اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں شخص آپ کے خلاف برا کہہ رہا ہے، تو آپ کا پہلا ردِ عمل کیا ہوگا؟ آگے پڑھنے سے پہلے ایک سیکنڈ کے لیے رُک کر سوچیں……!
یقیناً مختلف لوگوں کا مختلف ردِ عمل ہوسکتا ہے، لیکن ہم میں سے زیادہ تر اس بات کو ’’پرسنلی‘‘ لے کر اُس انسان کو وضاحتیں دینے لگیں گے کہ دراصل مَیں تو ایسا انسان نہیں ہوں اور جس نے تنقید کی یا برا کہا ہے، اس کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیں گے۔ اور اس شخص کے جانے کے بعد ہم سوچتے رہیں گے کہ آخر اس دوست/ قریبی نے ہمارے متعلق ایسا کیوں کہا، اور اب رہی سہی کسر دماغ پوری کردے گا، اس بات کے گرد ایک زبردست قسم کی منفی کہانی تشکیل دے کر۔ معنی تلاش کرنا اور معاملات کے گرد تصوراتی کہانیاں گڑنا انسانی دماغ کی خاصیت ہے…… لیکن ایسے معاملات کو ’’پرسنلی‘‘ کیسے نہ لیا جائے اور آخر انسان ایسا کیوں کرتے ہیں……؟
اکثر و بیشتر دوسروں کے خلاف جھوٹ پھیلانا، بے جا تنقید کرنا (اگر بجا ہے، تو تنقید کرنا غلط نہیں)، یا دوسروں کا تمسخر اُڑانا، تکلیف پہنچانا جیسے رویوں سے ہم روز مرہ کی زندگی میں نمٹتے ہیں۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ اکثر لوگوں کی جانب دارانہ سوچ، عدمِ تحفظ اور مذموم مقاصد (Ulterior Motives) ہوتے ہیں جو لاشعور میں پلتے ہیں، جس کے لیے جرمن زبان میں بہت ہی موزوں لفظ "Hintergedanken” موجود ہے ۔
ہمیں اس قسم کے حالات سے کیسے نمٹنا چاہیے؟
٭ جب لوگوں کے الفاظ آپ کو جذباتی تکلیف دیں، تو سمجھ جائیے کہ آپ نے ان کی بات کو ’’پرسنلی‘‘ لیا ہے۔ آپ کو اپنی ذات، نفس پر حملہ ہوتامحسوس ہوتا ہے۔ اس پرسنلی لینے والی عادت کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں، جو آپ کو بچپن میں لے جاتی ہیں۔ کم زور ’’سلف اسٹیم‘‘ اور مختلف عدمِ تحفظ آپ پر تنقید کو اپنی ذات پر لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلا توڑ اپنا نقطۂ نظر بدلنے کی پریکٹس کرنا ہے…… یعنی جب بھی آپ کوئی تنقید اپنی ذات پر لینے لگیں، تو چند سیکنڈ کا وقفہ لے کر اسی معاملے کو دوسری نظر سے بھی دیکھیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے باس نے آپ پر تنقید کی، تو اگر آپ کا دماغ اسے ذاتی توہین سمجھنے کا عادی ہے، تو فوراً سے پیشتر اسے سمجھائیے کہ یہ تنقید آپ کی پرفارمنس پر ہوسکتی ہے…… نہ کہ باس کو آپ سے کوئی ذاتی بیر ہونے پر۔ تنقید کو کمپنی کے نقطۂ نظر سے دیکھیے۔ اپنی پرفارمنس کا جایزہ لیں اور اپنے دماغ کو بھی سمجھائیں۔ ہر بات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ آپ کا پالا مکمل انسانوں سے نہیں پڑنے والا…… اور کیا آپ خود مکمل ہیں؟
٭ حقیقت کو افسانہ (Fiction) سے الگ کرنے کی عادت ڈالیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ دماغ کہانیاں گڑنے کا ماہر ہے، یہ حقیقت کو فینٹسی سے آلودہ کرسکتا ہے۔ تبھی اگر آپ پر کوئی تنقید کرے یا ریمارک دے، تو آپ کو یوں لگنے لگتا ہے کہ جیسے خاندان والوں کے ساتھ پوری کاینات آپ کے خلاف سازش کرنے میں جت گئی ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ تنقید کرنے یا ریمارک پاس کرنے والے کے ذہن میں کیا چل رہا ہے…… اور نہ آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہی ہے، اور نہ آپ جان سکتے ہیں…… اس لیے آپ کو خود پر کی گئی تنقید کے گرد افسانے تشکیل دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے ’’مائنڈفلنس میڈی ٹیشن‘‘ بھی کارآمد ہوسکتی ہے۔ اس میڈی ٹیشن کے دوران میں آپ اپنی سوچ اور دماغ کے گڑے ہوئے افسانوں کا جایزہ لے سکتے ہیں۔
٭ سچ کو خرافات سے الگ کرنا سیکھیں۔ اس سے قبل پیراگراف میں دماغ اور تنقید کے گرد اس کی کہانیاں تشکیل دینے کی عادت کا ذکر ہے جس کا تعلق آپ کے سوچنے کے عمل سے ہے، جب کہ اس والے میں سچ کو خرافات سے الگ کرنے کا تذکرہ کر رہی ہوں…… یعنی آپ پر ہونے والی ہر تنقید یا ریمارک بے جا نہیں ہوتا۔ بے شک زیادہ تر لوگوں کی تنقید "Hintergedanken” یعنی ان کے عدمِ تحفظ، جانب دارانہ سوچ اور مذموم مقاصد کا نتیجہ ہوتی ہے، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہر تنقید ہی غلط ہو۔ کی گئی تنقید کو پرسنلی لینے سے پہلے چند سیکنڈ کا وقفہ لیں اور سوچیں یہ واقعی میں سچ ہے؟ اگر ہے، تو سیکھنے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اگر خرافات ہے، تو اپنی ذات پر لینے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ یہ سب پریکٹس کرنے میں وقت لگتا ہے۔ کوئی بھی ردِ عمل دینے یا جواب دینے سے پہلے چند سیکنڈ کا وقفہ اپنی عادت بنالیں۔
ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے اسٹائک فلاسفر’’ایپکٹیٹس‘‘ کا قول میرا پسندیدہ ہے۔ اس قول کو دن میں ایک بار ضرور پڑھیں۔ ایپکٹیٹس کہتے ہیں: ’’اگر کوئی آپ سے کہے کہ فُلاں شخص آپ کے بارے میں برا بول رہا ہے، تو اسے وضاحتیں دینے کی ہرگز ضرورت نہیں…… بلکہ اسے جواب میں کہیں کہ وہ شخص میری باقی کی خامیوں سے واقف نہیں، ورنہ ان کا ذکر بھی ضرور کرتا تم سے۔‘‘
تصور کریں کہ کوئی بہت سنسنی خیز انداز میں آپ سے آپ کے خلاف ہوئی تنقید پر بات کرنے آیا ہو اور آپ اسے ایپکٹیٹس والا جواب دے دیں۔ سوچیں کتنا وقت اور انرجی بچ سکتی ہے، یہ سب یقینا پریکٹس سے آتا ہے۔
امریکی ناول نگار ڈیوڈ فوسٹر کا ایک قول حقیقت کے بہت قریب ہے۔ فوسٹر کہتے ہیں، ’’آپ اس بات کی فکر کرنا چھوڑ دیں گے کہ لوگ آپ کے متعلق کیا کہتے اور سوچتے ہیں اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ لوگ شاذو نادر ہی ایسا کرتے ہیں۔ چوں کہ ہم خود بہت "Ego-centric” ہوتے ہیں، تبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ بس ہمارے متعلق ہی سوچتے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی باتوں کو پرسنلی لے لیتے ہیں…… جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے!‘‘
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔