آج چوتھی رات تھی اور "دلبر کاکا” کا روزہ تھا۔ ویسے اس پر روزہ فرض تو نہیں تھا، مگر گھر میں کچھ کھانے کے لئے نہیں تھا، اس لئے اس کا روزہ تھا۔ وہ بھی کیا اچھے دن تھے جب دلبر کاکا کے ہاتھ پیر بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ اپنی معذوری سے پہلے وہ شہر میں سخت محنت مزدوری کیا کرتا تھا۔
محنت مزدوری کی وجہ سے اس کے ہاتھ لوہے جیسے مضبوط تھے۔ لیکن جب وہ شہر کی ایک عمارت کی چوتھی منزل سے گر پڑا، تو اس کی زندگی کے تاریک دن شروع ہوگئے۔
اس وقت اس کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا، جب اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذوری اس کا مقدر بن گئی۔ ساتھ میں ’’نازو‘‘ کی موت نے اس کے درد اور تکلیف میں مزید اضافہ کر دیا۔
آٹھ سالہ تاج محمد جس کو گاؤں کے لوگ ’’تاجے‘‘ کے نام سے پکارتے تھے، وہ شہر کے ایک ہوٹل میں صبح آٹھ بجے سے لے کر رات کے دس بجے تک نوکری کیا کرتا تھا۔ کام کیا تھا، بس اپنا جی ہلکان کرنا تھا۔ پچھلی رات 80 روپے کے ساتھ گھر آیا اور اپنے معذور بابا کو مذکورہ رقم دی۔ لیکن وہ اپنے مغموم بابا سے نظریں نہیں ملا سکتا تھا، یا شائد وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ شبِ قدر کی بائیسویں رات کو ہوٹل کے مالک جس کو لوگ حاجی صاحب کہا کرتے تھے، نے تاجے کو کہا کہ روزہ آ رہا ہے اور ہوٹل بند رہے گا۔ یہ آپ کا اپنا ہی ہوٹل ہے۔ عیدکے چوتھے دن کام پر آ جانا۔ گھر میں تو کب سے روزہ تھا، اور وہ بھی ایسا کہ نہ اس میں سحری ہوتی تھی اور نہ افطاری ۔
تاجے روزہ میں بھی محنت مزدوری کی تلاش میں اِدھر اُدھر در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ آج روزہ کا چوتھا دن تھا اور تاجے کو کوئی مزدوری نہیں ملی تھی، رات کو جب تاجے گھر پہنچا اور دیکھا کہ دلبر کاکا کی حالت ٹھیک نہیں ہے، تو وہ جا کر اس کی چارپائی کے سرہانے بیٹھ گیا۔ دلبر کاکا کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن اس کی زبان اتنی سخت تھی جیسے کسی نے سختی سے پکڑی ہو…… اور تھوڑی دیر بعد صبح کی اذان سنائی دی، صبح کی پہلی اذان کے ساتھ دلبر کاکا کی زبان باہر نکل آئی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
(نوٹ:۔ ڈاکٹر ہمدرد یوسف زے کے پختو افسانوں کے مجموعہ ’’روژہ‘‘ کا اردو ترجمہ، مترجم)