پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے جان و مال کی قربانیاں اس لیے دی تھیں کہ اس میں کسی کا استحصال نہ ہوگا، یہاں ہر شعبۂ زندگی میں میرٹ کو اولیت دی جائے گی، اور کسی کے ساتھ مذہب،رنگ ونسل اور کم تر سماجی حیثیت کی بنیاد پر زیادتی نہیں ہوگی۔
پاکستان بنتے ہی حکمرانی ایسے ہاتھوں میں چلی گئی کہ عوام کی ان آرزوؤں پر پانی پھیر دیا گیا اور پاکستانی عوام انگریزکی غلامی سے نجا ت پاکر اپنوں کی ناانصافیوں کا شکار ہوگئے۔ پھر عوام اس امید پر زندگی کے دن رات گزارنے لگے کہ کوئی حقیقی رہبر و رہنما آکر انہیں اس استحصالی نظام سے چھٹکارا دلا دے گا۔ پاکستان کے سیاسی اُفق پر شہید بھٹو ایک عوامی بیانیہ کے ساتھ نمودار ہوئے، جنہوں نے مایوس لوگوں کو پھر سے امید دلائی اور ان کی آرزوؤں کو مہمیز دی، لیکن عوامی راج سے خائف بالادست طبقے نے اس سے بہت جلد جان چھڑالی۔
اس کے بعد حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور حکمران عوامی دولت کو اپنے بنگلوں، کاروباروں، بینک بیلنسوں اور بیرونِ ملک اثاثوں کے لیے استعمال کرتے رہے، اور عوام حسرت بھری نگاہوں سے تماشا دیکھتے رہے۔
پاکستانی عوام کی خوبی یہ ہے کہ وہ سماجی اور معاشی نانصافیوں کی چکی میں پسنے کے باوجود ناامید نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ پاکستانیوں کی امیدوں کو جلا بخشنے سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔ اپریل 1996ء میں عمران خان نے تحریکِ انصاف بنا کر انصاف اور کرپشن کے خاتمے کے بیانیہ سے لوگوں کی دَم توڑتی امیدوں کو زندہ کیا۔ چوں کہ تمام پاکستانی انصاف اور کرپشن کو ملکِ خداداد کی بدحالی کا اصل سبب گردانتے ہیں، اس وجہ سے آہستہ آہستہ لوگ پی ٹی آئی کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت، سماجی ناانصافی، بیڈ گورننس، حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری نے لوگوں کو تحریک انصاف کی طرف راغب کیا۔ صدر زرداری صاحب کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی مضبوطی مسلم لیگ ن کو کمزور کردے گی، اور اس طرح پی پی پی کے لیے پنجاب میں میدان مارنے میں آسانی ہوگی لیکن ان کی سیاست اور ان کی حکومت پر بیڈ گورننس اور کرپشن کے الزامات نے تحریک انصاف کو ایک سیاسی قوت بنا دیا۔
2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ البتہ وہ پختونخوا کی صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے بعد عمران خان کی طرف سے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا۔ اس کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک میں پاکستان کی تاریخ کا طویل دھرنا بھی دیا گیا، لیکن عمران خان مسلم ن کی حکومت ختم نہیں کرسکے ۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے بیانیہ کواتنا طاقتور رکھا کہ پاکستان کے عوام نے روایتی سیاسی پارٹیوں کی بجائے تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور نتیجتاً اس نے 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مرکز اور دو صوبوں میں اپنی حکومت بنائی۔
پی ٹی آئی کی کامیابی پر بعض لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلیشمنٹ پر جانب داری کا الزام لگایا گیا۔ جس انداز سے حکومت سازی کے لیے منتخب نمائندوں کو اکھٹا کیا گیا، اس سے اپوزیشن کے الزامات کو تقویت مل گئی، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کے ہردلعزیز ایجنڈا کے لیے ہی زیادہ تر لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیاتھا۔
عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی احتساب کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور اس دن سے نیب کو متحرک کیا۔ اگرچہ سیاسی تجزیہ نگاروں اور سیاسی جماعتوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس کو ’’وچ ہنٹ‘‘ قرار دیا اور بادی النظر میں بھی احتساب کا عمل یک طرفہ نظر آرہا ہے لیکن پھر بھی عام آدمی یہ سوچ رہاہے کہ عمران خان اپنے ایجنڈا پر کچھ نہ کچھ عمل تو کر رہا ہے۔ نوازشریف کی بیرونِ ملک اجازت کے سلسلے میں عمران خان اپنے ووٹرزاور بیانیہ کی وجہ سے کھل کر فیصلہ کرنے سے قاصر تھے، اس لیے انہوں نے بال عدالت کے کورٹ میں پھینک دیا۔
عمران خان کی طرح ضلع ملاکنڈ میں پی ٹی آئی کی لیڈرشپ شکیل احمد خان اور جنید اکبر نے بھی انصاف اور کرپشن کے بیانیہ کا 2013ء، 2015ء کے بلدیاتی اور 2018ء کے عام انتخابات میں خوب استعمال کیا اور وہ تینوں بار ملاکنڈ کے عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ ملاکنڈ میں انصاف اور میرٹ کا راج ہوگا اور جس نے ملاکنڈ کے عوام کا مال لوٹا ہے ، اس کے ساتھ پائی پائی کا حساب کیاجائے گا۔ اپنے بیانیے کو مقبول بنانے کے لیے ملاکنڈ کی بڑی سیاسی قوت پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کیا گیا۔ پی ٹی آئی کی مقامی لیڈر شپ نے پی پی کے موجودہ صوبائی صدر ہمایون خان اور ان کے ساتھیوں پر ان کے دورِ حکومت میں کرپشن ، کمیشن اور بیرونی ملک اثاثے بنانے کا الزام لگایا۔ ان پرواٹر گرویٹی سکیم میں کمیشن لینے، مقبروں کے لیے زمینوں اور مساجد کے لیے کولرز میں خرد برد کرنے اور بینظیر انکم سپورٹ سکیم میں اقربا پروری کا الزام لگایا جاتا تھا، اور ساتھ ہی وہ یہ بلند بانگ دعوے بھی کرتے تھے کہ ان لوگوں کو بے نقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردیں گے۔ شکیل احمد خان (وزیرِ مال خیبر پختون خوا) مئی 2015ء کے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں اپنے آبائی گاؤں میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آج نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پی پی کے ایک سابق صوبائی وزیر لیاقت شباب کو نیب والوں نے گرفتار کیا ہے اور کل ملاکنڈ سے پی پی کے سابق صوبائی وزیر کا نمبر ہے لیکن ابھی تک وہ کل اور نمبر نہیں آیا۔
تحریک انصاف ملاکنڈ کی اپنے بیانیہ پر عمل نہ کرنے کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ٹھوس شواہد کے بغیر پی پی والوں پر جھوٹے الزامات لگا ئے گئے تھے، اور اب قانونی کارروائی شروع کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ شواہد موجود ہیں لیکن پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کسی سماجی مجبوری کی وجہ سے کارروائی کرنے سے کتراتی ہے۔ دونوں صورتوں میں پی ٹی آئی کے رہنما اپنے بیانیے اور ضلع ملاکنڈ کے عوام کے مجرم ہیں۔
دوسری طرف پی پی کے رہنما ہمایوں خان پی ٹی آئی کی اس مصالحتی پالیسی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ وہ حقیقی حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہ کرتے ہوئے ہلکی پھلکی مخالفت پر اکتفا کرتے ہیں۔ ضلع ملاکنڈ کے احتجاجوں میں شرکت سے گریز، پشاور میں کمبائنڈ اپوزیشن کے جلسہ میں وقت سے پہلے عام آدمی کی طرح تقریر اور اپنے انتخابی حلقے میں حکومت کے خلاف موجودہ ہڑتال میں مؤثر کردارادا نہ کر نے سے اس بات کوتقویت ملتی ہے۔
پی پی اور پی ٹی آئی ضلع ملاکنڈ کی دو مؤثر سیاسی قوتیں ہیں اور ان کی لیڈرشپ کے مقاصد اور مائنڈ سیٹ ایک ہے۔ مختلف پارٹیوں اور بیانیوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے، تاکہ عوام کو تقسیم کرکے کرسی تک پہنچا جائے۔ ملاکنڈ کے عوام ان دونوں کی جعلی کراس فائر کے درمیان پھنس چکے ہیں، اس لیے کوئی نئی راہ تلاش کرنا ہوگی۔
اب بھی وقت ہے کہ تحریک انصاف والے اپنے انصاف اور کرپشن کے بیانیہ پر توجہ دے۔ ایسا نہ ہو کہ اگلی دفعہ اس سے بھی زیادہ تگڑے بیانیہ اور پرجوشِ خطابت سے اپنے ٹائیگرز کو بھی گرما نہ سکے۔ واضح رہے کہ ملاکنڈ کے عوام نے آپ کو قانون سازی کے لیے منتخب کیا ہے اور قانونی مسائل کا یہ حال ہے کہ ملاکنڈ کا کوئی شہری ’’رایٹ ٹو انفارمیشن‘‘ کا قانون تک استعمال نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ابھی تک کوئی ایسی قانون سازی عمل میں نہیں لائی گئی ہے جس سے عام آدمی کو ریلیف مل سکے اور مہنگائی اور بے روزگاری میں عملاً کوئی کمی وقوع پذیر ہوسکے۔ اس لیے متعدد حوالوں سے پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی مجموعی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔