کیا پشتون علاقوں میں محبت کا زمزم بِہ رہا ہے؟

گذشتہ دو دنوں میں سوات میں دو ایسے ناخوش گوار واقعات ظہور پذیر ہوئے جن کی وجہ سے عوام میں ایک بار پھر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ایک واقعے میں سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں نے چکیسر (شانگلہ) سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹے پر دہشت گردی کا الزام لگاکر مینگورہ میں قتل کردیا۔ بعد میں جب ایک مقامی صحافی فیاض ظفر نے تحقیق کی، تو مقتول باپ کے بیٹے کا پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے ساتھ رقم کے لین دین کا معاملہ چل رہا تھا، جس کے لیے سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکورٹی اہل کاروں کی مداخلت پر تلخ کلامی ہوئی اور مقتول نے فائرنگ کرکے انھیں زخمی کردیا، جس کے نتیجے میں باوردی سیکورٹی اہل کار موقع پر پہنچ گئے اور انھوں نے باپ بیٹے دونوں کو گولی مار دی۔ بعد ازاں اس واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دے دیا گیا، تاکہ اصل واقعہ کو چھپایا جاسکے۔
ٍ سوات میں دہشت گردی کے نام پر اس طرح کا جعلی مقابلہ اور واقعہ کوئی پہلی دفعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ جب سوات میں شورش برپا تھی، تو اُس وقت بھی اس طرح کے انسانیت سوز واقعات ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے تھے۔ سیکورٹی چیک پوسٹوں پر بے گناہ اہلِ سوات کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور محض شک کی بنا پر پُرامن لوگوں کو گھروں سے اُٹھاکر غایب کرایا جاتا تھا اور چند دنوں کے بعد ان کی تشدد زدہ لاش کو کسی ویرانے میں پھینک دیا جاتا تھا۔
دوسرا افسوس ناک واقعہ گذشتہ روز سوات کے ایک نواحی گاؤں گلی باغ میں پیش آیا، جس میں نامعلوم افراد نے ایک سکول وین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ڈرائیور موقع پر ہی جاں بہ حق ہوا جب کہ دو معصوم بچے بھی زخمی ہوئے۔ سوات کے ڈی پی اُو کے مطابق ’’حملہ آور کا اصل نشانہ ڈرائیور تھا، لیکن اس میں بچے حادثاتی طور پر زخمی ہوئے ہیں۔‘‘
اس واقعے کے تانے بانے سوات میں وقوع پذیر ہونے والے گذشتہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے جوڑے جا رہے ہیں، جن میں امن کمیٹی کے ممبر ادریس خان سمیت آٹھ افراد شہید ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد اگلے روز چارباغ میں نامعلوم افراد نے امن کمیٹی کے ایک اور ممبر محمد شیرین کو فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔ ان تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اَب بھی سوات میں موجود ہیں، اور انھیں جب بھی موقع ملتا ہے، تو وہ اپنے اہداف پر وار کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوات چھاؤنی میں مقیم سیکورٹی اہل کار علاقے میں امن و تحفظ کے حوالے سے اپنے فرایضِ منصبی ادا کرنے میں ناکام کیوں چلے آ رہے ہیں؟ کیا سوات کوئی وسیع و عریض علاقہ ہے جس کے داخلی اور خارجی راستوں پر حفاظتی نظر رکھنا آسان نہیں……؟ یا اس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جس کی طویل سرحد کو مانیٹر کرنا ممکن نہیں…… اور اب تو پاک افغان سرحد پر باڑ بھی لگائی گئی ہے اور اس کی سیکورٹی نہایت سخت کردی گئی ہے۔ پھر یہ دہشت گرد سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے دوسرے علاقوں میں اتنی آسانی سے کیسے داخل ہوتے ہیں اور معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قیمتی جانوں سے محروم کرکے اتنی آسانی کے ساتھ روپوش کیسے ہوجاتے ہیں؟
ان دونوں واقعات کے ردِعمل میں سوات میں مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مقامی انتظامیہ نے اس سلسلے میں دفعہ 144 لگاکر 60 د نوں تک ہر طرح کے احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوس پر پابندی عاید کردی ہے۔خلاف ورزی کی صورت میں دفعہ 188 پی پی سی کے تحت کارروائی کی وارننگ جاری کردی ہے، لیکن اس کے باوجود اہلِ سوات نے مزید احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے اور عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ سوات میں مزید دہشت گردی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے…… اور پائیدار امن کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
یہ اَمر بہت خوش آیند ہے کہ اب لوگ دہشت گردوں سے ڈرتے ہیں اور نہ سیکورٹی اداروں کی دھمکیوں ہی کو خاطر میں لاتے ہیں۔ وہ ببانگِ دہل دہشت گردوں کو بھی چیلنج کر رہے ہیں اور دہشت گردی کی ذمہ داری بھی سیکورٹی اداروں پر ہی ڈالتے ہیں۔ سوات میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ عوام طالبان اور سیکورٹی اداروں کا ہر ظلم اور زیادتی کھلی آنکھوں سے دیکھتے تھے، برداشت کرتے تھے لیکن ڈر اور خوف کی وجہ سے خاموش رہتے تھے، مگر اَب عوامی بیداری کی وجہ سے سارا ڈر اور خوف دور ہوچکا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر بھی اصل حقایق کی نشان دہی کرتے ہیں اور احتجاجی مظاہروں میں بھی کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سوات میں تمام تر فساد اور دہشت گردی کا ڈراما اس لیے رچایا گیا تھا کہ اس کے ذریعے ڈالر اور مخصوص دفاعی مفادات حاصل کرنا مقصود تھا۔ اس تاثر کو تقویت ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب سوات میں سنہ 2008ء اور 2009ء میں حالات نے انتہائی خطرناک صورت اختیار کی، تو اُس وقت پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی نمایندے رچرڈ ہالبروک (Richard Holbrooke) اور اُس وقت کی امریکہ کی اَیمبے سیڈر این پیٹرسن (Anne Patterson) بار بار سوات کا دورہ کرتے تھے۔ ان امریکی حکام کے دوروں کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ تاہم مبینہ طور پر ایک معاہدے کے تحت سوات آپریشن کے تمام اخراجات یو ایس ایڈ کا ادارہ برداشت کر رہا تھا اور سوات میں مقیم سیکورٹی اہل کاروں کی تن خواہیں بھی یو ایس ایڈ کی طرف سے دی جاتی تھیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ علاقے میں طالبانائزیشن کو فروغ دینے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ فوج سوات جیسی خوب صورت اور جنت نظیر وادی میں فوجی چھاؤنی کے نام پر اپنے لیے ’’سمر کیمپ‘‘ قایم کرنا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لیے سوات کے مختلف خوب صورت مقامات پر زمینیں حاصل کی گئیں، یہاں تک کہ فارسٹ کی زمین جو پاکستان کے آئین کے تحت کسی بھی مقصد کے لیے کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی، اس کے لیے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے قوانین میں خصوصی نرمی کرکے سوات میں 19 کنال کی فارسٹ لینڈ بھی فوج کے حوالے کردی۔ اگر قیامِ امن کے نام پر اس طرح کی مراعات اور سہولتیں حاصل کرنا مقصد نہیں تھا، تو اس وقت طالبان اور دہشت گردوں کو کیوں علاقے میں کھل کھیلنے دیا جا رہا ہے؟ حالاں کہ آخری فوجی آپریشن ’’راہِ راست‘‘ میں تو یہ دعوا کیا گیا تھا کہ اب پورا ملاکنڈ ڈویژن ہر طرح کے دہشت گردوں اور شدت پسندوں سے پاک کردیا گیا ہے، لیکن شاید اب پھر ریاستی اداروں کو اپنے دفاعی اور مالی مقاصد کے لیے ان نان سٹیٹ ایکٹرز سہولت کاروں کی ضرورت پڑگئی ہے یا پھر عالمی طاقتوں کی طرف سے اشارہ مل گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ان کے مخصوص سیاسی اور تزویراتی مفادات کے لیے علاقے میں ایک بار پھر طالبان کا کھیل رچایا جائے۔
اس وقت روس اور یوکرائن تنازعہ اور چین اور تائیوان قضیہ کے تناظر میں یہ علاقہ امریکی اور یورپی مفادات کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کرسکتا ہے۔
جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے سوات اور خیبر پختون خوا کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی نئی لہر کے حوالے سے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے سیکورٹی اداروں کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کی بے پروائی پر بھی تنقید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ’’اب ہم مزید اپنے علاقے کو آگ اور خون کا مرکز نہیں بننے دیں گے، ہم اپنے بچوں کو مزید دہشت گردی کی آگ میں جلنے نہیں دیں گے، خواہ وہ مسلح جتھوں کی طرف سے بدامنی ہو، یا سیکورٹی فورسز کی طرف سے ظلم ہو، ہم دونوں کا مقابلہ کریں گے۔‘‘
انھوں نے سوات میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے جعلی مقابلے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سینیٹ کے چیئرمین سے درخواست کی کہ اس معاملے کو انسانی حقوق کی کمیٹی میں بھیج دیا جائے۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایم این اے محسن داوڑ نے بھی قومی اسمبلی میں سوات میں حالیہ دہشت گردی کے معاملے پر بات کی ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’’خیبرپختون خوا میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ جو آگ وہاں جان بوجھ کر لگائی گئی ہے، وہ کہیں دوسری جگہوں پہ بھی نہ لگ جائے۔‘‘
تاہم خیبر پختون خوا کی حکومت نے سوات میں دہشت گردی کی نئی لہر کے حوالے سے مکمل طورپر خاموشی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ وزیر اعلا کا تعلق سوات سے ہے اور وہ اپنے علاقے میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات سے لاتعلق نظر آ رہے ہیں۔ ابھی تک ان کی طرف سے کوئی بیان سامنے آیا ہے اور نہ انھوں نے سوات کا دورہ کرکے دہشت گردی کے شکار افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار ہی کیا ہے ۔
سوات اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے خلاف مسلسل اٹھنے والی احتجاجی لہر کے بارے میں مین سٹریم میڈیا میں کوئی کوریج نہیں ہو رہی۔ اس وقت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جن مسایل کو اُجاگر کر رہا ہے، ان کا ملک و قوم کے اصل مسایل سے کوئی تعلق نہیں۔ میڈیا نے درحقیقت سیاست دانوں کے سیاسی مفادات کی سرگرمیوں کو فوکس کیا ہوا ہے لیکن اس وقت خیبر پختون خوا میں عام لوگ جس طرح دہشت گردی اور سیکورٹی اداروں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس کا تعلق ملک کی سلامتی اور یک جہتی سے ہے۔ بدقسمتی سے سیکورٹی اداروں نے گُڈ طالبان کی شکل میں نائن الیون کے بعد پراکسی جنگوں اور تزویراتی مقاصد کے تحت جو سہولت کار پالے ہوئے ہیں، ان کے منفی نتایج شدید عوامی ردِعمل کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ سیکورٹی اداروں پر عوام کے شکوک و شبہات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ رجحان بہت خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ ہم 1971ء میں ایک قومی سانحہ کی شکل میں بھگت چکے ہیں۔ اُس دور میں بھی میڈیا اصل حقایق اہلِ وطن کے سامنے لانے کی بہ جائے یہ لکھ رہا تھا کہ ’’مشرقی پاکستان میں محبت کا زمزم بِہ رہا ہے‘‘ لیکن بعد ازاں محبت کے اس زمزم کے نتیجے میں وطن عزیز دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
مین سٹریم میڈیا اب بھی اہلِ وطن کو اصل حقایق دکھانے اور بتانے کی بہ جائے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے سیاست دانوں کے مفادات کا کھیل نمک مرچ لگا کر عوام کے سامنے پیش کر رہا ہے اور اس کے ذریعے اپنے نشریاتی اداروں کی ریٹنگ بڑھا نے میں لگا ہوا ہے بلکہ بعض نیوز چینل اور صحافی تو باقاعدہ سیاسی فریق بن چکے ہیں اور اپنی پسند و ناپسند عوام پر مسلط کرکے قومی انتشار بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
اب کی بار ’’محبت کا زمزم بِہ رہا ہے ‘‘ جیسی شیرینی کی بہ جائے عوام کے ذہنوں سیاسی انتشار و افتراق اور باہمی نفرت کا زہر انڈیلا جا رہا ہے جس کے نتائج ملک کی سلامتی اور قومی یک جہتی کے لئے نہایت ہی خطرناک اور مہلک ثابت ہوں گے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے