گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوبی ایشیا بارے پالیسی بیان کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی نے غیر متوقع طور پر یکسر تبدیلی اختیار کرلی۔ پاکستان کے مظبوط جوابی مؤقف کی صورت میں ایک دن بعد ہی امریکی وزیر خارجہ کو اپنی پالیسی میں لچک دکھانا پڑی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے طے شدہ دورے کو مؤخر کرکے ہنگامی بنیادوں پر روس اور چین کا دورہ کیا جس میں مذکورہ دو ممالک نے پاکستانی مؤقف کی تائد کرتے ہوئے پوری دنیا پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے۔ اس بدلتی پالیسی کے پیچھے امریکہ کا بھارت کے قریب ہونا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا عالمی سطح پر بڑھتا ہوا کردار، تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی شرح نمو اور ’’سی پیک‘‘ امریکہ کی نظروں میں کھٹکنے لگے ہیں ۔
پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن روزِاول سے ہی بہت اہمیت کی حامل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کئی بار عالمی سطح پر بڑی تبدیلیوں کا مؤجب بنا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے برعکس اس بار پاکستان اپنے جائز حقوق سے کم بات کرنے پر تیار نہیں اور یہ مؤقف ایک سویلین حکومت ہی اپنا سکتی ہے جو ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کے بجائے پارلیمان میں عوامی نمائندوں کو جواب دِہ ہوتی ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے حالیہ امریکی دورے میں جو بہترین اور جامع طریقے سے اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھا ہے اس پر ان کے سیاسی مخالفین سمیت عالمی سفارت کاروں نے بھی انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اپنی کتاب ’’ورلڈ آرڈر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ دنیا کی جغرافیائی تقسیم وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے اور آنے والے دنوں میں دنیا کے ممالک انفرادی حیثیت میں بات کرنے کے بجائے ’’ریجنل بلاکس‘‘ میں تقسیم ہوکر اپنا مؤقف پیش کریں گے جس کے بعد فیصلہ کُن عوامل محدود ہو جائیں گے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے، تو عالمی سطح پر نئی صف بندیاں ہورہی ہیں اور کل کے حریف آج کے حلیف بن رہے ہیں۔ چین، روس اور پاکستان ایک طرف جبکہ امریکہ، اسرائیل، جاپان اور بھارت دوسری طرف ایک دوسرے کے ساتھ قربت بڑھا رہے ہیں۔
اس سارے عمل میں پاکستان کا کردار ’’سی پیک‘‘ اور گوادر کی بندرگاہ کی وجہ سے بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

سقراط کے بقول: ’’تبدیلی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنی توانائیاں پرانے جھگڑوں میں الجھنے کے بجائے نئی چیزوں کی تعمیر میں لگا دیں۔‘‘

گذشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بھی بھارتی بول بولتے ہوئے کھل کر OBOR اور خاص کر CPEC کی مخالفت کی ہے جس سے پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دنیا کے اس ارتقائی مرحلے پر پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام بہت ضروری ہے۔ پاکستان تب تک اس سارے عمل میں ایک با معنی کردار ادا کرسکے گا جب تک وہ اپنی موجودہ معاشی ترقی کے سفر کو اس طرح جاری رکھ سکے۔ حالیہ چند اندرونی سیاسی واقعات نے عالمی اداروں اور سرمایہ کاروں کی نظر میں پاکستان کی پوزیشن کو شدید زک پہنچائی ہے اور پاکستان سٹاک مارکیٹ 14 ارب ڈالر کی ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوچکی ہے۔ دنیائی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو اپنی شکایات ایک سائیڈ پے کرتے ہوئے بہت دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ پاکستان ہوگا تو ہماری پہچان ہوگی۔

سقراط کے بقول: ’’تبدیلی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنی توانائیاں پرانے جھگڑوں میں الجھنے کے بجائے نئی چیزوں کی تعمیر میں لگا دیں۔‘‘لیکن خدانخواستہ اگر ہماری اندرونی خلفشار اسی طرح سے جاری رہی، تو کہیں عالمی پہلوانوں کے اس دنگل میں ہم کچلے نہ جائیں۔