خود کُشی حرام موت ہے جو کہ کسی بھی حالت میں جایز نہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں خودکشی کے واقعات میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ خودکشی کرنے والوں کی شرح گذشتہ 2 سال میں 3 سے بڑھ کر 8 فی صد تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان میں سالانہ 5 سے 7 ہزار لوگ اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرلیتے ہیں۔ زندگی انمول نعمت ہے، دکھ ، پریشانیاں، مسایل اور آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو انسان کے اپنے اعمال، افعال، اقوال کی وجہ سے پیش آتی ہیں…… جب کہ چند ایک خالقِ کاینات کی طرف سے آزمایش ہوتی ہیں۔ اﷲ تعالا اپنے بندوں کو آزمایش میں ڈال کر ان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے۔ جو لوگ آزمایش میں پورا اترتے ہیں، وہ اﷲ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہوجاتے ہیں، ان میں سے چند خودکشی کو راہِ نجات سمجھتے ہوئے اپنا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنا اور اپنے اہل و عیال و خاندان کا دنیاوی نقصان کرتے ہیں…… بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ کرلیتے ہیں۔
بہترین انسان وہ ہے جو کہ مشکل حالات کا جایزہ لے۔ اسباب کو تلاش کرے۔ ان کا مداوا کرے۔ مشکلات کو آسانیوں میں بدلے اور اللہ تعالا پر کامل توکل اور بھروسا کرتے ہوئے مایوسی کی بجائے صبر و رضا میں زندگی بسر کرے۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سورۃ الشرح میں تکرار کے ساتھ دو آیات ہیں کہ ’’بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ تو بس اللہ پر یقین رکھیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
ہر شخص زندگی کو بھرپور انداز میں جینا چاہتا ہے…… مگر زندگی میں کئی بار ایسے مقام آجاتے ہیں کہ انسان تمام تر مثبت سوچ کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف منفی خیالات کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔ کبھی کبھار حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی جینے کے برعکس موت کی تمنا کرنے لگتا ہے اور ایسے میں پھر بزدل انسان اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کرنے یعنی خود کُشی جیسے قبیح عمل سے بھی باز نہیں آتا۔
ہم وہ خوش نصیب ہیں جو مسلمان پیدا ہوئے۔ ہمیں وہ دین ملا جو کہ مکمل ضابطۂ حیات ہے…… مگر المیہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اب خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 25 فی صد افراد ڈپریشن، ذہنی دباو اور دماغی بیماریوں میں مبتلا ہیں…… جن میں زیادہ تعدادنوجوانوں کی ہے۔ ہمارے ہاں خود کُشی کی وجوہات میں معاشرے میں عدم برداشت، خانگی تنازعات، غربت، مہنگائی اور معاشی صورتِ حال، پڑھائی میں اچھے گریڈ نہ لانا، گھریلو جھگڑے، پسند کی شادی نہ ہونا اور آج کل سائبر کرائمز کے ذریعے لڑکے لڑکیوں کو تصاویر یا ویڈیوز کے لیے بلیک میل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے، آلات اور اشیا استعمال کی جاتی ہیں جن میں زہریلی زرعی ادویہ، رسی اور ڈوپٹوں کے پھندے، خواب آور گولیوں کے علاوہ آتشیں اسلحے کا استعمال ہو رہا ہے۔ اقدامِ خود کُشی میں زیادہ تر گندم میں رکھنے والی گولیاں اور امونیا پر مشتمل بالوں کو رنگنے والا ’’کالا پتھر‘‘ استعمال ہورہا ہے…… جب کہ پورے ملک میں ان دونوں اشیا کا غیر قانونی کاروبار اپنے عروج پر ہے اور متعلقہ ادارے اس حوالے سے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات نے خودکشی کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی کو قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تنہائی، چڑچڑا پن، شرمندگی، نشہ آور اشیا کا استعمال اور ایسی باتیں جو شرمندگی یا تکلیف کا باعث بنیں، انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ایسے میں اہلِ خانہ کی توجہ اور ماہرِ نفسیات سے رابطہ ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی میں مخلص دوستوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ چاہے وہ زیادہ نہیں، تو ایک دو ہی ہوں…… جن سے آپ دل کی ہر بات کَہ سکیں۔ کیوں کہ جب دل پر مسایل، مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، تبھی دماغ آپ کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کرتا ہے اور دماغ ایسے کیمیکل پیدا کرتا ہے جو آپ کو خودکشی کرنے پر اکساتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دل پر بوجھ نہ بننے دیجیے اور اس کا سب سے آسان نسخہ اللہ کو یاد کرنا، اس کا شکر کرنا اور اس پر بھروسا کرنا ہے۔
خود کُشی اسلام میں حرام قرار دی گئی ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمدؐ نے فرمایا: ’’جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کرلی، وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کرخود کُشی کرلی، وہ زہر اس کے ساتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا۔ جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خود کُشی کرلی، تو اس کا ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اورجہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔ (صحیح بخاری)
خود کُشی جیسے قبیح عمل کو روکنے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا کہ یہ عارضی زندگی ہمیں ایک بار ملی ہے اور اسی میں کیے گئے اعمال کا نتیجہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔ ہمیں زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ دوسروں میں مُثبت فکر پیدا کرنی ہوگی۔ امیدوں کے دیے جلانے ہوں گے۔ یہ کسی ایک کی ذمے داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے۔ ہمیں ان اسباب کا بھی سدباب کرنا ہوگا جن کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ دنیا کی سب سے قیمتی شے ان کی جان ہے اور ہمیں خود کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔ خود کو زندہ رکھنے کی چاہ میں ہی انسان جنگلوں سے نکل کر اس جدید دور تک آیا…… لیکن مایوسی اور عدم برداشت کی بدولت آج انسان اس زندہ رہنے کی چاہ سے محروم ہونے پر تلا ہے۔
خودکشی کو روکنے کے لیے لمبے چوڑے وعظ ،کانفرنسیں اور میٹنگ کرنے کی بجائے اگر زندہ رہنے کے جذبے کی آبیاری کی جائے، تو بلاشبہ خودکشی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ جو مشکل حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ لے، وہی حقیقی زندگی جیتا ہے۔ انسان کو اﷲ تعالا پر مکمل بھروسا رکھنا چاہیے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سب تکلیفوں اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی ذات صرف اﷲ تعالا کی ہے۔ مشکلات و مصایب میں صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور خود کُشی جیسے قبیح فعل کے بارے میں کبھی سوچنا بھی نہیں چاہیے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔