جہاں تک مَیں جانتا ہوں پولیس کا رویہ کبھی عوام کے ساتھ اچھا نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں جرایم، نفرت اور تشدد کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمارے دیہاتی علاقوں کا جو حال ہے، وہ آپ کو لاہور کی پولیس سے اندازہ ہوجائے گا۔
گورنر، وزیرِ اعلا، چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس سمیت سیکڑوں اعلا افسران مع وزیرِ اعظم لاہور کے رہایشی ہیں…… مگر پولیس کا رویہ دیکھیں، یہ پاکستان کا تصور دینے والے علامہ محمد اقبال کے گھر پر دھاوا بول دیتی ہے۔ علامہ اقبال کی بہو اور سابق جسٹس ناصرہ اقبال سے بدتمیزی کرتی ہے۔ ان کا گیٹ توڑتی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ دراصل ہمارے ذہنوں کی عکاسی ہے کہ ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟
ہم نے قائد اعظم کے ساتھ کیا کیا…… اور تو اور ’’محسنِ پاکستان‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے جرم میں ان کے گھر ہی میں قید کردیا گیا۔ اس پر تفصیلی بات آیندہ چند روز میں کروں گا۔
اچھا تو مَیں بات کر رہا تھا پنجاب پولیس کے رویہ کی…… جو تمام آداب سے بے بہرہ ہے…… جو ایک حکم پر کسی کے گھر دروازے توڑ کر داخل ہوکر خواتین اور بچوں پر تشدد کرسکتی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں علامہ اقبال کے گھر جو پولیس نے کیا، وہ تو دشمن ملک کی پولیس بھی نہ کرتی۔ پنجاب پولیس کی اس غنڈہ گردی پر ہر محبِ وطن پاکستانی نہ صرف شرمندہ ہے…… بلکہ غمگین بھی ہے۔ یہ ہے پولیس کا رویہ……!
ہمارے مضافاتی علاقوں میں پولیس کا رویہ اس سے کئی گنا زیادہ خراب ہے۔ ایک بے گناہ کو جب ہماری پولیس گناہ گار بنا کر جیل پہنچاتی ہے، تو پھر وہ اس جرایم کی یونیورسٹی سے جب باہر نکلتے ہیں، تو وحشت کی علامت بن جاتے ہیں۔ پولیس ملازمین بھی ان کے ہاتھوں شہید ہوتے ہیں…… اور عوام بھی لٹتے رہتے ہیں۔
پولیس رویہ کے خلاف عوام میں نفرت ہے…… جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ بے حس اور اخلاقیات سے عاری پولیس والوں نے جب سامان سے لدے ہوئے کنٹینروں کو زبردستی سڑکیں بند کرنے کے لیے رکھنا شروع کیا، تو انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ان کے پیچھے ایمبولینس میں مریض آخری سانسیں لے رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بلک رہے ہیں اور بزرگ پریشانی کا شکار ہیں۔ راستے بند کرنے سے کیا عمران خان کا ’’آزادی مارچ‘‘ رُکنا تھا…… یا لوگ باز آنا تھے۔ اُن تمام رکاوٹوں، گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کے باوجود پورے ملک سے لوگ اسلام آباد کے لیے نکل آئے اور پولیس گلو بٹ کی طرح ڈنڈوں سے پی ٹی آئی کارکنوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑتی رہی۔ ان پُرتشدد رویوں سے اگر سب سے بڑا نقصان ہوا، تو وہ خود پولیس ہی کا ہوا…… جس کے خلاف پہلے ہی سے نفرت ہے لوگوں کے دلوں میں…… اور دوسرا نقصان ہوا ان غریب تاجروں کا جن کا سامان کنٹینروں میں بند تھا…… جسے پولیس والوں نے سڑکیں روکنے کے لیے رکھا تھا۔ ہزاروں کنٹینر ملک بھر کی شاہراہوں پر پڑے ہوئے دیکھنے کو ملے…… اور لوگ ہیں کہ انہیں ہٹا کر نکلتے رہے۔
مال روڈ لاہور کے صدر ناصر انصاری اور فاروق آزاد کے مطابق سڑکوں پر رکھے ہوئے کنٹینروں سے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کو اربوں روپے کا نقصان ہوگا۔ اگر سڑکیں بند کرنی تھیں، تو سامانِ تجارت سے بھرے ہوئے کنٹینروں کی بجائے خالی کنٹینر استعمال کیے جاتے۔ ذرایع کے مطابق لاہور اور اسلام آباد میں 15 سو سے زیادہ کنٹینر پکڑے جاچکے تھے…… جس کی مدد سے موٹر وے، ٹھوکر نیاز بیگ، نیازی چوک، شاہدرہ راوی پل، ریڈ زون، ڈی چوک سمیت لاہور اسلام آباد کے کئی داخلی راستوں کو سیل کر دیا گیا تھا، جس سے کاروباری برادری کو نقصان پہنچا…… جو ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کی وجہ سے پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے۔
پولیس کی طرف سے ضبط کیے گئے ڈھیر سارے کنٹینر ادویہ، کیمیکلز اور جلد خراب ہونے والی اشیا سے لدے ہوئے تھے جب کہ کچھ میں آتش گیر کیمیکل بھی تھا جو کسی بھی ناخوش گوار واقعے کا سبب بن سکتا تھا۔ اس طرح کی کارروائی سے تجارتی اور برآمدی سرگرمیوں میں رکاوٹ پڑی۔ کیوں کہ بہت سی اشیا کراچی کی بندرگاہ پر غیر ملکی صارفین کے ساتھ طے شدہ ایل سی کی تعمیل میں طے شدہ جہازوں پر لادی نہیں جا سکیں…… جس سے برآمدی آرڈ منسوخ ہوئے ہوں گے اور بھاری جرمانے بھی لگنے کا خدشہ ہے۔
قارئین! اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔