’’تجربہ کار‘‘ حکم ران اور بے یار و مددگار عوام

چند دن قبل بجٹ منظور ہوا جس میں پارلیمان سے یہ منظوری بھی لی گئی کہ پیٹرولیم لیوی کو ماہانہ پانچ روپے بڑھا جائے گا۔ کیوں کہ آئی ایم ایف سے جو قرض لینا ہے، ان کی شرایط میں یہ بھی ہے کہ پیٹرولیم لیوی (ٹیکس) بڑھایا جائے اور مجموعی طور پر یہ لیوی فی لیٹر پچاس روپے تک بڑھایا جائے گا۔
قارئین! بتاتا چلوں کہ لیوی وہ ٹیکس ہے جو حکومت فی لیٹر کے حساب سے کمانا چاہتی ہے۔ کسی زمانے میں یہ فی لیٹر پچاس روپے ہوا کرتا تھا۔ پھر عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اندورون ملک بلاول، مریم بی بی اور محترم فضل الرحمان صاحب نے ’’مہنگائی مکاو مارچ‘‘ کا آغاز کیا۔ نتیجتاً عمرانی حکومت نے اس لیوی کو پہلے کم اور پھر مکمل صفر کردیا۔ اب جب کہ ’’تجربہ کار‘‘ آئے ہیں، تو دو مہینوں سے بھی کم وقت میں فی لیٹر 100 روپے سے زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے۔
حیران کن طور پر اب مذکورہ بالا تینوں سیاسی لیڈران کو مہنگائی دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ اب تو خبروں کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کی گورنر شپ کے لیے بھی قبلہ مولانا صاحب کا چھوٹا بھائی بطورِ امیدوار سامنے آیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو یقینا اس ’’فرمائشی عہدے‘‘ سے مہنگائی مکمل ختم ہوجائے گی اور وہ حقیقی اسلامی نظام نافذ ہوجائے گا جس کے بارے میں محترم مولانا دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ وہ 25 لاکھ علما کے سیاسی امام جو ہیں۔ اب نجانے علما کی اس کثیر تعداد کو شخصی بادشاہت، خاندانی، سیاسی وراثت اور جمہوریت میں فرق کیوں معلوم نہیں؟
خیر ہمارا موضوع مگر ’’مہنگائی‘‘ ہے، تو ہم بات کررہے تھے تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی…… جب بجٹ میں ماہانہ پانچ روپے لیوی بڑھانے کی منظوری لی گی تھی۔ پھر بجٹ کے دو دون بعد ہی فی لیٹر چودہ روپے تک اضافہ کیوں کیا گیا……؟ لیکن خیر یہ حکومت سمجھ چکی ہے کہ وہ چیز جس کا نام شاید عوام ہے، وہ اس ملک میں موجود ہی نہیں۔ اگر واقعی ایسا کچھ ہوتا، تو ممکن ہی تھا کہ حکومت اس ڈھٹائی سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرتی اور عوام تماشا دیکھتے۔
یہ سوال بھی بجا ہی ہے کہ عوام کس کے کہنے پر نکلیں…… لیڈ کون کرے……؟ کیوں کہ اپوزیشن تو کوئی ہے نہیں۔ بھان متی کا کنبہ اکٹھا کرکے حکومت بنائی گئی ہے۔ رہے عمران خان، تو وہ اگر اسمبلی چھوڑ کر نہ جاتے، تو ممکن ہے حکومت کی اتنی بدمعاشی نہ ہوتی…… مگر اپنی انا کے اسیر…… نرگسیت کے شکار کپتان ابھی تک حکومت چِھن جانے کے روگ میں مبتلا ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں تقریر فرماتے ہیں اور وہی ایک راگ الاپتے ہیں۔ حالاں کہ اگر صرف مہنگائی کے معاملے پر ہی خان احتجاج کا اعلان فرما دیں، تو اس ملک کے پِسے ہوئے طبقات کا غالب حصہ اس احتجاج میں شامل ہوکر حکومت کا ناطقہ بند کر دے۔ مگر ممکن ہے کہ خان صاحب کی ترجیحات کچھ اور ہوں…… یا وہ یہ چاہتے ہوں کہ چلو مزید بھی مہنگائی ہو اور قوم ان کے دورِ حکومت کو یاد کرتے کرتے ان کو ’’نجات دہندہ‘‘ مان لیں۔
اس وقت ملک میں رایج برائے نام اپوزیشن میں ایک موثر آواز جماعت اسلامی کی ہے…… جو کسی زمانے میں ’’سٹریٹ پاؤر‘‘ رکھتی تھی…… اور بہترین پریشر گروپ کے طور پر کام آتی تھی۔ پھر اس پارٹی کے امیر سراج الحق بنائے گئے۔ موصوف نے اپنے مزاج کے مطابق جماعت اسلامی کو وہاں پہنچا دیا کہ اب اس پارٹی کے بیشتر کارکنان خود حیران ہیں کہ جماعت اسلامی سیاسی پارٹی ہے بھی کہ نہیں؟
اگرچہ جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف پنجاب کے کچھ شہروں میں ٹرین مارچ ضرور کیا، مگر آزاد تجزیے میں اس ٹرین مارچ کو وسایل کا ضیاع اور اپنے کارکنان کو تسلی دینے کے لیے ایک حربے کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ اگر حقیقی طور پر مہنگائی کے خلاف کچھ کرنا ہوتا یا اب بھی کچھ کرنا ہے، تو بہتر یہی ہے کہ شہرِ اقتدار میں کم از کم دس دنوں کا دھرنا دیا جائے۔ یہ ممکن نہیں، تو ملک بھر کی اہم شاہراہوں پر ہر روز صبح سے شام تک دھرنے دیے جائیں۔ پھر دیکھیں کہ کس طرح مہنگائی سے تنگ عوام جوق در جوق شرکت کرتے ہیں اور کس طرح حکومت کا دماغ ٹھکانے آتا ہے۔
المیہ یہی ہے کہ سیاسی لوگ اگر حکومت میں ہیں، تو مراعات میں اندھے ہوچکے ہیں اور جو اپوزیشن میں ہیں…… وہ مصلحتوں میں گرچکے ہیں۔ اب آخری راستہ یہی بچا ہے، جو عوام کو اپنانا پڑے گا کہ خود نکلیں اور اس وقت تک واپس نہ ہوں…… جب تک یہ ناکام ’’تجربہ کار‘‘ سرکار مزید ناکام تجربوں سے توبہ نہ کرلے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو یہ سب جانتے ہیں کہ حکومت ’’پی ڈی ایم‘‘ (یعنی پیٹرول ڈیزل مہنگا) کی ہے۔ باقی سب سمجھ دار ہیں، حکم ران تجربہ کار ہیں اور ہم عوام بے یار و مددگار……!
رہے نام اللہ کا!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے