’’درِ یار پہ دستک‘‘ ہارون الرشید ہارونؔ کا شعری مجموعہ ہے۔ شاعر سوات کے گاؤں فتح پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا یہ خوب صورت شعری مجموعہ مجھے میرے دوست (شہید) تصدیق اقبا ل بابو نے عطا کیا۔ تصدیق اقبال بابو مجھے کہتے کہ ہم ضرور ہارون الرشید ہارونؔ سے ملنے ان کے گاؤں فتح پور جائیں گے۔ ویسے تو مجھے کئی بار مدین، بحرین اور کالام تک جانا پڑا…… لیکن ہارون الرشید ہارون ؔ کے ساتھ ان کے گاؤں میں ملاقات کا شرف ابھی تک حاصل نہیں ہوا…… اور تصدیق اقبال بابو بھی جاتے جاتے مجھے ہارونؔ سے ملنے فتح پور نہیں لے کر گئے۔
6 جنوری 2022ء کو ’’برسیِ شہید تصدیق اقبال بابو‘‘ کے موقع پر ہارون ؔ سے مختصر ملاقات ہوئی۔ یہ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی ۔ ان کا شعری مجموعہ تو مجھے بہت پہلے ملا تھا۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر مجھے احساس ہوا اور مجھے شکر ادا کرنا پڑاکہ سوات میں ایک اور احمد فواد ؔ کا نزول ہوا ہے۔
چوں کہ میرا ہارون ؔ کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا نہیں ہوا۔ اس لیے ان کی شخصیت کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اُس مختصر سی ملاقات میں انہیں دیکھ کر مجھے اتنا اندازہ تو ہوا کہ وہ یاروں کے یار ہیں۔ انسانیت ان کے چہرے سے ٹپکتی نظرآ رہی تھی۔
ہارونؔ بی اے تک تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور اُردو شاعری کے علاوہ پشتو زبان میں بھی شاعری کرتے ہیں، تاہم اب تک ان کا پشتو شعری مجموعہ منظرِ عام پر نہیں آیا ۔
ہر شاعر کی شاعری میں ان کی شخصیت جھلکتی ہوئی نظرآتی ہے۔ ہارونؔکی شاعری میں ان کی پر ہیز گاری، خدا ترسی، صالحیت، اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے اور صبر و شکر کے عنصر دکھائی دیتے ہیں۔
ذاتی طور پر سوات کے اندر ہارون ؔ جیسے شعراکی موجودگی پر میرا سر اس وقت فخر سے بلند ہو جا تا ہے جب میں پنجاب کے کسی مشاعرے یا کانفرنس میں سوات کے ایسے شعرا و ادبا کے نام اور ان کے ادبی کارناموں کو بڑے فخر سے بیان کرتا ہوں، تو اکثر لوگوں کو پٹھانوں میں بھی اُردو دان موجود ہونے پر حیرت ہونے لگتی ہے۔

شعری مجموعے ’’درِ یار پہ دستک‘‘ کا ٹایٹل پیج۔ (فوٹو: ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیل)

ہارون ؔ کا فلسفہ بھی مردِ قلندر کے ارد گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے اظہار کی بے کراں وسعتوں کا تلاطم تابِ گفتار کو آواز دیتا ہے۔ ہارونؔ کے کلام کے مطالعے سے یہ علم بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا…… بغیر کسی خوف کے لکھا…… جیسا کہ وہ کہتے ہیں:
کتنا ظالم صفت زمانہ ہے
ظلم کا سلسلہ پرانا ہے
چاہتیں جرم ہوگئیں ہارونؔ
کیسا قانون وحشیانہ ہے
ہارون،ؔ میر ؔکی طرح شاعرِ عشق ہیں۔ ان کے اشعار پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا آپ اور عشق ایک دوسرے کے لیے پیدا کیے گئے ہوں ۔
ہارونؔ نے اپنی مادری زبان پشتو پرقومی زبان اُردو کو فوقیت دے کر اُردو غزلیات کا مجموعہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ سچے پاکستانی ہیں۔ انہوں نے جا بجا معشوق کو اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ وہ محبت تو کرتے ہیں…… لیکن محبت میں اپنے محبوب کو بے پردہ نہیں کرتے، نہ اس سے کوئی گلہ ہی کرتے ہیں، بل کہ یہاں تک کہتے ہیں کہ
کیسے میں بھلا کہہ دوں کہ میں پیار نہیں کرتا
کرتا ہوں، مگر اس کا اظہار نہیں کرتا
کب جانتا ہے مجھ کو، کب مانتا ہے میری
جو میری محبت سے انکار نہیں کرتا
ہارون ؔ کا شعری مجموعہ’’درِ یار پہ دستک‘‘ منظرِ عام پر آنے پر سوات کے شاعروں اور ادیبوں کو شک پڑگیا کہ واقعی سوات میں رہنے والا ایک پختون ایسی شاعری کرسکتا ہے؟ لیکن یہ بات بلا کسی مبالغے اور مغالطے کے سچ ہے کہ ہارونؔ کو سوات کے اُردو ادب میں ممتاز مقام حاصل ہے۔
قارئین، ہارونؔ سے جتنا ہوسکا…… انہوں نے کیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے شعری مجموعے ’’درِ یار پہ دستک‘‘ پر تحقیقی کام ہو جائے کہ اس سے دو فواید حاصل ہوں گے۔
٭ ایک تو ہارونؔ میں ادب کی آبیاری کے لیے مزید جذبہ پیدا ہوگا۔
٭ دوسرا فایدہ یہ کہ سوات میں اُردو ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوجائے گا۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔