خواجہ نور محمد رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت تو کوئی عشقِ مصطفی کی لگن میں ڈوبی روح تھی۔ وہ مرجع خلایق اور درویش کامل ہستی تھے۔ وہ جن پر اللہ تعالا نے اپنا انعام کیا۔ ان کا شمار اللہ پاک کے برگزیدہ بندوں اور اولیاء اللہ میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے انتہائی باشرع اور پریکٹیکل لایف گزاری۔ اپنی دنیاوی زندگی میں شرعِ اسلام کی پاکیزہ چادر اُوڑھ کر اس کے سایے تلے زندگی بسر کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔ کوئی زیادہ عرصہ دور کی بات نہیں۔ 18ویں صدی عیسوی میں چشتیاں اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں نے ان کی ذاتِ اقدس میں دینِ اسلام کی سچی اور حقیقی روح کا عملی نمونہ دیکھا۔
ان کی ولادت با سعادت چشتیاں کے قریب بستی چوٹالہ میں ہوئی۔ والد کا نام بندال کھرل اور والدہ محترمہ کا نام عاقل خاتون تھا۔ والدین نے ان کا نام ’’بہیل‘‘ رکھا…… مگر ان کے پیر و مرشد خواجہ فخرالدین دہلوی نے انہیں نور محمد مہاروی کے لقب سے نوازا…… اور وہ اسی لقبی نام سے مشہور ہوگئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں مہار شریف سے حاصل کی…… جہاں پر وہ اور ان کا خاندان ان کی پیدایش کے کچھ عرصے بعد ہجرت کر کے آئے تھے۔ پھر وہ موضع دلہ بھڈیرا چلے گئے…… جو کہ چشتیاں شریف سے 15، 20 کلومیٹر کے فاصلے پر دریاے ستلج کے کنارے پر آباد ہے۔
یہ بات ہمیں سکندر فیاض نے بھی بتائی تھی…… جب میں اور بورے والا ٹریکرز کی ٹیم ان سے ملنے ان کے نعمت کدہ پر دلہ بھڈیرہ پہنچے تھے۔
اللہ پاک جنہیں اپنے کسی خاص مقصد کی تکمیل کے لیے چن لیتا ہے۔ ان کے دل کو منور کر دیتا ہے۔ علم و آگہی کی تڑپ ان کے اندر پیدا کر دیتا ہے ۔ مقصد اولیٰ کا گوہر نایاب ان کی مٹی میں گوندھ دیتا ہے۔ ان کے اندر ایک متلاشی روح کو داخل کر دیتا ہے…… جو بستی بستی، قریہ قریہ، شہر شہر گھوم پھر کر اس خاص مقصد، اس روشنی، اس نور، اس نروان، اس حق سچ، اس خاص ٹارگٹ کو پانے کی جستجو کرتا ہے۔ اپنی اس منزلِ مراد کے حصول کی جستجو میں وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی صحبت اختیار کرتا ہے۔ ان سے علم و آگہی کا عرفان پانے کے کوشش کرتا ہے…… یا آپ یوں کہہ لیں کہ اسے ان چنیدہ شخصیات کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ جہاں ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ انہیں ایک خاص اور ارفع معیار تک پہنچانے کے لیے ایک تربیت گاہ فراہم کی جاتی ہے ۔
جیسے سونے کو کندن بنانے کے لیے ایک خاص بھٹی میں ڈالا جاتا ہے۔ اسی طرح جب وہ شخص ایک خاص عمل سے گزر کر، سونے سے کندن بن جاتا ہے، تو اسے ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔
علم و آگہی کا عرفان حاصل کرنے کا سلسلہ ان کے اپنے گاؤں سے شروع ہوتا ہے اور پھر انہیں ڈیرہ غازی خاں، لاہور، پاکپتن اور پھر بالآخر دہلی تک لے جاتا ہے۔ جہاں پہنچ کر وہ ایک اللہ کے منتخب شدہ بندے، ایک پاک روح خواجہ فخرالدین دہلوی کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے مرید ہو جاتے ہیں۔ خواجہ فخرالدین خود دو بہت بڑی ہستیوں کے مرید تھے۔ ایک طرف خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، تو دوسری جانب بابا فرید الدین شکر گنج کے گنج ہائے گراں مایہ کے اسیر تھے۔ یوں انہوں نے علم و عرفان کے دو بڑے سمندروں کے فیض سے اپنی حصولِ آگہی کی تشنہ زمین کو سیراب کیا تھا۔ وہاں پہنچ کر ان کو ان کی منزلِ مراد مل گئی۔ اس فیض کے جاری چشمے سے انہیں بھی خیرات عطا ہوگئی۔
ان کی طلب کی تڑپ نے انہیں مقام عرفہ کے اس درجے تک پہنچا دیا…… جہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے بیچ حایل پردے خود بخود ہٹتے جاتے ہیں۔ اس کی سانسوں کی ڈوری ذکرِ خدا اور ذکرِ مصطفی کے وِردِ پاک سے بندھ جاتی ہے۔ جس کے چپے چپے پر اللہ اللہ اور محمد محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نام لکھا ہوتا ہے۔دن کا آغاز اللہ جل شانہ اور اس کے محبوبؐ کے ذکرِ مبارک سے شروع ہوتا ہے اور انہی کے ذکر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ان کا ہر قدم اللہ پاک اور اس کے عظیم پیغمبرؐ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اٹھتا ہے۔ ذکرِ خدا اور ذکرِ محبوب کی پُرنور ساعتیں، اسی ذکر میں مگن سانسوں کے رستے ان کے جسم میں داخل ہو کر سما جاتی ہیں۔
میری روح پئ رب رب کر دی اے
دل کر دا اے اللہ اللہ ہو
چند دن پہلے میں جب اپنے دوستوں، بورے والا ٹریکرز کے ساتھ ان کے دربارِ اقدس پر حاضری کے لیے چشتیاں گیا، تو وہاں دورانِ حاضری میرے دل میں کئی سوالوں نے جنم لیاکہ یہ اولیاء اللہ کون لوگ ہوتے ہیں؟ کوئی افغانستان سے چلتا ہے اور یہاں برصغیر میں داخل ہوتا ہے۔ کوئی ایران و فارس، کوئی مکہ و مدینہ کی پاک دھرتی سے اُٹھتے ہیں…… اور اس سر زمین میں قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ کوئی میدانی علاقوں سے اُٹھ کر دشوار گزار رستوں پہ چلتا کسی دور دراز وادی کو اپنا مسکن بنا کر بیٹھ جاتا ہے ۔ کوئی کئی سو میل کا فاصلہ طے کر کے کسی دور دراز کے بنجر و ویران علاقے کو منتخب کرتا ہے۔
کوئی سرسبز و شاداب فصلوں میں بسے اپنے گھر گرستی کو چھوڑ کر کسی جنگل کا رخ کرتا ہے اور وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
کوئی اپنا ہنستا بستا گھرانا، اپنے بیوی بچے چھوڑ کر کسی اَن دیکھے علاقے کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔ اور وہیں کہیں کسی ٹیلے پر، کسی دریا کے کنارے، کسی ریگ زار میں، کسی ویرانے میں، کسی بنجر و ویران گھاٹی میں اپنا مستقل پڑاؤ ڈال لیتا ہے۔
کوئی دنیا و مافیہا کے جھمیلوں سے دور جا کر کہیں مشکل جگہ پر جا کر رہایش اختیار کر لیتا ہے۔
کوئی چشتیاں میں بیٹھ جاتا ہے، تو کوئی دیوان صاحب میں۔
کوئی پاکپتن کے باہر ٹیلے کا انتخاب کرتا ہے، تو کوئی لاہور کے باہر ٹیلے کو منتخب کر کے وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
کوئی دانا ابراہیم میں تو کوئی ہمارے گاؤں کے باہر پرانے ٹیلے کا انتخاب کرتا ہے۔ جسے لوگ بابا علی قتال کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس طرح سے مختلف علاقوں سے آ کر مختلف لوگ یہاں آن بستے ہیں۔انہیں کون بھیجتا تھا؟ ان کے لیے جگہ کا انتخاب کون کرتا تھا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے بھیجنے کا مقصد کیا تھا؟
مقصد تو خیر واضع تھا جو کہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت تھا۔ رشد و ہدایت کے چراغ لیے یہ اللہ پاک کے برگزیدہ بندے برصغیر کے گوشے گوشے میں وارد ہوئے۔ پھر ان کے لیے منتخب شدہ جگہوں پر پہنچ کر انہوں نے پڑاو ڈالا۔ ان کا صرف ایک مذہب تھا جو کہ صرف اور صرف مذہبِ اسلام تھا۔ صرف ایک مقصد تھا جو کہ ترویج و اشاعت دین اسلام تھا۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی کے ٹرینڈ کر کے بھیجے ہوئے کوئی خاص لوگ تھے…… جو ایک خاص عرصے میں، خاص علاقوں میں، کسی خاص مقصد کے لیے بھیجے گئے تھے۔
جنہوں نے اپنی کشف و کرامات سے، اپنے لایف سٹایل سے، انسانیت سے محبت، دوسروں پر شفقت اور صلۂ رحمی سے، یہاں پر موجود مختلف مذاہب کے لوگوں سے حسنِ سلوک سے، اپنی درویشانہ صفات سے، اپنی پُرتاثیر زبان کے شہد میٹھے ذایقے سے ارد گرد میں بسے لوگوں کو اپنی طرف راغب کیا۔ انہیں صلح سلامتی، بھائی چارے کا درس دیا۔ اپنے حسنِ کردار و گفتار سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا…… اور لوگ جوق در جوق ان کی طرف کھنچے چلے آئے۔
وہیں پر جنگلوں، بیابانوں، ویران ٹیلوں پر، بنجر صحراؤں میں، دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان کے لیے لنگر اور کھانے کا اہتمام ہو جاتا۔
اس دور میں کہ جب کسی صاحب ثروت اور خوشحال گھرانے کے لیے سو پچاس بندوں کی مسلسل روزی روٹی اور رہایش کا بندوبست کرنا مشکل ہوتا تھا۔ سیکڑوں زایرین کے لیے روزی روٹی اور رہایش کا بند و بست ہو جاتا۔ کوئی وہاں پر بھوکوں کے لیے کھانا لے آتا، تو کوئی نہ کوئی صاحبِ ثروت ان کے لیے رہایش کا بند و بست کر دیتا۔ کوئی پانی کی سبیلیں لگا دیتا تو کوئی ان کے آرام و سکوں کی خاطر، اپنا آرام و سکون چھوڑ کر ان کا خادم بن کر ان کی سیوا میں جت جاتا۔
سوچنے کی بات ہے ویسے…… یارو……! کوئی ہستی تو اس سارے نظام کو مانیٹر کرتی تھی……!
کوئی تو اس پسارے کا جایزہ لیتا تھا۔ کوئی تو لوگوں کے دلوں میں نیکی کا تصور اجاگر کرتا تھا۔ کوئی تو سوئے ہوئے، صما بکما، خول میں بند دماغوں کے خول اتار کر، انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کر کے نعرۂ مستانہ لگانے پر مجبور کرتا تھا۔
کوئی تو تھا…… کسی سے تو ان کا رابطہ تھا…… کوئی تو ان کی ڈوریاں ہلاتا تھا…… کوئی تو انہیں اشاعتِ دین کی ترویج کے لیے تیار کر کے بھیجتا تھا…… کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔
آج کل کے لوگ تو حصولِ رزق اور دنیاوی کاموں کی خاطر لمبے لمبے پُرخطر اسفار کرتے ہیں…… مگر یہ کیسے لوگ تھے جو صرف اور صرف حصولِ علم، دینِ اسلام اور پھر ترویجِ اشاعتِ دینِ اسلام کی خاطر مشکل اور کٹھن رستے کا انتخاب کرتے ۔ ان دنوں زیادہ تر سفر پیدل، اونٹ یا گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر کیا جاتا تھا۔ جو یقینا بہت ایک بہت مشکل کام تھا…… اور ایسا صرف اللہ کے برگزیدہ اور چنیدہ لوگ ہی کر سکتے تھے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔