نے منظور کرتے ہوئے 24 نومبر 1947ء کو دستخط کیا۔ اس دستاویز کے ذریعے ریاستِ سوات کے حکم ران نے خارجہ اُمور، دفاع اور مواصلات کے ضمن میں قانون سازی اور انتظام و انصرام کے تمام اختیارات حکومتِ پاکستان کے حوالے کیے اور فروری 1954ء میں ضمنی ضابطۂ الحاق دستخط کرکے اُس وقت کے ریاستِ سوات کے حکم ران، میاں گل جہان زیب المعروف والی صاحب، نے مزید اُمور کے اختیارات حکومتِ پاکستان اورپاکستان کی قانون ساز اسمبلی کو تفویض کیے……جن میں اگر وہ چاہتے، تو ریاست کا ختم کیا جانا بھی شامل تھا۔
اس سیاق وسباق کے تناظر میں اب آتے ہیں ملکہ الزبتھ دوم کے دورۂ سوات کی طرف۔
ایک برخوردار اپنے ایک کالم زیرِ عنوان ’’ملکہ برطانیہ، ریاستِ سوات میں‘‘ کے ذیل میں سوات میں سیاحت کے فروغ کے ضمن میں لکھتا ہے کہ’’ سیاحت کے فروغ میں میاں گل جہانزیب کی یہ کوشش کارگر ثابت ہوئی۔ انہوں نے لیاقت علی خان کو سنہ 1949ء اور ملکہ الزبتھ دوم کو سنہ 1961ء میں ریاست مدعو کیا۔ ‘‘
والی صاحب کی پوتی زیبو جیلانی کا حوالہ دیتے ہوئے برخوردار مزید لکھتا ہے: ’’لیکن اس مخصوص دورے پر سب کو خوشی تھی کہ برطانوی ملکہ تشریف لارہی ہے۔ ہم سب نے اس دن اپنے بہترین کپڑے پہن رکھے تھے۔‘‘
برخوردار آگے لکھتا ہے کہ ’’ملکہ کے دورے سے قبل، برطانیہ سے ایک وفد نے سوات کا دورہ کیا، تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ یہ سوات ان کے دورے کے لیے موزوں جگہ ہے یا نہیں۔ ‘‘
برخوردار یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فروری 1961ء میں سوات انتہائی سخت سردی کی لپیٹ میں تھا۔ ہزاروں افراد ملکہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔ ملکہ کا ملاکنڈ پاس سے لے کر سوات تک استقبال کیا گیا۔ ملاکنڈ وہ جگہ ہے، جہاں 1897ء میں سر ونسٹن چرچل ایک نامہ نگار کے طور پر تعینات تھے، اور جنگی رپورٹس اخبارات کے لیے لکھتے رہے۔ اس مخصوص جگہ کو اب ’چرچل پیکٹ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ملکہ کو سوات جاتے ہوئے یہ مشہور پیکٹ دکھایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملکہ نے وہاں سے سر ونسٹن چرچل کو فون کیا اور بتایا کہ وہ ملاکنڈ کی وادی میں چرچل پیکٹ کا دورہ کر رہی ہے۔‘‘
محولہ بالا باتوں میں اس بات کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں کہ والی سوات نے لیاقت علی خان اور ملکہ الزبتھ کو سیاحت کے فروغ کے لیے ریاست مدعو کیا تھا۔ لیاقت علی خان کو، 1949ء میں، بہ طورِ وزیر اعظم پاکستان، اس وقت ریاست کے حکم ران میاں گل عبد الودود کا اپنے ولی عہد میاں گل جہان زیب المعروف والی صاحب کے حق میں اقتدار سے دست برداری کے موقع پر میاں گل جہان زیب کی بہ حیثیت نئے حکم ران دستار بندی کے لیے مدعو کیا گیا تھا نہ کہ سیاحت کے فروغ کی خاطر۔ جہاں تک والی صاحب کا ملکہ الزبتھ دوم کو سوات مدعو کرنے کا تعلق ہے، تو نہ تو والی صاحب کے پاس کسی بیرونی حکم ران کو سوات مدعو کرنے کا اختیار تھا، اس لیے کہ جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے کہ ریاستِ سوات کے پاس دستاویزِ الحاق کی رُو سے اُمورِ خارجہ کا کوئی اختیار نہیں تھا (بیرونی ممالک کے حکم رانوں یا سربراہانِ حکومتوں اور ریاستوں کو صرف دورے کا دعوت دینا نہیں ہوتا۔ ان دعوت ناموں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک طویل سفارتی عمل اور اقدامات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ریاستِ سوات کے حکم رانوں کے نہ کسی ملک میں سفارت خانہ اور سفارتی عملہ تھا، جو بیرونی حکم رانوں کے دوروں کے سفارتی عمل کو آگے بڑھا کر پایۂ تکمیل تک پہنچاتا اور نہ اُن کے پاس اس طرح کا کوئی اختیار تھا) اور نہ والی صاحب نے ملکہ الزبتھ دوم کو سوات آنے کی دعوت دی تھی۔
ملکہ الزبتھ دوم سوات کیوں آئی؟
اس کی وضاحت والی صاحب نے اپنی سوانح عمری میں خود کی ہے اور جسے برخوردار نے اپنے مذکورہ کالم ہی کے آخر میں اُردو میں ان الفاظ میں تحریر کیا ہے کہ ’’میاں گل جہانزیب (والیِ سوات) [نے] جو کہ شاہی جوڑے کے میزبان تھے، اپنی سوانح عمری میں اس کے متعلق یوں لکھا ہے: ’صدر فیلڈ مارشل ایوب، 1960ء میں انگلینڈ کے غیر سرکاری دورے پر گئے تھے۔ ونڈسر میں کھانا کھاتے ہوئے صدر ایوب خان نے ملکۂ برطانیہ کو تجویز دی کہ وہ پاکستان کا سرکاری دورہ کریں۔ اچانک شہزادہ فلپ نے کہا: ’بہ شرط یہ کہ آپ ہمیں سوات لے جائیں!‘ یہی وجہ تھی کہ وہ 7 فروری 1961ء کو یہاں آئے تھے۔‘‘
والی صاحب کا محولہ بالا اپناہی بیان اس دعوے کی تردید کرتا ہے کہ اُس نے ملکہ الزبتھ دوم کو سوات کے دورے کی دعوت دی تھی۔ ملکہ کا یہ دورۂ سوات اس کے دورۂ پاکستان کا حصہ تھا۔ خود والی صاحب ہی کے بیان کے مطابق اس کے دورۂ پاکستان کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے سوات لے جانے کی شرط شہزادہ فلپ نے باتوں کے بیچ مداخلت کرکے رکھی۔
شہزادہ فلپ کی شرط والی صاحب نے ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ "Ayub suggested that the Queen make an official visit to Pakistan. So suddenly Prince Philip jumped in and said: "Provided you take us to Swat!” (ملاحظہ ہو والی صاحب کی فریڈرک بارتھ کو بیان کردہ انگریزی زبان میں خود نوشست سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ کے بنکاک سے 1995ء میں شایع شدہ ایڈیشن کا صفحہ 120)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہزادہ فلپ نے یہ شرط کیوں رکھی؟ اس کا جواب بھی والی صاحب کی اس سوانح عمری کے صفحہ 120 ہی پر موجود ہے۔ وہ یہ کہ "In February 1959, Prince Philip was touring Pakistan and India, and he decided he would see Swat. He had a chakor shoot in the morning and a duck shoot in the evening- and the next day he left, after spending two nights. He liked the place very much, and enjoyed the shooting.”
یعنی ’’فروری 1959ء میں شہزادہ فلپ پاکستان اور ہندوستان کی سیر کر رہا تھا، اور اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ سوات دیکھے گا۔ سوات میں اُس نے صبح چکوراور شام کو مرغابیوں کا شکار کیا۔ اور دو راتیں گزارنے کے بعد، اگلے دن واپس چلا گیا۔ اُسے یہ جگہ بہت پسند آئی، اور شکار سے لطف اندوز ہوا۔‘‘
تو شہزادہ فلپ کا ملکہ الزبتھ دوم کے دورۂ پاکستان کو اُن کے سوات لے جانے سے مشروط کرنا دراصل یہاں شکار کرنے اور اُس سے لطف اندوز ہونے ہی کے لیے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سوات میں انھوں نے زیادہ وقت شکار ہی کیا یا دوسرے لفظوں میں ان کا زیادہ وقت شکار ہی میں گزرا۔
برخوردار نے اپنی تحریر میں والی صاحب کے انگریزی بیان کو اُردو کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے صدر ایوب خان کے’’ملکۂ برطانیہ‘‘ کو پاکستان کے سرکاری دورے کی تجویز کی بات کی ہے، لیکن والی صاحب کی انگریزی زبان میں بیان کی ہوئی روداد میں ’’ملکہ الزبتھ‘‘ کا ذکر ہے، ’’ملکۂ برطانیہ‘‘ کا نہیں۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ جس طرح کہ ابتدا میں وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان کی دولتِ مشترکہ کے رکن ہونے کی بنا پر ملکہ الزبتھ دوم، صرف برطانیہ کی نہیں بلکہ رسمی لحاظ سے دولتِ مشترکہ کے تمام ممالک کی ملکہ تھی…… جس میں اُس وقت پاکستان بھی شامل تھا۔ برخوردار چوں کہ کئی ایک ڈگریوں کا حامل ہے، جس میں مطالعہ پاکستان کی ایک اور تاریخ کی دو ڈگریاں بھی شامل ہیں، لہٰذا کم از کم اُسے اپنی تحریر میں ایسی تکنیکی باتوں کا خیال رکھنا لازمی ہے۔
جہاں تک برخوردار کی اس بات کا تعلق ہے کہ’’ ملاکنڈ وہ جگہ ہے، جہاں 1897ء میں سر ونسٹن چرچل ایک نامہ نگار کے طور پر تعینات تھے، اور جنگی رپورٹس اخبارات کے لیے لکھتے رہے۔ اس مخصوص جگہ کو اب ’چرچل پیکٹ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ملکہ کو سوات جاتے ہوئے یہ مشہور پیکٹ دکھایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملکہ نے وہاں سے سر ونسٹن چرچل کو فون کیا اور بتایا کہ وہ ملاکنڈ کی وادی میں چرچل پیکٹ کا دورہ کر رہی ہے۔‘‘
اس بات کی وضاحت مَیں نے اکتوبر 2012ء میں اپنے ایک کالم میں تفصیل سے کی ہے کہ 1897ء کی ملاکنڈ کی جنگ کے موقع پر چرچل ملاکنڈ کیا ہندوستان میں بھی نہیں تھا۔ اُس وقت وہ انگلستان میں چٹھیاں گزار رہا تھا کہ اخبار کے ذریعے ملاکنڈ کی جنگ سے باخبر ہوا اور جب وہ یہاں پہنچا، تو ملاکنڈ کی جنگ کیا ملاکنڈ فیلڈ فورس کی سوات میں تادیبی کارروائی بھی ختم ہوئی تھی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ’’سوات: تاریخ کے دوراہے پر‘‘ کا باب 23۔ اس کے علاوہ میری انگریزی کتاب ’’دی نارتھ۔ ویسٹ فرنٹئیر (خیبر پختونخوا): ایسیز آن ہسٹری‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے باب 6 کا نوٹ 117 اور دوسرے ایڈیشن کے اس باب کا نوٹ 118 بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)
اس مخصوص پیکٹ کو ’’چرچل پیکٹ‘‘ کا نام اس لیے نہیں دیا گیا تھا کہ چرچل یہاں ’’ایک نامہ نگار کے طور پر تعینات تھے، اور جنگی رپورٹس اخبارات کے لیے لکھتے رہے۔ ‘‘ بلکہ اس کو بعد میں اس کے نام سے منسوب کیا گیا۔
رہی یہ بات کہ ’’ملکہ نے وہاں سے سر ونسٹن چرچل کو فون کیا اور بتایا کہ وہ ملاکنڈ کی وادی میں چرچل پیکٹ کا دورہ کر رہی ہے۔‘‘ یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ واقعی ملکہ نے چرچل پیکٹ کا دورہ کیا؟ اس پیکٹ کادورہ کرنے کے لیے ملکہ کو پہاڑی پر چڑھنا پڑتا تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ اس حوالے سے اکتوبر 2012ء میں، مَیں نے ایک کالم لکھا تھا۔ اس کے چند سال بعد جہان زیب کالج میں میری ایک پرانے استاد اور پروفیسر سے، کالج ہی میں زیادہ عرصہ بعد، سرِ راہ ملاقات ہوئی۔ مَیں نے اُس سے اپنا تعارف کیا، تو اُس نے کہا کہ آپ نے چرچل کے بارے میں یہ جو بات لکھی ہے وہ ٹھیک نہیں اور یہ بھی بتایا کہ جب ملکہ سوات آرہی تھی، تو مَیں بھی بس میں پشاور سے سوات آرہا تھا۔ ملکہ نے سڑک پر اس جگہ اپنی گاڑی روک لی جہاں سے چرچل پیکٹ نظر آرہا تھا اور وہاں سے چرچل کو فون کیا۔ استادِ محترم نے میری تحریر کے حوالے سے اپنے جس اعتراض کا ذکر کیا، وہ میری تحریر میں موجود ہی نہیں تھا، لیکن شاید سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے وہ میری تحریر کو صحیح طور پر سمجھ یا یاد نہیں رکھ پایا۔ تاہم اُس کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مَیں نے اُسے یہ جواب دینے کی بجائے کہ یہ بات میری تحریر میں موجود ہی نہیں، انھیں یہ جواب دیا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہوگی۔ اس لیے کہ انسان سے غلطی ہوجاتی ہے۔ استادِ محترم کے حوالے سے یہ بات تحریر کرنے سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اُس کے بقول اُس کے عینی شاہد ہونے کے مطابق ملکہ نے سڑک سے چرچل کو فون کیا اور برخوردار کی تحریر کے مطابق ملکہ نے چرچل کو ’’بتایا کہ وہ ملاکنڈ کی وادی میں چرچل پکٹ کا دورہ کر رہی ہے۔‘‘
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’ملکہ کے دورے سے قبل، برطانیہ سے ایک وفد نے سوات کا دورہ کیا، تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ سوات ان کے دورے کے لیے موزوں جگہ ہے یا نہیں؟‘‘ تو واضح رہے کہ یہ تو ایک سفارتی طریقۂ کار ہے کہ اس طرح کے دوروں سے قبل حفظِ ما تقدم کے طور پرسیکورٹی خدشات کا جایزہ لیا جاتا ہے اور ہر قسم کی تسلی کی جاتی ہے۔ ورنہ اگر سوات ملکہ کے دورہ کے لیے موزوں جگہ نہ ہوتا، تو شہزادہ فلپ، جو کہ سوات دیکھ چکا تھا اور یہاں شکار کیا تھا، کیوں ملکہ کے دورۂ پاکستان کو اُن کے سوات لے جانے سے مشروط کرتا؟
برخوردار بتاتا ہے کہ ملکہ الزبتھ نے مرغزار کی وائٹ پیلس میں’’تین دن قیام کیا تھا۔‘‘ جب کہ ایک دوسرے برخوردار نے ا پنے ایک خصوصی رپورٹ، شایع شدہ 9 ستمبر 2022 ء بہ عنوان ’’ملکہ برطانیہ نے 1961ء میں سوات کا دورہ کیا تھا‘‘ میں ’’اس وقت والی سوات کی حویلی کے ملازم 94 سالہ عبدالواحد‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ملکہ نے شاہی حویلی میں دو راتیں قیام کیا تھا۔ ایک رات مرغزار کی ’وائٹ پیلس‘ میں گزاری تھی جہاں ملکہ کے لیے خصوصی کمرہ سجایا گیا تھا۔‘‘ برخوردارِ اول کے مقابلے میں برخوردارِ دوم کی بات صحیح لگتی ہے۔ دن کو تو وہ شکار پر نکلتے تھے اور رات کا قیام سیدو شریف یا مرغزار میں کرتے تھے۔ (یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہیں ہوگا کہ مرغزار کے ’’وائٹ پیلس‘‘ کا پرانا یا اصلی نام ’’موتی محل‘‘ تھا) یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ملکہ اور فلپ 7 فروری کو سوات آئے اور 10 فروری کو واپس ہوئے۔ لہٰذا سوات میں ان کا قیام مکمل تین رات تو یقینی ہے…… لیکن تین دنوں کی بات مشتبہ ہے۔ اگر وہ 7 فروری کو بعد از دوپہر پہنچے اور 10 فروری کو صبح رخصت ہوئے، تو یہ دورہ مکمل تین دن کا نہیں بنتا۔ تاہم 7 اور 10 فروری کے دنوں کو شامل کرتے ہوئے عرفِ عام میں اسے چہار روزہ دورہ گردانا جاسکتا ہے۔
اوپر دی گئی تفصیل سے واضح ہے کہ برخوردارِ دوم کی یہ بات درست نہیں کہ ’’1961ء میں دورۂ پاکستان کے دوران‘‘ ملکہ الزبتھ دوم ’’کو ریاست سوات کے والی میاں گل عبدالحق جہانزیب المعروف والی سوات نے سہ روزہ دورۂ ریاست سوات کی دعوت دی جو ملکہ الزبتھ دوم نے قبول کرلی۔‘‘ اور اُس کی یہ بات بھی صحیح نہیں کہ ’’سہ روزہ دورہ کے اختتام پر جب ملکہ اسلام آباد روانہ ہو رہی تھی‘‘ اس لیے کہ 1961ء میں موجودہ اسلام آباد ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت راولپنڈی پاکستان کا عارضی دارالخلافہ تھا۔ اسلام آباد 14 اگست 1967ء کو باقاعدہ طور پر پاکستان کا دارالخلافہ بنا۔
عجب کہ دونوں برخورداروں میں سے کسی نے بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ملکہ الزبتھ دوم کے دورۂ سوات کے موقع پر والی صاحب کی حویلی کو جاتے ہوئے سیدو شریف میں قریب ہی سڑک کنارے کچی آبادی کو ملکہ کی نظروں سے چھپانے کی خاطر ایک روایت کے مطابق راتوں رات سڑک کے کنارے اینٹوں کی دیوار تعمیر کی گئی اور دوسری روایت کے مطابق وہاں پر سڑک کے کنارے کپڑے کی سجاوٹ کرکے ان کچے مکانات کو ملکہ کی نظروں سے مخفی رکھا گیا۔ ان میں سے کون سی بات…… یا دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست یا غلط ہیں؟ اس بابت تصدیق سیدو شریف کے اِس وقت بقیدِ حیات بڑے بوڑھے ہی کرسکتے ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔