سائیکالوجسٹ ’’ڈروتھی ٹینو‘‘ (Dorothy Tennov) نے 1977ء میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ’’لو اینڈ لمرنس‘‘ (Love and Limerence)، جس میں ڈروتھی نے ایک عجیب و غریب قسم کی محبت کو دریافت کیا…… جو عام محبت سے مختلف تھی۔ اس محبت والے جذبات کو اس نے ’’لمرنس‘‘ کا نام دیا۔
1977ء میں ڈروتھی کی اس ریسرچ کو کچھ خاص توجہ حاصل نہیں ہوئی۔ یہ آرٹیکل پڑھتے ہوئے شاید آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہو…… جنہوں نے لفظ ’’لمرنس‘‘ پہلی مرتبہ سنا ہو…… لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس عجیب محبت والی بیماری کو توجہ ملی اور لوگ کھل کر اس پر بات بھی کرنے لگے ہیں۔
مجھے ’’اِن باکس‘‘ میں اکثر ایسے پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں لوگوں کے حالات ’’لمرنس‘‘ سے میل کھاتے ہیں…… لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں اتنی شدت میں ہیں…… اور ان کا خود پر کوئی کنٹرول کیوں نہیں؟
’’لمرنس‘‘ کس بلا کا نام ہے…… یہ کون سے لوگ تجربہ کرتے ہیں…… اور اس سے باہر نکلنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ چلیں، اس پر بات کرتے ہیں۔
محبت میں جذباتی ہونا یا پھر اپنے محبوب کی کچھ خامیوں کو نظرانداز کرنا فطری ہے۔ کیوں کہ اُس وقت انسان دماغ میں خارج ہونے والے کیمیکل کے زیرِ اثر ہوتا ہے…… لیکن جب معاملات نارمل سے باہر جا رہے ہوں…… اور آپ کی سمجھ سے بالاتر ہو کہ اتنی خطرناک شدت کیوں اور کیسے آرہی ہے؟ تو آپ کو اپنی زندگی اور خود پر کنٹرول ختم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ ’’لمرنس‘‘ کی شروعات ایک دم سے بھی ہوتی ہے…… لیکن کچھ لوگوں میں یہ وقت کے ساتھ شدت اختیار کرتی ہے۔ ایک انتہائی حسین احساس سے شروعات ہوتی ہے جو شدید جذباتی احساس کو جگاتی ہوئی جنون کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اسے آپ ’’ایموشنل افیئر‘‘ (Emotional Affair) بھی کَہ سکتے ہیں۔ اس دوران میں آپ کچھ اس طرح سے محسوس کرتے ہیں:
٭ اس انسان کا خیال بار بار آنا، جذبات کے ساتھ جنسی تعلق قایم کرنے کی شدت کا بھی ہونا (کبھی کبھار نہیں بھی ہوتا۔)
٭ سب سے اہم آپ کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ سامنے والا آپ میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے؟ آپ صرف اپنے احساسات میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب کہ محبت میں احساسات کی ادلا بدلی (Reciprocation) ہوتی ہے۔ محبت میں دونوں طرف جذبات ایک سے ہوتے ہیں…… لیکن ’’لمرنس‘‘ میں کہانی یک طرفہ ہوتی ہے، یا پھر دوسرے بندے کی دلچسپی اور سرمایہ کاری بہت کم یا نہ ہونے کے برابر۔
٭ آپ کا موڈ اُس انسان کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے…… جس کے ساتھ آپ کو ’’لمرنس‘‘ ہو۔ اگر وہ تھوڑا سی دلچسپی دکھائے، تو آپ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں، اور اگر اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا، تو آپ کا پورا دن/ مہینے/ سال تباہ کن محسوس ہوتے ہیں۔
٭ آپ ایک سے زیادہ افراد کی جانب لمرنس کے احساسات نہیں رکھ سکتے، بہت سارے اعلا اور بہترین لوگوں کے آس پاس ہونے پر بھی آپ کسی اور کی جانب رُخ نہیں کرپاتے۔ آپ کے آس پاس والے حیران ہوتے ہیں کہ تم نے اس انسان میں کیا دیکھ لیا ہے؟ تم اس سے کئی گنا بہتر ہو، تمھارے پاس کوئی کمی نہیں، اتنی اچھی بیوی/ شوہر ہے تمھارا، تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے……! اور آپ کا دماغ واقعی میں خراب ہوچکا ہوتا ہے۔
٭ چوں کہ ’’لمرنس‘‘ میں وہ انسان جس کے کنٹرول میں آپ موجود ہیں، وہ آپ میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا، تبھی جب وہ آپ کو اس گرم جوشی سے جواب نہیں دیتا، جیسا کہ آپ کرتے ہیں…… تب آپ خود سے بنائی ہوئی فینٹسی میں کھو کر اُس فینٹسی سے اُس انسان سے کبھی نہ ملنے والی گرم جوشی (Reciprocation) کو محسوس کرتے ہیں۔
٭ جب وہ انسان سامنے ہو، تب آپ نروس، تیز رفتار دھڑکن، گھبراہٹ اور ہکلا کر بولتے ہیں (جسمانی علامات اور بھی ہوسکتی ہیں اور اس سے مختلف بھی۔)
٭ ’’لمرنس‘‘ کے شکار لوگوں کو مشکلات آنے پر زیادہ تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ کیوں کہ مسایل یا مشکلات کو حل کرنے کے لیے حقیقت کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن ’’لمرنس‘‘ میں مبتلا افراد شدید فینٹسی کی حالت میں ہوتے ہیں، تبھی انھیں تھوڑی سی مشکلات بھی زیادہ لگتی ہیں۔
٭ جب ’’لمرنس‘‘ میں عدم یقینی (Uncertainty) کی شدت بڑھنے لگتی ہے، تب آپ کو جسمانی علامات کا سامنا ہوتا ہے، جیسے دل میں درد ہونا یا جسم میں کسی اور جگہ تکلیف ہونا، کیوں کہ ہمارا دماغ ٹوٹے ہوئے دل اور ٹوٹی ہوئی ٹانگ میں فرق نہیں کرسکتا۔
٭ ’’لمرنس‘‘ میں اگر تھوڑی سی تکلیف ملے اُس انسان سے جس کو لے کر آپ جنونی ہیں، تب آپ اپنے سارے مسایل بھول کر اس کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ سارے مسئلے اُس ایک انسان کے آگے دھرے رہ جاتے ہیں۔
٭ سب سے خطرناک علامت، آپ کے سامنے سب ہورہا ہوتا ہے، آپ کو دکھ رہا ہوتا ہے کہ اس انسان کی اصلیت کیا ہے، لال جھنڈیاں لہرا رہی ہوتی ہیں…… لیکن آپ اس انسان میں جان بوجھ کر خوبیاں ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ آپ اس کی منفی شخصیت میں بھی مثبت باتیں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اسے حقیقت سے انکار کہتے ہیں۔
٭ جس سے آپ کو ’’لمرنس‘‘ ہوتی ہے، اس کو لے کر یہ فضول خواہش ہوتی ہے کہ وہ صرف میرے بارے میں سوچے اور مجھے چاہے ۔
قارئین! علامات اور بھی ہوسکتی ہیں، شدید اور کم شدید بھی ہوسکتی ہیں…… اور اگر یہ علامات آپ کسی کو بتائیں، تو وہ کہے گا کہ یہ تو محبت ہے۔ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں جو محبت کے زمرے میں نہ آئے…… لیکن جو لوگ ’’لمرنس‘‘ سے گزرتے ہیں، وہ ان علامات کو اچھے سے محسوس کرسکتے ہیں۔ اکثر لوگ اس کو ’’کرش‘‘ کہیں گے، جو کہ عموماً ٹین ایجر بچوں کو ہوتا ہے…… لیکن ’’لمرنس‘‘ کرش نہیں۔ یہ شادی شدہ لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ اسے آپ محبت یا کسی انسان کی شخصیت کا خیالی خاکہ بنا کر اس خاکے کے ساتھ اپنے جذبات کو جوڑ کر اس کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ خیالی خاکے اور خیالی محبت کیسے بنتی ہے اور ان خاکوں کو بننے سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ لمرنس سے جان چھڑا کر کیسے اپنا وقت اور اپنی خودتوقیری (Self-esteem) کو بچایا جاسکتا ہے؟
٭ لمرنس کی گہرائی میں نیوروسائنس (Neuroscience) یعنی صحیح وقت پر صحیح انسان کے ساتھ صحیح قسم کے کیمیکل خارج ہونے پر لمرنس ہونے کے علاوہ آپ کا بچپن اور ماں باپ کے رویے بھی پسِ پشت ہوتے ہیں۔ ہمارا بچپن ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتا۔ اس کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ کا بچپن ایک نارساسسٹ یا جذباتی طور پر غیر فعال (Dysfunctional) گھر میں گزرا ہے، تو بہت ممکن ہے کہ آپ ’’لمرنس‘‘ کے چکرویو میں پھنس جائیں۔ اس لیے بچپن کی گتھیوں کو سلجھائیں۔ ماں باپ کے رویوں (Behavioral Patterns) کو نوٹ کریں۔ یوں آپ کو اپنے رویے اور جذبات کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔
مثال کے طور اگر کوئی صاحب یا خاتون کسی انسان سے بات چیت شروع کرتے ہیں اور عام بات چیت سے شروعات ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے، اور سامنے والا اپنی ذاتی باتیں شیئر کرنے لگتا ہے، جس میں وہ اپنا بچپن، اپنا دکھ اور مختلف باتیں بتاتا ہے، اس کی باتیں سن کر آپ کو لاشعوری طور پر اپنا بچپن یاد آتا ہے اور آپ کا دماغ فوراً آپ کو سگنل بھیج کر کہتا ہے کہ ہم اس انسان کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم نے یہ سب خود بھی سہا ہے اور ہم اس انسان کی مدد کرکے اس کو خوش کرسکتے ہیں۔ یوں ایک احساسِ ہم دردی جاگتا ہے اور پھر جذباتی لگاو اور پھر ’’لمرنس‘‘ (کیوں کہ بچپن ایک ایسی فیملی میں گزرا جو جذباتی طور پر غیر فعال تھی۔) آپ کو وہ شخص مزید دلچسپ لگنے لگتا ہے اور آپ مزید گہرائیوں میں جانے لگتے ہیں اور پھر ایک شدید لگاو (Attachment) ہوجاتی ہے۔ اب ہم دردی، بے چارگی، محبت، فینٹسی، لگاو، لمرنس کا عجیب گھٹیا ملاپ (Cocktail) آپ کی زندگی اور وقت کو برباد کرنے کے لیے تیار ہے۔
کوشش کریں کہ آج کے اس ڈیجیٹل انقلاب کے دور میں ہر کسی سے بات چیت نہ کریں۔ ہر کسی کو جاننا یا اس کی ذاتی کہانیوں کو سننا یا پھر اپنے دکھ سنانا آپ کے لیے جذباتی لگاو کی شکل میں عذاب بن سکتا ہے۔ اگر جاننا ہے، تو اپنے آس پاس والوں کو جانئے۔ ہم انسان اپنی فیملی سے باہر موبائل اسکرین کے اس پار بیٹھے لوگوں کو جاننے کے لیے ڈیزائن نہیں ہوئے۔ اس ماڈرن دور میں زیادہ رابطوں کے ساتھ زیادہ دکھ بھی آیا ہے ۔ جتنا کم رابطہ کریں گے لوگوں سے اتنا ہی بہتر رہیں گے ذہنی طور پر۔ اور جہاں آپ کو کسی کو دیکھ کر یا کسی سے باتیں کرکے ضرورت سے زیادہ اچھا محسوس ہو، تو سمجھ جائیں کہ گڑبڑ ہے اور اب یہاں (اُس شخص) سے دور رہنا ہے۔
جی ہاں! آپ کو ایسے آدمی/ عورت سے دور رہنا ہے !
٭ اگر آپ اس ’’لمرنس‘‘ والی تکلیف میں مبتلا ہیں، تو سب سے پہلے کسی اچھے سائیکو تھراپسٹ سے رابطہ کریں…… خود بھی اس پر لٹریچر پڑھیں۔ دوستوں کی مدد لیں۔ انھیں بتائیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کس طرح آپ کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ مجھے اکثر ان باکس میں لوگ کہتے ہیں کہ ان کو اس خیالی پلاو کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی میں بیش بہا تکالیف کا سامنا ہے۔ یقینا یہ تکلیف لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ انسانوں کی لت (Person Addiction) کسی بھی عام نشے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
٭ میڈی ٹیشن کریں، اپنے جذبات کا مشاہدہ کریں۔ اپنے جذبات پر غور کریں۔ کب کس کی موجودگی میں کیسا محسوس ہوتا ہے، اس کے متعلق خبردار رہیں۔
بچپن میں ماں باپ کے رویوں سے جو خلا جنم لیتا ہے، اسے ہم ’’لمرنس‘‘ یا مختلف لت کی شکل میں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچپن میں دبے ہوئے جذبات آگے چل کر کسی بھی روپ میں سامنے آسکتے ہیں۔ ہم اس بات پر اختیار تو نہیں رکھتے کہ ہم کس سے ملیں گے یا کس سے نہیں، البتہ اگر ہم آگاہ اور خبردارہوں اپنے اور باقی انسانوں کے رویوں کے متعلق، تو ’’لمرنس‘‘ جیسے کھوکھلے اور وقت ضایع کرنے والے خیالی پلاو سے خود کو بروقت دور رکھ سکتے ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔