شعور کی رو (Stream of Consciousness) ذہنی عمل کے بارے میں جدید نفسیات کا ایک تصور ہے…… جو علمی سطح پر امریکی ماہرِ نفسیات ولیم جیمز کی دریافت ہے۔
اس نظریے کے مطابق انسانی شعور ایک سیال چیز ہے۔ ذہن میں تاثرات، خیالات، اور تصورات ایک مسلسل رو کی شکل میں اُبھرتے رہتے ہیں۔ ان میں بظاہر منطقی ربط بھی نہیں ہوتا۔ ماضی کی یادیں، حال کے محسوسات اور مستقبل کی توقعات یا خدشات ایک بظاہر بے ہنگم اور غیر مربوط طریقے سے انسانی ذہن کے پردوں پر نمودار ہتے ہیں۔ شعور کسی ذرا سی مناسبت کا سہارا لے کر حال سے مستقبل یا ماضی میں، مستقبل سے حال یا ماضی میں اور ماضی سے حال یا مستقبل میں جانکلتا ہے۔ کوئی شے، مقام کا رُخ کرتا ہے اور کسی مقام کے ذکر سے کوئی شے، شخص یا مقام کا رُخ کرتا ہے اور کسی مقام کے ذکر سے کوئی شے، شخص یا واقعہ شعور میں آداخل ہوتا ہے…… اور اس طرح شعور کی رو رُکے بغیر اور کسی واضح منطقی ربط کی ضرور ت کا لحاظ کیے بغیر مدت العمر چلتی رہتی ہے۔
جدید نفسیات کے اس تصور سے نفسیاتی حقیقت نگاری کا یہ راستہ کھلا کہ ناول میں کرداروں کی زندگی، اعمال اور ان کی سوچوں کو شعور کی رو کے حوالے سے یاا س کی مطابقت میں پیش کیا جائے۔ چناں چہ جیمز جوائس، ڈورتھی رچرڈسن، ورجینا وولف اور ارنسٹ ہیمنگوے جیسے ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں شعور کی رو کی تکنیک سے فایدہ اُٹھایا ہے۔
اس حوالے سے محمد احسن فاروقی لکھتے ہیں: ’’شعور کی رو والی ناول کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ کسی فرد کے دماغ میں تاثرات کی بے ہنگم دھارچل رہی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے ذہن میں آنے والے تمام خیالات کو جوں کا توں رقم کرتا چلا جائے، تو ایسا گڑبڑ جھالا سامنے آئے گا جو کوئی سمجھ نہ سکے گا…… مگر شعور کی رو والے ناول نگار اسی گڑبڑ جھالے کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال جیمز جوائس کی پولیسس کا آخری باب ہے جس میں میرین بلوم کے خیالات کی رو اس طرح رقم ہوئی ہے کہ ایک جملہ بغیر کامے یا فل سٹاپ کے پینتالیس صفحوں تک چلتا ہے۔ اس سارے کھیل کا مقصد رو، دھار یا بے تکان حرکت کا تاثر قایم کرنا ہے۔‘‘
سیّد سبط حسن اپنے مضمون ’’بنی بھائی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وہ (سجاد ظہیر) اُردو کے غالباً پہلے ادیب ہیں جنھوں نے اپنے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ میں شعور کی موج در موج بہاو کو قلم بند کرنے کا تجربہ کیا۔‘‘
لیکن ممتاز شیریں نے لکھا ہے:
’’شعور کے بہاو اور ذہن کی عکاسی کے لیے کئی تکنیکیں استعمال کی گئی ہیں۔ اُردو میں عسکری نے حرا مجادی اور چائے کی پیالی لکھ کر اس تکنیک کی بنیاد ڈالی۔ یہ دونوں افسانے چیخوف کے سکول مسٹرلیس اور سٹیپ کی طرز پر لکھے گئے ہیں۔ ـاور’’شعور کی رو‘‘ عسکری صاحب سے وابستہ ہے اور انھوں نے اُردو میں اس کی کامیاب پیشکش کی۔‘‘
(بحوالہ: ’’کشاف تنقیدی اصطلاحات‘‘ از ابوالا عجاز حفیظ صدیقی، ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد)