2 فروری، برٹرینڈ رسل کا یومِ انتقال

معلوماتِ عامہ کی انگریزی ویب سائٹ "britannica.com” کے مطابق برٹرینڈ رسل (Bertrand Arthur William Russell) معروف محقق، مورخ، سائنس دان، ماہرِ ریاضیات، ماہرِ طبیعیات، مدرس، فلسفی، مفکر اور افسانہ نگار 2 فروری 1970ء کو برطانیہ میں انتقال کرگئے۔
وکی پیڈیا کے مطابق 18 مئی 1876ء کو بمقام ’’ویلز‘‘ پیدا ہوئے۔ والد ’’سر جان رسل‘‘ انگلینڈ کے وزیر اعظم بھی رہے۔ تعلق طبقۂ اشرافیہ اور کٹر مذہبی گھرانے سے تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز ہی سے حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی۔ بچپن تنہائی اور استغراق میں گزرا۔ یہ استغراق کئی مرتبہ خودکشی کی جانب لے گیا…… لیکن اُس سے باز رہے ۔ والدین کی زندگی میں مذہبی اقدار کی کامل پاس داری کی۔ اُن کے مرتے ہی مذہب سے بے زاری اور لا ادریت کا اعلان کر دیا۔ بچپن ہی میں نہایت ذہین طالب علم تھے ۔ اپنے گھر پڑھانے آنے والے استاد کو ریاضی سمجھایا کرتے تھے۔ 1890ء میں جامعہ کیمبرج سے ریاضی کی اعلا سند حاصل کی۔ پھر اسی جامعہ میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلا تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر ہم راہ رہا۔ 1894ء میں 18 برس کی عمر میں کوئیکر ایلس سے شادی کی جو 1910ء میں علاحدگی پر منتج ہوئی۔ آخر 1921ء میں طلاق ہو گئی۔ بیوی سے علاحدگی کے بعد برسوں تک خواتین سے معاشقے چلتے رہے۔ 1921ء میں ہی ڈورا گریو سے دوسری شادی کی جس نے 1932ء میں طلاق لے لی۔ ڈورا کے نامور امریکی صحافی گرفن سے تعلقات تھے۔ 1936ء میں اپنے بچوں کی آیا ’’پیٹریشیا‘‘ سے تیسری شادی کی جو تادمِ مرگ برقرار رہی۔
برٹرینڈ رسل کے علمی اور فلسفیانہ کاموں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، جنس، قانون اور انسانی ہمدردی پر علمی اور تحقیقی کتب اور کتابچوں کی تعداد سیکڑوں میں پہنچتی ہے۔ ویت نام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکہ کو مطعون کیا۔ سامراجی طاقتوں کے خلاف جراتِ رندانہ سے قلم کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت کا علم بھی اٹھایا۔ انسان دوستی کے جرم میں پابند سلاسل بھی رہے۔ 1950ء میں ادب کے نوبل انعام سے نوازے گئے۔ یہ واحد اعزاز تھا جو انہوں نے قبول کیا۔ 1967ء میں آپ بیتی شایع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ 1970ء میں پیرانہ سالی کے باوجود عرب اسرائیل جنگ میں علی الاعلان اسرائیل کو غاصب قرار دیا۔ مغربی عوام میں انسانیت کا پرچار کیا۔ روس، چین، برطانیہ، امریکہ اور پورے یورپ کے نوجوانوں کے محبوب رہنما رہے۔ ایٹمی سائنس دانوں کو انسانیت کا قاتل قرار دیا۔ درازیِ عمر کے باوصف رسل نے دمِ آخر تک اپنا وقت کارِ قلم میں گزارا۔ ستم ظریفی ہے کہ رسل نے کہانی کم کم ہی لکھی…… پر جو بھی کہانی تخلیق کی، و ہ اپنے خالق کی عظمت کا پتا خوب دیتی ہے ۔ عمر کے آخری برسوں میں کہا: ’’مَیں نے اپنی زندگی کے 80 سال فلسفے کی نذر کیے۔ باقی ماندہ کہانی کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
افسانوں کے بس دو ہی مجموعے شایع ہوئے۔