5 جولائی کے اثرات

یہ 5 جولائی سن 1977ء کی تاریخ تھی، اس کے ایک رات قبل کچھ سین ملاحظہ فرمائیں۔
٭ سین نمبر 1:۔ حکومت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد میں جزوی معاہدہ ہوا کہ جس کا عندیہ ایک پریس کانفرنس میں نواب زادہ نصرﷲ نے دے دیا۔
٭ سین نمبر 2:۔ وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پریس کانفرنس کی اور قومی اتحاد پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا کہ وہ معاہدہ کے حوالے سے اپنے مطالبات میں روز بروز اضافہ کر رہے ہیں…… لیکن بہرحال معاہدہ تقریباً ہوچکا۔
٭ سین نمبر3:۔ فوجی قیادت نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کی اور چیف آف آرمی سٹاف نے پھر اس بات کا عندیہ دیا کہ فوج آئین کی پاس دار اور حکومتِ وقت کی وفادار ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔
٭ سین نمبر4:۔ امریکن سفارت خانہ میں ایک عشائیہ تقریب جس میں آرمی چیف خصوصی مدعو اور عشائیہ کے فوراً بعد چیف صاحب کی بہت جلدی میں جی ایچ کیو واپسی ہوتی ہے۔
سین نمبر 5:۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر فوجی گاڑیوں کی آمد۔ یہ سب نظر آیا اعلان ہوا مگر چند سین اسی رات ہوئے جو نظر نہ آئے، مثلاً:
٭ فوجی سربراہ کی ٹین کور کے کمانڈر جنرل فیض چشتی سمیت تمام کور کمانڈرز سے ملاقات اور آپریشن فیئر پلے کا حکم۔
٭ جنرل فیض چشتی کی وزیراعظم ہاؤس آمد اور پھر وزیر اعظم کی حفاظتی تحویل میں مری منتقلی ۔
٭ تمام پی این اے کے سربراہان کی حفاظتی تحویل اور سہالہ پولیس ریسٹ ہاؤس منتقلی۔
٭ تمام سرکاری دفاتر پر فوج کا قبضہ۔
٭ امریکی سفیر کا فوراً واشنگٹن فون، بس ایک جملہ کہ "Party is over.” یعنی جماعت ختم۔ اس کے بعد پھر پانچ سین نظر آنے والے عوام نے دیکھے سنے۔
سین نمبر 1:۔ صبح کے وقت ریڈیو پاکستان کی نیوز کاسٹر نے تقریباً تمام خبریں رات وزیراعظم کے بیان کے حوالے سے پڑھیں، مگر آخر میں اچانک یہ خبر سنائی دی کہ ’’ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔ مسٹر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی ہے۔‘‘
٭ سین نمبر 2:۔ امریکن سفیر اسی دن آرمی چیف کو جو اَب چیف مارشل ایڈمنسٹرٹر بن چکے تھے، سے ملاقات کی اور ملک میں جمہوریت کی جلد بحالی کی خواہش کا اظہار کیا۔
٭ سین نمبر 3:۔ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت نے مارشل لا کی بالکل مذمت نہ کی، بلکہ اس کا ذمے دار وزیراعظم کی ضد اور ہٹ دھرمی کوقرار دیا۔
٭ سین نمبر 4:۔ تمام سیاسی سرگرمیوں پر تا حکمِ ثانی پابندی لگا دی گئی۔
سین نمبر 5:۔ شام کو آرمی چیف صاحب حسبِ روایت ٹی وی پر آئے اور پسندیدہ جملہ ’’میرے عزیز وطنو!‘‘ سے بات شروع کی۔ فوج کی مجبوری کا رونا رویا اور 90 دن کے اندر اندر نئے انتخابات کا اعلان کر دیا، مگر وہ اعلان کبھی پورا نہ ہوا وہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوا۔
پھر اس ایکشن کے بعد چند نتایج کے حوالے سے بھی کچھ سین نظر آئے۔
٭ جمہوریت کا مکمل خاتمہ ہوا، جو اَب تک مکمل بحال نہ ہو سکی۔
٭ ملک مکمل طور پر انکل سام یعنی امریکہ بہادر کی غلامی میں گیا، جو ابھی تک وہی ہے۔
٭ ملک میں رجعت پسندی و شدت پسندی کا کلچر فروغ پاگیا جس سے دہشت گردی و مذہبی عدم رواداری میں بہت اضافہ ہوا، جو اَب تک قایم ہے۔
٭ اس وقت کے مقبول لیڈر کو غیر فطری موت مار دیا گیا، جس سے معاشرہ اب تک سماجی و سیاسی انارکی کا شکار ہے۔
٭ سیاست میں رشوت اور کرپشن دھڑا بندی لائی گئی جس نے ہمارا سیاسی کلچر تباہ و برباد کر دیا۔ پھر اس سے ہمارے اہم ترین ادارے مکمل تباہ بلکہ اخلاقی و پروفیشنل طور پر ختم ہوگئے۔ مثلاً:
٭ پارلیمنٹ بے وقعت اور سیاست بدنام ہوگئی۔
٭ عدلیہ مکمل غلام اور نظریۂ ضرورت کا شکار ہوگئی۔
٭ ریاست کا سب سے بڑا اور مرکزی آفس یعنی صدر ہاؤس سازشوں کا گڑھ بن گیا۔
٭ فوج کا طاقت ور ترین محکمہ بالکل لاغر ہوگیا اور مقصد سے ہٹ گیا۔
٭ ہمارا خارجہ امور سفارتی سطح پر تباہ ہوگیا اور ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز اسلام آباد کی بجائے واشنگٹن چلا گیا۔
قارئین! یہ ہے کل حاصل 5جولائی کے ایک مکروہ و ملک دشمن اقدام کا…… جو خالصتاً امریکہ کی خواہش اور ایک آمر کی ذاتی ہوسِ اقتدار کی وجہ سے کیا گیا۔ لوگ 5جولائی کے حوالے سے بے شک تاریخی طور پر ایک رائے رکھتے ہیں۔ اس دور کے باخبر صحافی اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ بھٹو کا ایٹمی پروگرام اس کا سبب بنا۔ جب کہ پیپلز پارٹی کے اس دور کے اہم ترین لوگ اس کو افغان کے حالات سے جوڑتے ہیں کہ بھٹو نے اس پر امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کچھ مذہبی عناصر اس کو قادیانی سازش قرار دیتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ وزن رکھتی ہیں اور کسی حد تک صحیح بھی ہیں۔ چوں کہ بھٹو اپنی ایک مخصوص سیاست کرتے تھے کہ جس کی وجہ سے سیاست دانوں کے علاوہ مولویوں اور صحافیوں، بڑے بڑے سیٹھوں کو وہ اپنا دشمن بنا چکے تھے۔ یہ تمام باتیں بے شک اپنی اپنی جگہ وزن دار ہیں…… لیکن زمینی حقایق یہ بھی ہیں کہ ملک کے اندر ان سے نفرت کرنے والے اتنے طاقت ور نہ تھے۔ پھر عوام کی ایک بڑی اکثریت ان کے ساتھ تھی…… جب کہ واشنگٹن سے تو ایک سپاہی بھی نہیں آیا تھا، کارروائی تو داخلی تھی۔ مطلب اس سازش کا مرکزی کردار میری نظر میں اس دور کے جرنیل تھے۔ ضیاء الحق امریکی ایجنٹ ہو یا نہ ہو…… لیکن اس کے حکم پر یہ سب ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ نہ ایٹمی پروگرام تھا نہ افغان کے حالات ۔ نہ مسئلہ قادنیت تھا، نہ بھٹو کے امیروں کے خلاف اقدامات…… بلکہ اس کی بنیادی وجہ حمود الرحمان کمیشن تھی۔ گو کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو نہ عوام کے سامنے لایا گیا اور نہ اس کمیشن کی مکمل سفارشات پر عمل درآمد ہی کیا گیا۔ کسی ایک جنرل بشمول یحییٰ خان اور نیازی کا نہ کورٹ مارشل ہوا نہ ان پر مقدمہ ہی بنا…… لیکن اس کے باجود جرنیلوں کو اس بات پر غصہ تھا کہ ان کے چند جرنیلوں کو فوج سے برخاست کیوں کیا گیا…… یا دوسرے لفظوں میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان پر ہلکا سا بھی الزام کیوں لگا؟ تب چوں کہ المیۂ مشرقی پاکستان کے بعد عوام میں شدید بے چینی تھی اور فوج مکمل طور پر عوام میں اپنی ساکھ کھوچکی تھی، سو اس وجہ سے وہ اس دور کے مقبول ترین راہنما کو ٹچ نہیں کرسکتے تھے…… لیکن جوں ہی مناسب موقع آیا…… انہوں نے بازی پلٹ دی اور نہ صرف حکومت پر قبضہ کرلیا…… بلکہ جو نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی نیکسن نے دی تھی، اس پر عمل بھی کیا۔ وگرنہ اگر بات محض 77ء کے انتشار تک ہوتی، تو یہ لوگ انتشار ختم کر کے انتخابات کروا دیتے…… اور اگر ان کو بھٹو کی سیاسی مقبولیت سے خطرہ تھا، تو جَلاوطن کر دیتے، پاپندی لگا دیتے…… اس طرح ایک فضول مقدمہ میں اس کو پھانسی تو نہ لگاتے۔ بہرحال یہ ماضی تھا، اب واپس نہیں آئے گا…… لیکن افسوس! ہم نے اس سے سیکھا نہیں اور سنہ 99ء میں پھر وہی کیا…… بلکہ اب تک کرتے جا رہیں…… اور ملک کو پیچھے کی جانب دھکا مار کر ترقیِ معکوس کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے