لالو پرساد یادیو برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم اور دلچسپ کردار ہے۔ بھارت…… خاص کر بہار کی سیاست شاید اب بھی لالو سے شروع ہو کر لالو پر ہی ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے سالوں بلا شرکتِ غیرے بہار پر حکومت کی…… اور جب قانون کی گرفت میں آئے، تو پھر اپنی اَن پڑھ اور بالکل گھریلو بیوی ’’رابڑی دیوی‘‘ کو اس اہم ترین صوبہ کی وزاتِ اعلا دلوا کر خود پیچھے بیٹھے حکومت کرتے رہے۔ اس کے بعد پھر خود وفاقی وزیر بھی بن گئے۔
اگر آپ لالو پرساد کو میڈیا حتی کہ عوامی اجتماع میں بھی دیکھیں، تو عام آدمی ایسا محسوس کرتا ہے کہ لالو پرساد ایک نہایت ہی بھولا بھالا، سطحی تعلیم یافتہ اور سادہ لوح شخص ہے…… لیکن لالو جی کے ایک حلقہ کے ایک شخص نے جب وہ جدہ میں تھا مجھے بتایا کہ لالو بہت ہی چالاک شخص ہے۔ عمومی طور پر سیاست دان بے شک کم فہم ہوں…… لیکن انہوں نے دانش وروں کی مکمل ٹیمیں بنائی ہوتی ہیں۔ جو ان کو نہایت ہی چالاک اور سمجھ دار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مثلا جیسے پاکستان میں نواز شریف یا شیخ رشید وغیرہ…… لیکن لالو پرساد ایسا چالاک سیاست دان ہے کہ وہ باقاعدہ جان بوجھ کر اپنا امیج بھولے بھالے انسان کی طرح پیش کرتا ہے۔ وہ قانون کا ڈبل گریجویٹ ہے۔ تاریخ اور فلسفہ کا ماہر ہے۔ سیاست کے ہر پہلو کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے…… لیکن اپنا عوامی تاثر ہمیشہ رکھتا ہے کہ لوگ سمجھیں کہ یہ بھولا بھالا معصوم سا شخص ہے…… جس کو چالاکیاں آتی ہی نہیں، بس خدمت کرنا چاہتا ہے۔
لالو کی مثال مَیں نے اس وجہ سے دی کہ ہمارے ملک کے بہت سے لوگ ہمارے محترم وزیراعظم کو بھی بہت سادہ لوح…… بلکہ کچھ مخالفین تو احمق بھی سمجھتے ہیں۔ خان صاحب خود اپنا امیج کسی چالاک کا بنانا بھی نہیں چاہتے۔ وگرنہ اگر بغور دیکھا جائے، تو خان صاحب ایک مکمل سیاست دان ہیں اور بہت ہوشیاری سے ’’پاؤر پولیٹکس‘‘ کرتے ہیں۔
آپ گذشتہ گیارہ سال کی ان کی سیاست کہ جب وہ مقبول ہوئے…… دیکھیں، تو معلوم ہوگا کہ کس طرح انہوں نے خود کو سادہ بنا کر عوام کو احمق بنایا۔
پہلے میرا بھی خیال تھا کہ شاید خان صاحب بس زبان چلانے کے ماہر ہیں…… لیکن اب معلوم ہوا کہ خان صاحب جب زبان چلا رہے ہوتے ہیں، تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کا توڑ کس خوب صورتی سے کریں گے۔
مثال کے طور پر خان صاحب نے فرمایا کہ ’’وزیرِاعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنا دوں گا۔‘‘ اب یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ وزیرِ اعظم ہاؤس محض گھر نہیں بلکہ ایک مکمل سیکرٹریٹ ہے۔ اس کو یونیورسٹی بنانا عملاً ممکن ہی نہیں۔ پھر جب خان صاحب وزیرِ اعظم بنے، تو انہوں نے چار سال مکمل آرام سے وزیرِ اعظم ہاؤس کو استعمال کیا۔ اب آخری سال سینٹ میں بِل پیش کر دیا کہ جہاں حزبِ اختلاف کی اکثریت ہے…… اور وہ بہرحال اصولاً اس نظریہ کے حق میں نہیں۔ یوں وزیرِاعظم نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ اول تو یہ بل مسترد ہو جائے گا اور خان صاحب کہہ دیں گے کہ مَیں کیا کروں…… یہ کام نہیں کرنے دیتے۔
اور اگر یہ بِل پاس ہوگیا، تو مسئلہ نئے وزیراعظم کے لیے کھڑا ہوگا۔ یہ تو عیش کر کے جا رہے ہیں۔
اور اگر بالفرض خان صاحب دوبارہ آگئے، تو ’’یو ٹرن‘‘ کے تو وہ ویسے بھی ماسٹر ہیں۔ حالاں کہ یہ بات قانون یا سیاست کا ادنا سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ وزیرِاعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کے لیے کسی خاص قانون کی ضرورت کیا ہے؟ یہ کام تو بس ایک انتظامی حکم سے کیا جا سکتا ہے۔ بس کابینہ کی طرف سے پریس ریلیز جاری کر دی جائے کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیرِ اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنایا جائے گا۔ پھر اس تماشے کی ضرورت کیا ہے؟
قارئین، دراصل یہ بہت ہی سوچی سمجھی اور بہت اہتمام سے کی گئی حرکت ہے کہ جس کا مقصد محض عوام کو احمق بنانا ہے۔
بہرحال اس طرح کی کئی اورمثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جو ثابت کرتی ہیں کہ جناب عمران خان احمق ہیں نہ غیر سیاسی…… بلکہ یہ پتا چلتا ہے کہ خان صاحب، پاکستان کے لالو پرساد ہیں…… بلکہ شاید لالو پرساد سے بھی بڑھ کر ہوشیار ہیں۔ انہوں نے سادہ لوحی اور شریف النفس ہونے کا بس ایک نقاب چڑھایا ہوا ہے۔ وگرنہ وہ بھی روایتی طور پر پاؤر پالیٹکس کے ایک ماہر کھلاڑی ہیں۔
اب آتے ہیں فاطمہ بھٹو کی طرف، پچھلے دنوں میری سوشل میڈیا کے ذریعے شہید بھٹو گروپ والی پیپلز پارٹی کے ایک دوست سے بات چیت ہوئی۔ میرا یہ دوست فاطمہ بھٹو بارے بہت جذباتی تھا اور یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ پیپلز پارٹی کی اصل وارث فاطمہ بھٹو ہی ہیں…… اور جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا راہنما سمجھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ فاطمہ بھٹو کو لیڈر مان کر ان کا ساتھ دیں۔ مَیں نے تب اس دوست کو جو کچھ کہا اس کا لبِ لباب ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
مَیں نے دوست کو کہا کہ عوام فاطمہ بھٹو کو قاید مانیں، بلاول بھٹو کو، مریم شریف کو…… یا عمران خان کو! یہ ان کا اختیار بھی ہے اور حق بھی۔ ہماری خواہشات پر تو عوام چلنے والے نہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ جہاں تک مَیں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے کہ فاطمہ بھٹو بہت حد تک اپنے دادا کی جانشین بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ بالکل اپنے دادا اور پھپھو کی طرح نہ صرف اعلا تعلیم یافتہ ہیں…… بلکہ ذہین اورحالات کو سمجھنے والی خاتون بھی ہے۔ اس کی شخصیت بالکل اپنے دادا کی طرح کرشماتی بھی ہے اور دلیری اور بے خوفی میں بھی وہ اپنے دادا کی طرح ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھنے والی ہے کہ آخر پھر وہ اس طرح سیاست میں جگہ کیوں نہیں بنا سکی؟ تو اس کی واحد وجہ جو مجھے نظر آئی، وہ یہ کہ فاطمہ بی بی بے شک اپنے دادا کی تمام فطری خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہے لیکن ایک خوبی اس میں بالکل نہیں اور وہ خوبی سیاست کی بنیادی ضرورت ہے۔ وہ خوبی ہے اَن تھک محنت اور بس محنت۔کیوں کہ سیاست میں کامیابی کا مکمل دار و مدار آپ کی عوامی مقبولیت پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے لیے عوام سے براہِ راست رابطہ اہم ترین جز ہوتا ہے۔
فاطمہ بی بی کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ سیاست میراث نہیں ہوتی۔ گو کہ اگر آپ کے کریڈٹ میں آپ کے بزرگوں کی کوئی محنت رہی ہے، تو وہ آپ کو شہرت تو دے سکتی ہے…… لیکن مقبولیت نہیں۔ مقبولیت کے لیے آپ کو نہ صرف جماعت کی تنظیم سازی کرنا ہوتی ہے…… بلکہ عوام سے براہِ رست رابطہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ یہاں ہم فاطمہ بی بی کو ان ہی کے بزرگوں کی مثال دینا چاہتے ہیں۔ جب ان کے دادا حضور نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت تشکیل دی تھی، تب وہ نہایت ہی معروف چہرہ تھے۔ اور بحیثیتِ وزیرِ خارجہ اپنا لوہا منوا چکے تھے…… لیکن جب اپنی سیاسی جماعت بنائی، تو شاید ہی پاکستان (خاص کر مغربی پاکستان) کا کوئی حصہ کوئی قصبہ ہو، جہاں بھٹو صاحب خود نہیں گئے…… بلکہ باربار نہیں گئے۔
پھر بھٹو صاحب کے بعد جب فاطمہ بھٹو کی پھپھو آئیں، تو تب گو کہ پیپلز پارٹی عوام میں بہت مقبول تھی…… لیکن اس کے باجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ایک کارکن سے رابطہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ 1988ء کی انتخابی مہم میں محترمہ نے اٹک سے سرگودہا تک کا سفر ٹرک پر کیا…… اور تقریباً 24 جگہ انہوں نے مختلف چھوٹے بڑے جلسوں سے خطاب کیا۔ کیوں کہ محترمہ بے نظیر کو اس بات کا ادراک تھا کہ سیاست، بھٹو صاحب کی قانونی جائیداد نہیں کہ جو باپ کے بعد خود بخود بیٹی کو مل جائے گی…… بلکہ سیاست کی ملکیت بلا شرکت غیرے عوام کی ہوتی ہے۔ عوام سے یہ ملکیت لینے کے لیے عوام سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ ان کے پاس جاکر ان کو اپنا منشور، اپنی قابلیت اور اپنا کردار بتانا ہوتا ہے۔ وگرنہ صرف بزرگوں کا نام کافی نہیں ہوتا۔
پاکستان کی تاریخ میں اس کی بڑی مثال علامہ محمد اقبال کی اولاد ہے۔ انتہائی تعلیم یافتہ ہونے کے باجود علامہ کے بیٹے سیاست میں ناکام ہوگئے۔ پھر نواسے کو مجبوراً پی پی اور پوتے کو تحریک انصاف کا پلیٹ فارم استعمال کرنا پڑا۔ سو ہمارے وہ دوست جو محترمہ فاطمہ بھٹو سے ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی ہونے کی حیثیت سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں، ان کو مشورہ ہے کہ محض ان کی خواہش یا جذباتیت سے تو فاطمہ بی بی وزیراعظم بننے سے رہی۔ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں اور فاطمہ بی بی کو سیاست میں فعال کرنا چاہتے ہیں، تو پھر ان کو چاہیے کہ وہ فاطمہ بھٹو کو لے کر عوام میں آئیں۔ گھر گھر اپنا پیغام پہنچائیں۔ ورنہ دوسری صورت میں محض بھٹو کی پوتی اور بے نظیر بھٹو کی بھتیجی ہونے کی وجہ سے میرا نہیں خیال کہ وہ رتو ڈیرو بلکہ گڑھی خدا بخش کی ناظم بھی بن سکیں۔ آج کے دن تک سیاست کا نظام اور طریقہ تو یہی ہے۔ ہاں! ہمارے شہید بھٹو گروپ کے دوست کوئی معجزہ دکھا دیں، تو اور بات ہے جو کہ بظاہر نا ممکن ہی لگتا ہے۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔