سوشل میڈیا کا آغاز 1996ء میں ہوا۔ اس وقت دنیا کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی 85.4 فی صد یعنی 4.62 بلین افراد سوشل میڈیا استعمال کر تے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران میں 424 ملین نئے سوشل میڈیا صارفین کا اضافہ بھی حیران کن ہے۔ روزانہ سوشل میڈیا استعمال کا تناسب تقریباً 3 گھنٹوں سے زیادہ ہے۔ اگر کوئی صارف 16 سال کی عمر میں ’’لاگ اِن‘‘ ہو تا ہے اور وہ اوسطاً 70 سال زندہ رہتا ہے، تو سوشل میڈیا کے موجودہ تخمینہ استعمال کے مطابق وہ اپنی زندگی کے 6 سال سوشل میڈیا استعمال کر تے ہوئے گزارے گا۔
گذشتہ عشرے کے دوران میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2010ء میں ان کی تعداد 970 ملین تھی جو کہ 2021ء میں بڑھ کر 4.48 بلین ہوچکی ہے۔ اس تناسب کے حساب سے ایک فردتقریباً 6 سوشل میڈیا اکاونٹس استعمال کر تا ہے۔ علاقائی اعتبار سے 2019-20ء میں سوشل میڈیا کے استعمال کے لحاظ سے ایشیا 16.98 فی صد کے ساتھ پہلے نمبر پر، افریقہ 13.92 فی صد کے ساتھ دوسرے، جنوبی امریکہ8.00 فی صد، شمالی امریکہ 6.96 فی صد، یورپ4.32 فی صد، آسٹریلیا4.9 فی صد کے ساتھ سرِفہرست رہا۔
دنیا بھر کے 60.99 فی صد یعنی 7.87 بلین افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں سوشل میڈیا استعما ل کرنے والوں کی عمر کی حد 13 سال شمار کی گئی ہے اور متحرک استعمال کنندگان کی تعداد 63 فی صد ہے۔ دنیا بھر میں 93.33 فی صد انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں سے 85 فی صد موبایل ڈیٹا کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
4.48 بلین سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں سے 99 فی صد موبایل نیٹ ورک کی مدد سے ویب سایٹس اور ایپس تک رسائی کے لیے موبایل نیٹ ورک کا استعمال کر تے ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صرف 1.32 فی صد افراد ڈیسک ٹاپ کی مدد سے ویب سایٹس اور ایپس تک رسائی حاصل کر تے ہیں۔
فیس بک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں 2.9 بلین ماہانہ استعمال کنندگان کے ساتھ پہلے نمبر پر، یوٹیوب 2.3 بلین کے ساتھ دوسرے اور واٹس ایپ 2 بلین کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ فیس بک میسنجر کے صارفین کی تعداد 1.3 بلین ہے…… جب کہ ویب چیٹ 1.2 بلین ہے۔ 72.3 فی صد امریکی آبادی جو کہ 240 ملین افراد متحرک سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ میں 54 فی صد خواتین سوشل میڈیا استعمال کرتی ہیں…… جب کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے مردوں کی تعداد 46 فی صد ہے۔
دنیا بھر میں جاپان واحد ملک ہے جہاں سب سے کم3.8 فی صد افراد سوشل میڈیا استعمال کر تے ہیں۔ انڈیا دنیا بھر میں سب سے زیادہ 11.5 فی صد سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں محض 40 فی صد افراد سوشل میڈیا کو کام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ میں کام کے دوران میں سوشل میڈیا کا استعمال صرف 27 فی صد ہے…… جب کہ انڈونیشیا میں کام کے دوران سب سے زیادہ 65 فی صد سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسرائیل وہ واحد ملک ہے جہاں کام کے اوقاتِ کار کے دوران میں سب سے کم 13 فی صد سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ انڈیا 47 فی صد، کینیڈا 30 فی صد، امریکہ 27 فی صد، آسٹریلیا30 فی صد کے تناسب سے کام کے اوقاتِ کار میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
صنف کے تناسب سے54 فی صد جب کہ 46 فی صد خواتین سوشل میڈیا استعمال کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا کے 8 مختلف پلیٹ فارمز پر متحرک استعمال کنندگان میں مردوں کی تعداد خواتین کی نسبت زیادہ ہے۔ فیس بک اور انسٹاگرام پر زیادہ خواتین متحرک نظر آتی ہیں۔
2019-20ء کے دوران میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ اس عرصے کے دوران میں صرف انڈیا میں 130 ملین نئے سوشل میڈیا استعمال کنندگان کا اضافہ دیکھنے کو ملا جو کہ ان کی کل آبادی کا 9.6 فی صد بنتا ہے۔ چین 15 ملین کے ساتھ دوسرے، انڈونیشیا 12 ملین کے ساتھ تیسرے اور برازیل 11 ملین کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ ایران 9.4 ملین نئے سوشل میڈیاصارفین، امریکہ6.9 ملین نئے صارفین کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ 2019-20ء میں جہاں ایشیا میں سوشل میڈیا صارفین میں بے تحاشا اضافہ ہوا، وہاں یورپ میں اس میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملی۔ یورپ میں نئے صارفین کا تناسب 4.9 فی صد کم ہوا جب کہ ایشیا میں سوشل میڈیا صارفین کی شرح میں 16.98 فی صد اضافہ ہوا جب کہ افریقہ 13.92 فی صد اضافے کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
سوشل میڈیا کی درجِ بالا اہمیت و افادیت کو پسِ پشت ڈال کر حکومت نے پیکا ایکٹ منظور کر وا لیا جسے کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔ یہ ایکٹ دراصل سوشل میڈیا کو کنڑول کرنے کی آڑ میں اظہارِ رائے پر ایک کاری وار ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر ’’اَپ لوڈ‘‘ کیا جانے والا زیادہ تر مواد غیر صحافتی افراد کی طر ف سے کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد اس کی کل آبادی کے 15.15 افراد پر مشتمل ہے۔ سٹیٹ کاونٹر گلوبل سٹیٹس کے مطابق پاکستان میں 92.05 فی صد فیس بک جب کہ 3.64 ٹویٹر صارفین موجود ہیں۔ یہاں 76.38 ملین انٹرنیٹ صارفین اور 37 ملین سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں۔ سوشل میڈیا کے ان صارفین میں سے 36 ملین سے زیادہ فیس بک اور 1.26 ملین ٹویٹر استعمال کر تے ہیں۔ ان سوشل میڈیا صارفین میں سے 41 فی صد کی عمر 18 سے 24 سال ہے، جب کہ 25 سے 34 سال کی عمر کے افراد کا تناسب 36 فی صد ہے۔
سوشل میڈیا کی اہمیت و اِفادیت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے حکومت نے ’’پیکا ایکٹ‘‘ میں تبدیلی کر کے اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کا تہیہ کر لیا ہے۔حکومت کا یہ اقدام اپنی انتقام کی آگ کی تسکین کے سوائے کچھ نہیں اور چند بڑے لوگوں کی کرپشن کو چھپانے اور ان کی جانب سے عوامی حقوق کے استحصال کو تحفظ دینے کے لیے لایا جا رہا ہے۔
عام آدمی سایبر کرایمز کی چکی میں پستہ چلا جار ہا ہے۔ آئے روز منظم گروہ جنہیں اعلا حکام کی آشیر باد اور پشت پناہی حاصل ہے۔ غریب اور مظلوم عوام کوفراڈ کے ذریعے لوٹنے میں مصروف ہے۔ مہنگائی، بے روزگار اور افلاس کے اس دور میں غریب آدمی اپنی جمع پونجی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اداروں کے پاس شکایت لے کر جائیں، تو کوئی شنوائی نہیں ہوتی…… بلکہ جن اداروں کو غریب عوام اپنے ٹیکسوں سے پالتی ہے۔ وہ عوام کو ان مجرمین کے خلاف تحفظ دینے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ امیر کے لیے راتوں رات اور چھٹی کے باوجود عدالتیں کھول کر ضمانتیں بھی کروالی جاتی اور قوانین بھی توڑ مروڑ دیے جاتے…… جب کہ عام آدمی انصاف کے نام پر بھاری ٹیکس ادا کرنے کے باوجود انصاف کے لیے روزِ محشر کا منتظر ہے۔ ایف آئی اے اور دیگر ادارے سایبر کرایم کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ حکومت وقت عدالتوں میں زیرِ التوا کیسوں کو نمٹانے کی بجائے انصاف کو موم کی ناک کی طرح موڑ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ پرانے قوانین پر عمل درآمد کروانے کے بجائے آئے روز قوانین میں من پسند تبدیلیاں لا کر ایک خاص طبقے کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ یہ جمہوری مطلق العنانیت آخر کب تک چلے گی۔ ہم کب تک قوانین کی آڑ میں شہریوں کی اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگاتے رہیں گے۔
پیکا ایکٹ میں تبدیلی کے بعدعام شہریوں میں ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بڑی ٹیک کمپنیاں اورڈیجیٹل حقوق کے علم برداروں کو اس قانون پر شدید تحفظات ہیں۔ پاکستان کی نسلِ نو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک نظر آتی ہے اور اب سوشل میڈیا مظلوموں، بے سہارا، مفلس اور بے یار و مددگار افراد کا ترجمان بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف عوامی حقوق کی آواز بلند کر تا ہے بلکہ لوگوں میں آگاہی، شعور، تعلیم، سیاسی بلوغت کے ساتھ ساتھ ظلم کے خلاف ایک جان دار آواز بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں نوجوانوں میں باہمی ربط مزید مضبوط ہوا ہے۔ سوشل میڈیا نے عوام کی طاقت کو دوام بخشا ہے اور حکومت اب مظلوم عوا م سے یہ ترجمان بھی چھیننے کے درپے ہے۔ پیکا ایکٹ کے نفاذ سے جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی کو شدید دھچکا لگے گا۔
اب سوشل میڈیا تمام میڈیا کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ غریب آدمی ماضی میں بھی حکومتی قوانین کا نشانہ بن کر ظلم و ستم کی چکی میں پستا رہا ہے اور یوں محسوس ہو تا ہے اسے مستقبل میں بھی کوئی ریلیف نہیں ملنے ولا۔ ہم ایک گوڈو کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دوراہے پر کھڑے ہیں، نہ کبھی گوڈو آئے گا اور نہ ہم اپنے درست راستے کا تعین ہی کر پائیں گے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔