اُردو کی اولین صاحبِ دیوان شاعرہ

مولوی نجم الغنی رام پوری ’’بحر الفصاحت‘‘ (’’حصہ اول‘‘، مرتب ’’سید قدرت نقوی‘‘، مطبوعہ ’’مجلسِ ترقیِ ادب لاہور‘‘، ’’اشاعتِ سوم 2018ء‘‘) کے صفحہ نمبر 98 پر رقم کرتے ہیں: ’’جس طرح مردوں میں ولی دکنی اردو زبان میں سب سے پہلے صاحبِ دیوان ہوا ہے۔ اس طرح تذکرۂ حکیم قاسم سے ثابت ہوا کہ عورتوں میں سب سے پہلے مہ لقا نام چندا تخلص۔ ایک حیدر آبادی عورت بازاری، شاگرد شیر محمد خاں متخلص بہ ایمان، نے اُردو زبان کا دیواں فراہم کیا۔ مزید براں یہ کہ ولی دکنی عالمگیر اول کے وقت میں موجود تھا، تو چندا رنڈی دکنی نے عالمگیر ثانی کے عہد میں یہ فخر پایا کہ عورات میں سب سے پہلے صاحبِ دیوان کہلائی۔‘‘
دوسری طرف آزاد دایرۃ المعارف میں ’’مہ لقا‘‘ کی جگہ شاعرہ کا نام ’’ماہ لقا‘‘ درج ہے۔ پورا نام ’’ماہ لقا بائی‘‘ تخلص ’’چنداؔ‘‘ جب کہ تاریخِ پیدائش 17 اپریل 1768ء اور تاریخِ وفات اگست 1824ء درج ملتا ہے۔
’’بحرالفصاحت‘‘ ہی میں صفحہ نمبر 98 پر مولوی نجم الغنی رام پوری مذکورہ شاعرہ کے نام اور تخلص کا قضیہ لے کر ایک اور حوالہ یوں درج کرتے ہیں: ’’اختر تابان سے ظاہر ہوا کہ چندا کا اس کا نام اور مہ لقا تخلص تھا۔‘‘
البتہ مولوی صاحب نے خود یہ گتھی مذکورہ کتاب (بحرالفصاحت) کے صفحہ نمبر 288 پر ان الفاظ میں سلجھائی ہے: ’’مہ لقا‘‘ کو صاحبِ ’’دکن میں اُردو‘‘ نے ’’ماہ لقا بائی‘‘ لکھا ہے اور اسے نام بتایا ہے۔ ’’چندا تخلص تھا۔ اس کے استاد شیر محمد خاں تھے جن کا تخلص ’’ایما‘‘ نہیں تھا بلکہ ’’ایمان‘‘ تھا۔ چندا کا دیوان مرتب ہوچکا ہے اور اس کی زندگی پر ایک کتاب ’’حیاتِ ماہ لقا‘‘ اور دوسری کتاب ’’مہ لقا‘‘ چھپ چکی ہے۔‘‘
چنداؔ کی زندگی پر شائع ہونے والی کتب یعنی ’’حیاتِ ماہ لقا‘‘ اور ’’مہ لقا‘‘ کا جائزہ لیں، تو وہی بات سامنے آتی ہے کہ پورا نام ’’ماہ لقا بائی چنداؔ‘‘ درج ہو کہ ’’مہ لقا بائی چنداؔ……؟
’’بحرالفصاحت‘‘ میں آگے مولوی نجم الغنی رام پوری صاحب ’’چنداؔ‘‘ کے بارے میں یہ بھی درج کرتے ہیں: ’’طبقات الشعرا سے دریافت ہوا کہ 1799ء میں اس شاعرہ نے اپنا دیوان کسی مجراگاہ میں ایک ذیشان انگریز کو نذر دیا تھا، جو سرکار کمپنی کے کتب خانہ موجودۂ شہر لندن میں رکھا گیا۔
اس کے کلام سے صرف یہی ایک شعر اکثر تذکروں میں دیکھا گیا:
اخلاق سے تو اپنے واقف جہاں ہے گا
پر آپ کو غلط کچھ اب تک گمان ہے گا‘‘
آزاد دایرۃ المعارف پر انگریز کو دیے جانے والے دیوان کا قصہ یوں درج ملتا ہے: ’’ایک قلمی نسخہ دیوانِ چندا کے نام سے موجود ہے جو 18 اکتوبر 1799ء کو جان میلکم کو ماہ لقا نے بطورِ تحفہ عنایت کیا تھا۔ اِس قلمی دیوان میں 125 غزلیں موجود تھیں جو 1798ء میں ماہ لقا نے اپنے ہاتھ سے لکھی تھیں۔‘‘
اُردو ادب کے حوالہ سے سرگرم اور مستند مانی جانے والی ویب سائٹ "rekhta.org” نے شاعرہ کا نام ’’ماہ لقا چنداؔ‘‘ درج کیا ہے مگر جیسے ہی ویب سائٹ کی ’’کتاب‘‘ نامی گوشہ میں داخل ہوتے ہیں، تو ’’اُردو کا کلاسیکی ادب‘‘ نامی زمرہ میں ’’سید قدرت نقوی‘‘ کی مرتب شدہ کتاب ’’دیوانِ مہ لقا بائی چندا‘‘ پر نظر پڑتی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ نام کا املا ’’مہ لقا‘‘ استعمال میں لائیں یا ’’ماہ لقا‘‘……؟
مذکورہ زمرہ میں 1324 ہجری (1906ء) کو شائع شدہ ایک اور کتاب کا نام ’’گلزار ماہ لقا‘‘ درج ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق مہ لقا بائی چنداؔ نے اپنی خالہ ’’مہتاب کنور‘‘ کے ہاں پرورش پائی۔
اب مہتاب کنور کی اپنی ایک الگ کہانی ہے۔ یہ کہ مہتاب کنور اپنے دور کی خوب صورت ترین رقاصاؤں میں سے ایک تھی۔ تاریخ کی کتب میں اُسے ’’رقاصہ و طوائف‘‘ لکھا گیا ہے۔ مہتاب کنور، نواب رکن الدولہ (وزیرِ اعظم حیدر آباد) دکن کے دربار میں روزانہ کے حساب سے حاضری دیتی تھی۔ مہتاب ہی کی بدولت چنداؔ نے بھی دربار تک رسائی حاصل کرلی۔
آزاد دایرۃ المعارف پر دستیاب معلومات کے مطابق: ’’ماہ لقا طویل عرصہ نواب رکن الدولہ کے زیر سایہ پرورش پاتی رہی۔ اِس دوران ماہ لقا نے شاعری میں اپنے ذوق کو بڑھانا شروع کیا۔ نوجوانی کے دور میں اُسے حیدرآباد، دکن کے تمام ادبی سرمائے شاہی کتب خانوں میں فراہم ہوتے رہے۔ 14 سال کی عمر میں گھڑ سواری اور تیر اندازی میں مہارت حاصل کرچکی تھی۔ اپنی اِنہی مہارتوں کے سبب وہ نظام حیدرآباد علی خان آصف جاہ ثانی کے ہمراہ تین جنگوں میں شریک رہی۔ جنگی لباس مردانہ طرز کا ہوتا اور ہتھیاروں سے لیس ہوکر میدانِ جنگ کے لیے نکلا کرتی تھی۔‘‘
چندا ؔماہِ اگست 1824ء میں انتقال کرگئی۔تدفین اُس کے اپنے تعمیر کردہ باغ میں کی گئی جہاں اُس کی والدہ راج کنور کا مدفن اور اُس کی بنوائی ہوئی مسجد موجود تھی۔
قارئینِ کرام! جاتے جاتے "rekhta.org” پر مہ لقا بائی چنداؔ کی مختلف غزلوں سے لیے گئے ’’منتخب اشعار‘‘ ملاحظہ ہوں:
گل کے ہونے کی توقع پہ جیے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے
گر مرے دل کو چرایا نہیں تو نے ظالم
کھول دے بند ہتھیلی کو دکھا ہاتھوں کو
بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب
تیر و تلوار سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے
کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔