اگر آپ کو کبھی کسی نے براہِ راست یہ کہنے کی جرات کی ہے کہ ’’یہ سوٹ تم نے فُلاں جگہ بھی پہنا تھا، تم پر کافی جچتا ہے!‘‘ یا پھر کسی دوست، رشتہ دار نے آپ کو اس خاص نظر سے دیکھا ہو جو چیخ چیخ کر کہے: ’’تمہارے پاس اور کپڑے نہیں ہیں، جب دیکھو منھ اٹھا کر یہی پہن آتے ہو!‘‘ تو یقینا آپ صحیح راہ پر گام زن ہیں۔ خود کو خوش قسمت گردانیے۔ کیوں کہ آپ "Consumer-zombie” نہیں۔
بحیثیتِ عورت مجھ پر ہمیشہ یہ دباؤ رہا کہ ایک تو مجھے خوب صورت دکھنا ہے اور دوسرا کوئی ڈریس کسی رشتہ دار کے گھر یا کسی تقریب میں جاتے ہوئے ’’ری پیٹ‘‘ (Repeat) نہیں کرنا (جہالت سے بھرے رسم و رواج صدیوں سے ’’ری پیٹ‘‘ ہورہے ہیں، لیکن کپڑے ہر گز نہیں ہوسکتے)
چوں کہ "Minimalism” اور "Sustainability” گوروں کے چونچلے ہیں۔ ہمارے یہاں اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ کیا پاکستان جیسے ملک میں ان نظریات کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہے؟
مَیں پچھلے دو سال سے "Minimalism” نامی نظریے کے اصولوں پر چل رہی ہوں (خواتین کے لیے یہ قطعاً آسان نہیں) جس کا مقصد آپ کو ضرورت اور خواہش میں فرق بتانا ہے۔ میری اس تحریر میں غریب طبقہ زیرِ بحث نہیں، جو اپنے روز مرہ کے معاملات کو پورا نہیں کر پاتا۔ وہ ’’کنزیوم‘‘ کہاں سے کرے گا؟ نہ ہی ایلیٹ کلاس جن کی تعداد بہت کم ہے۔ میرا اشارہ اس مڈل کلاس کی جانب ہے، جس نے اس خرید و فروخت کی ریس میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کی دوڑ لگا رکھی ہے۔
کسی دور میں لفظ کنزیوم کو تباہی یا کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ منسوب کرنے کا رواج عام تھا، لیکن کپڑے، جوتے، سجاوٹ و آرایش کی اشیا اور برقی آلات وغیرہ کو بھی کنزیوم کیا جائے گا، وہ بھی اس قدر انتہائی سطح پر، اس کا اندازہ تو اس تباہ کن نظام کے بنانے والوں کو بھی نہیں ہوا ہوگا۔
اربوں روپے ایڈورٹائزمنٹ پر خرچ کرنے والی کمپنیاں اَن تھک محنت کرکے ہمیں صبح شام اس بات پر رضامند کرتی ہیں کہ اگر فُلاں برانڈ کی فُلاں چیز خرید لیں، تو اس سے آپ کی زندگی بدل جائے گی۔ وگرنہ آپ یونہی ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے، آپ کی اپنی حقیقی شخصیت کی دراصل کوئی اہمیت نہیں۔
انسانی دماغ (جو آج کل اپنے ہی نفع اور نقصان میں تمیز کرنے سے قاصر ہے) "Dopamine” نامی ایک "Neuro Hormone” خارج کرتا ہے۔ یوں تو اس ہارمون کے سر کئی ذمے داریاں ہیں، لیکن اس کا ایک کام ہمیں خوشی کا احساس دلانا بھی ہے۔ یہ ساری انڈسٹریاں اسی کا فایدہ اٹھاتی ہیں۔ شاپنگ کرکے ہمیں خوشی کا جو احساس ہوتا ہے، وہ اسی "Dopamine” کی بدولت ہی ہے (Retail Therapyاس کی مثال ہے) سائنٹفک ریسرچ کے مطابق چیزوں کی زیادہ خرید و فروخت (یعنی زیادہ Dopamine کو خارج کرنا) لت میں مبتلا کرتا ہے۔ آپ اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد اشیا کا ڈھیر لگاتے جاتے ہیں۔
ایک "Minimalist” ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی کرکے سنیاس لے لیا جائے۔ دراصل اس طرزِ زندگی کا مقصد آپ کو ایک معیاری زندگی سے روشناس کرانا ہے۔ جب خواتین گھنٹوں صرف یہ سوچنے میں گزار دیتی ہیں کہ انہیں کیا پہننا اور کیسا نظر آنا ہے؟ دراصل یہ بھی غلامی ہی کی ایک شکل ہے۔ اچھے سے اچھا دکھنے کی یہ دوڑ ہمیں احساسِ کم تری اور ذہنی دباو میں مبتلا کرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں حقیقت سے دور کردیتی ہے۔ کیوں کہ حقیقت میں آپ ہر وقت خوب صورت نہیں دِکھ سکتے۔ کم چیزیں خریدنا اور انہیں زیادہ عرصے تک استعمال کرنا آزادی کا احساس دلاتا ہے۔ احساسِ کمتری اور ہر وقت پرفیکٹ دِکھنے اور کچھ نیا پہننے کی ذمے داری سے آزادی…… وقت اور پیسوں کی بچت الگ۔
جس دنیا میں لوگوں کا رویہ اور سلوک آپ کے سٹیٹس اور پیسوں پر مبنی ہو، وہاں ایک ٹی شرٹ یا لباس کو کئی مواقع پر زیبِ تن کرنے پر لوگ آپ کو جج کرسکتے ہیں۔ مہنگے تحایف کا تبادلہ نہ کرنے پر رشتہ دار اور دوست ’’ڈی گریڈ‘‘ بھی کرسکتے ہیں۔ خوب صورت گھر یا گھر میں خوب صورت آرایشی سامان نہ ہونے پر اکثر آپ کو حقارت کی نظر سے بھی دیکھا جائے گا۔ مہنگا موبائل ہاتھ میں نہ ہونے پر دوستوں کا آپ کو غریب اور ’’لو سٹینڈرڈ‘‘ خیال کرنا بھی ممکن ہے۔ اب ایسے میں ایک "Minimalist” بن کر رہنا ہرگز آسان نہیں، لیکن ناممکن بھی نہیں۔
اپنی خوشی کو محض اشیا سے جوڑ کر رکھنا اپنی ہی ذات کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ وقت میں ہم نے اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیوں کو محض اشیا سے باندھ رکھا ہے۔ آج کل اچھے والدین وہی ہیں جو بچوں کو اچھے برینڈز لے کر دیتے ہیں…… وقت دیں نہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں میں والدین کو ایک چھوٹی سی تجویز دینا چاہوں گی کہ آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں، تو بچوں کے لیے تحایف یا کوئی بھی چیز لانے سے گریز کریں (اگر لائیں بھی، تو گھر میں انٹر ہوتے وقت کبھی نہ دیں)، گھر آکر ان سے بغل گیر ہوں اور اس بات کا احساس دلائیں کہ آپ کا وقت اور آپ کی محبت سے قیمتی کوئی چیز نہیں اس دنیا میں۔ بچوں کا "Dopamine” اشیا کو گفٹ کرنے کی بجائے ان کو وقت دے کر "Release” کرائیں۔ بے جا کی خرید و فروخت نہ صرف ہمارے ذہنوں کے لیے مضر ہے…… بلکہ ہمارے گھر یعنی "Planet Earth” کے لیے بھی شدید نقصان کا باعث ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔