عام طور پر ’’تلاطم‘‘ (عربی، اسمِ مذکر) کا اِملا ’’طلاطم‘‘ رقم کیا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’علمی اُردو لغت(متوسط)‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ اور ’’جدید اُردو لغت‘‘ کے مطابق دُرست اِملا ’’تلاطم‘‘ ہے نہ کہ ’’طلاطم‘‘۔ اس کا تلفظ ’’تَ۔ لَ۔ ا ۔طُ۔ م‘‘ جب کہ معنی ’’لہر‘‘، ’’موج‘‘، ’’پانی کی تھپیڑیں‘‘، ’’جوش‘‘ اور ’’ولولہ‘‘ کے ہیں۔
اس حوالے سے رشید حسن خان نے اپنی کتاب ’’اُردو املا‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، سنہ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 126 پر اس لفظ کا اِملا ’’تلاطم‘‘درج کیا ہے۔ اس طرح مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 127 پر باقاعدہ یہ صراحت فرمائی ہے: ’’تلاطم: اس میں پہلا حرف ’ت‘ ہے اور چوتھا حرف ’ط‘ ہے۔ اس کو غلطی سے ’طلاطم‘ بھی لکھ دیا جاتا ہے۔
صاحبِ نور اور صاحبِ آصفیہ دونوں نے حضرتِ اسیرؔ کا ایک شعر سند کے طور پر درج کیا ہے، ملاحظہ ہو:
قیامت ہے بندھی ہے ذِبح کے دم آنکھ پر پٹّی
رہا دل میں تلاطم حسرتِ دیدارِ قاتل کا