ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

ایک دانشور کا قول ہے کہ مغلوں نے برصغیر کو تین تحفے یعنی اُردو، غالبؔ اور تاج محل دیے، تو واقعی ان تینوں کی شہرت ابدی ہے۔ جب کہ مرزا غالبؔ کی فارسی اور اُردو شاعری تا قیامت زندہ رہے گی۔ وہی آسمانِ شاعری کا تابندہ ستارا اور استادِ کامل ’’مرزا اسدا للہ خان بتخلص غالبؔ‘‘ 1796ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور پندرہ فروری 1869ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اس فلسفی شاعر کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سو اڑتالیسواں سال جا رہا ہے لیکن جو شہرت اور نام وری اس فلسفی شاعر کو حاصل ہوئی کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکی۔ اگرچہ ان کا کلامِ فارسی کچھ کم پایہ کا نہیں لیکن اُردو شاعری میں بھی مرزا کا کلام نہایت ارفع و اعلیٰ ہے اور اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اپنی آفاقی شاعری پہ فخر کرتے ہوئے مرزا اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
مرزا، بہادر شاہ ظفرؔ کے عہد میں تھے اور 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت بقیدِ حیات تھے۔ مرزا ابراہیم ذوقؔ اور مومن خان مومنؔ ان کے ہم عصر تھے۔ ہرمز نامی پارسی جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے، مرزا نے فارسی زبان اس سے اچھی طرح سیکھ لی۔ مرزا نے نظم کے علاوہ نثر میں بھی جدت طرازی کی۔
مرزا نہایت خلیق اور سوشل انسان تھے۔ مذہبی تعصب نام کو نہ تھا۔ ہر مسلک اور جماعت کے لوگ ان کے دوست اور شاگرد تھے۔ شاگردوں کے کلام کی اصلاح بھی خطوط کے ذریعے کرتے تھے۔ حد درجہ متواضع اور با اخلاق انسان تھے۔ مرزا سخاوت اور صاف گوئی کے ساتھ ساتھ صاف باطنی کے لیے بھی مشہور تھے۔ چناں چہ اپنے خطوط میں اپنے محبوب کو بھی علی الاعلان ظاہر کرتے تھے۔

مرزا غالبؔ، بہادر شاہ ظفرؔ کے عہد میں تھے اور 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت بقیدِ حیات تھے۔ مرزا ابراہیم ذوقؔ اور مومن خان مومنؔ ان کے ہم عصر تھے۔

مرزا زمانے کے مصایب اور آلام کا مزہ چکھے ہوئے تھے۔ اس لیے ان کے کلام میں بھی ایک خاص سوز ہے لیکن سب سے زیادہ اور نمایاں جوہر مرزا کے کلام میں نہایت لطیف ظرافت اور شگفتہ مزاجی ہے اور وہ بڑی سے بڑی تکلیف کو بھی فلسفیانہ طریقہ پر اسی رنگ میں ظاہر کرتے ہیں، لکھتے ہیں۔
رنج سے خوگر ہوا انساں، تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں
شاعری میں غالبؔ کا پایہ بہت بلند ہے۔ وہ نہایت کثیر المعلومات انسان تھے۔ انھیں اپنی فارسی شاعری پر بڑا ناز تھا لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ ان کو قبولیتِ عام اور شہرتِ دوام ان کی اُردو شاعری سے ملی جن میں اُن کے خطوط اور رقعات بھی شامل ہیں۔ مرزا کے کلام میں جامعیت اور اختصاریت لاجواب ہے۔ ان کی غزلوں میں نئے نئے خیالوں کے ساتھ لطافتِ زبانی اور شائستگئی کلام عجیب مزہ دیتی ہے۔ ان میں سادگی، روانی، آسانی اور نازک خیالی نمایاں ہیں۔
غالبؔ ایک بڑے فلسفی شاعر ہیں، ان کے کلام میں ایسے موزوں حقایق ملتے ہیں جو ان سے پہلے کسی دوسرے شاعر کے کلام میں نہیں ملتے۔ زندگی اگر چہ مصایب و آلام اور بعض اوقات ناقابلِ برداشت سانحات سے بھری پڑی ہوتی ہے لیکن مرزا انھیں نہایت مؤثر اور فلسفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کا ایک شعر ہے۔
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
روا داری سے متعلق مرزا کا ایک شعر ہے
ہم مؤحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
عشق رسولؐ و حب اہل سنت سے متعلق ایک شعر یہ ہے
بہت سہے غم گیتی شراب کیا کم ہے
غلامِ ساقئی کوثرؐ ہو مجھ کو کیا غم ہے
کہا جاتا ہے کہ اگر مرزا غالبؔ نہ ہوتے، تو حالیؔ اور اقبال بھی نہ ہوتے۔ مرزا کی تمام عمر تنگ دستی و افلاس میں گزری لیکن ساری عمر اپنی وضع داری بر قرار رکھی۔ چوں کہ خاندانی تعلق شرفا سے تھا، لہٰذا عامیانہ باتوں سے سخت نفرت تھی۔

مرزا کی تمام عمر تنگ دستی و افلاس میں گزری لیکن ساری عمر اپنی وضع داری بر قرار رکھی۔ چوں کہ خاندانی تعلق شرفا سے تھا، لہٰذا عامیانہ باتوں سے سخت نفرت تھی۔

مرزا نے 15 فروری 1869ء کو 73 برس کی عمر میں انتقال کیا۔
زندگی اپنی جب اس طور سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظونہ میڈیا کا لکھاری اور نیچے دی گئی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔