تحریر: عبدالمعین انصاری
دورِ جدید میں جہاں فاصلے مٹ گئے ہیں، وہاں اس کا اثر ترقی یافتہ زبانوں پر بھی پڑا ہے اور ان زبانوں کو مزید مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ جب کہ اس کا نقصان علاقائی یا چھوٹی زبانوں کو ہوا اور وہ مزید پستی میں چلی گئیں۔ ہمارے ملک ہی کو لیں۔ پڑھے لکھے طبقے پر انگلش اور دوسرے یا عام لوگوں پر اُردو تیزی سے اثر انداز ہورہی ہے۔ الفاظ بدلتے رہتے ہیں، وہ اتنے اہم نہیں ہوتے اور کسی زبان کے زندہ رہنے کے لیے اس کے الفاظ میں قطع برید ضروری ہے۔ کسی زبان کا لب و لہجہ اہم ہوتا ہے…… لیکن یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ مختلف زبانوں کے بولنے والے اب اُردو کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہاں تک تو غنیمت تھی مگر لوگوں کے لہجے بھی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ سندھی کی مثال لے لیں۔ اس میں چار حرورف دوہرے بولے جاتے ہیں…… مگر سندھی بولنے والے خاص کر شہروں میں رہنے والے ان حروف کو اپنی اصل آواز میں بولنا چھوڑ رہے ہیں۔
مَیں اپنے خاندان کے ساتھ زیارت گیا۔ وہاں راستہ میں چائے پینے کے لیے ایک جھیل کے قریب رُکے۔ وہاں ایک پٹھان بچہ ملا۔ اس نے سلام دعا کے بعد کہا، آپ کی اُردو کتنی اچھی ہے۔ ہمارا ٹیچر کا اُردو بہت خراب اور وہ ہمیں صحیح اُردو بولنا نہیں سکھاتا ہے۔
مَیں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مَیں اس کو اگر یہ کہتا کہ تمھار استاد صحیح کر رہا ہے، تو وہ میری بات کب مانتا۔
پنجابی جو لکھنے پڑھنے کے لیے اُردو استعمال کرتے تھے اور بولتے پنجابی تھے…… مگر وہ بھی تیزی سے اُردو بولنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ مَیں نے ایک پڑھے لکھے پنجابی سے اس کا شکوہ کیا، تو اُس نے جواب میں کہا کہ اس کے مرحوم باپ نے کہا تھا کہ پنجابی کنجروں کی زبان ہے…… نہ تم بولنا اور نہ بچوں ہی کو سکھانا۔
مجھے اس کے جواب سے صدمہ پہنچا ۔ حالاں کہ کوئی زبان بری نہیں ہوتی……نہ اسے استعمال کرنے والے سب برے ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کسی زبان کا لب و لہجہ سخت ہوتا ہے اور کسی کا نرم۔ مثلاً پنجابیوں میں بعض کے لہجے سخت ہوتے ہیں اور بعض کے نرم۔
اب لوگوں کے لیے اُردو کا لہجہ اتنا اہم ہوگیا ہے کہ آپ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مَیں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ نانگا پربت کے دامن میں ایک گاؤں ’’چیورٹ‘‘ گیا۔ وہاں ہمیں مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا۔ ہم سے بہت سے لوگ ملنے آئے۔ ان میں باتیں تو کم لوگوں نے کیں، زیادہ تر خاموش رہے…… جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ مَیں نے گائیڈ سے پوچھا، کیا یہاں لوگ نہیں آتے؟ اُس نے جواب میں کہا، نہیں……! لوگ تو بہت آتے ہیں…… لیکن اُردو بولنے والے نہیں آتے۔ اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوئی کہ بچے آپس میں کہنے لگے…… ان کی اردو کتنی اچھی ہے!
تقسیمِ ہند کے وقت بھارت میں نقلِ مکانی کرنے والے سب اُردو نہیں بولتے تھے، بلکہ مختلف زبانیں بولتے تھے۔ مگر وہ اب اپنی زبانیں بھول چکے ہیں اور اب ان کی مادری زبان اُردو ہوچکی ہے۔ اس کی ایک مثال گجراتی کی ہے۔ ہجرت کرنے والوں میں کثیر تعداد گجراتی زبان بونے والوں کی تھی۔ مرحوم فخر ماتری کی سرکردگی میں ایک گجراتی روز نامہ ’’ملت‘‘ نکلتا تھا…… اور کراچی حیدر آباد کے بہت سے اسکولوں میں گجراتی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ روز نامہ بند ہوگیا…… اور ٓآہستہ آہستہ گجراتیوں کے بچوں نے گجراتی پڑھنا چھوڑ دیا۔ اب اُردو اور انگلش پڑھ رہے ہیں۔ یہاں تک غنیمت تھی، مگر اب ان کی نئی نسل گجراتی بولنا تو درکنار جانتی بھی نہیں اور بہت کم لوگ گجراتی بول سکتے ہیں۔
کیا آپ اس سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اُردو ڈھیر ساری بولیوں بلکہ زبانوں کو بھی کھارہی ہے؟ جب اخبار، رسایل اور ریڈیو دور تھا، تو ان کا زبانوں پر محدود اثر ہوتا تھا…… بلکہ ریڈیو اور پھر چند سرکاری ٹی وی نے زبانوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ کیوں کہ اس میں مختلف زبانوں کے پروگرام بھی پیش کیے جاتے تھے، لیکن جب سے پرائیوٹ ٹی وی چینل آئے ہیں، وہ کاروباری مقاصد کے لیے چلائے جاتے ہیں اور اس کے لیے صرف ترقی یافتہ زبان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں بیشتر چینلوں نے اُردو کا انتخاب کیا ہے اور علاقائی زبانوں (صرف سندھی کے علاوہ) کے چینل قابل ذکر ہی نہیں اور بلوچستان کی زبانوں کا تو سرے سے کوئی چینل ہی نہیں۔ ان اُردو ٹی وی چینلوں میں لوگوں کی دلچسپی کے لیے وہ سب کچھ ہوتا ہے جو لوگ چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ ان چینلوں کے آنے کے سے جہاں ترقی یافتہ زبانوں کو مزید مقبولیت حاصل ہوئی ہے، وہاں یہ چینل چھوٹی زبانوں اور بولیوں کے لیے سمِ قاتل ہیں۔ اب تو ہمارے سیاست دانوں نے صرف ٹی وی پر آنے کے لیے اسمبلی تو کیا عام اجتماعات میں بھی اپنی علاقائی زبانوں میں خطاب کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب تیزی سے پڑھے لکھے لوگوں کے گھروں میں مادری زبان کے بجائے اُردو بولی جانے لگی ہے۔
یہ تو علاقائی زبانوں کی بات ہوگئی…… لیکن ہمارے ملک میں ڈھیر ساری زبانیں قریب المرگ ہیں۔ ان میں سے کچھ زبانیں ایسی ہیں جو کسی وقت بھی مٹ سکتی ہیں۔ اگرچہ یونیسکو نے پاکستان کی تمام زبانوں کو زندہ قرار دیا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 85 کے لگ بھگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں زبانوں کے لہجے شامل نہیں۔ ان میں اُردو، گجراتی، انگلش اور مختلف لہجوں کو شامل کرلیا جائے، تو ان کی تعداد 96 ہوجاتی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام زبانیں زندہ زبانیں ہیں…… اور اپنے اپنے دایرے میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کے علاوہ سات بولیاں ایسی ہیں…… جو فنا ہونے کے قریب ہیں۔ کیوں کے ان کے بولنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ ایسی زبانوں کا مختصر ذکر ذیل میں درج ہے ۔
٭ اوشو (Ushojo):۔ اس زبان کو بولنے والے سوات کے اطراف میں آباد ہیں اور ان کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ زبان ساوی سے ملتی جلتی ہے اور ہند آریائی کی درد گروہ کی شاخ سے اس کا تعلق ہے۔
٭ آئر (Aer):۔ یہ زبان جنوب مشرقی سندھ میں حیدر آباد، کنری اور بھارت کے گجرات کے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ جہاں گجراتی زبان اسے تیزی سے نگل رہی ہے۔ پاکستان میں اس کے بولنے والے 150تا 200 رہ گئے ہیں۔ اس زبان کو بولنے والے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ زبان سندھی اور گجراتی زبانوں سے ملتی جلتی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اس زبان کو بچانے کی کوشش نہ کی گئی، تو یہ جلد فنا ہوجائے گی۔
٭ بھایا (Bhaya):۔ یہ زبان جنوبی سندھ کے علاقہ کھپرو، میرپور خاص اور حیدر آباد میں بولی جاتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد اس کے بولنے والے زیادہ تر بھارت چلے گئے۔ جہاں یہ فنا ہونے کے قریب ہے اور پاکستان میں اس کو بولنے والوں کی تعداد 5 سو سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اس زبان کا تعلق بھی ہند آریائی خاندان سے ہے۔
٭ ڈوماکی Domaki:۔ یہ زبان گلگت، نگر اور شمالی علاقہ جات کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ ’’شینا‘‘ سے ملتی جلتی ہے اور ہند آریائی کی شاخ درد گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔
٭ ساوی (Savi):۔ یہ اصل میں افغانستان میں بولی جاتی ہے۔ روس کی مداخلت کے بعد اس زبان کے کچھ لوگ پاکستان اور ایران ہجرت کر گئے۔ کچھ صوبہ خیبر پختون خوا کے تیمرگرہ اور دروش کے مہاجر کیمپ میں بس گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ واپس افغانستان چلے گئے اور کچھ پاکستان میں مختلف جگہوں پر آباد ہوگئے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں۔ اس زبان کا تعلق ہند آریائی شاخ درد گروہ سے ہے۔
٭ کبوترا (Kabutra):۔ یہ زبان عمر کوٹ، نارو، ڈھورو، کنری اور جنوبی سندھ کے بھارت سے ملحقہ علاقہ میں بولی جاتی ہے۔ اس کو بولنے والے ہندو مذہب ہیں اور ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہیں۔ اس زبان کو بولنے والوں کی زیادہ تعداد گجرات اور راجستان میں آباد ہے۔ تھر کی خشک سالی کی وجہ سے ان میں کچھ حیدر آباد اور کراچی آگئے۔ ان میں کچھ واپس چلے گئے اور کچھ وہیں آباد ہوگئے۔
٭ گوڑو (Gowro):۔ یہ لوگ صوبہ خیبر پختون خوا میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہیں اور ان کی تعد 200 کے لگ بھگ ہے۔ اس زبان کا تعلق ہند آریائی کی شاخ درد گروہ سے ہے۔
یاد رہے یہ زبانیں بولی جاتی ہیں…… لیکن لکھی نہیں جاتیں اور لکھنے کے لیے دوسری زبانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ان زبانوں کو فنا نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی ترقی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ کیوں کہ ایک زبان کی موت ایک ثقافت کی موت ہوتی ہے۔
نوٹ:۔ اس مضمون میں قریب المرگ زبانوں کے بارے میں مواد سید خالد جامعی کی کتاب ’’زبانوں کا قتلِ عام:مغربی تہذب‘‘ سے لیا گیا ہے،راقم)
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔