دو روزہ بین الاقوامی اقبال کانفرنس شعبۂ اقبالیات اسلامیہ یو نیورسٹی بہاولپور میں 17 اور 18 نومبر 2021ء کو منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا موضوع ’’عصرِ حاضر میں فکرِ اقبال کی ضرورت و افادیت‘‘ تھا۔ اس کانفرنس کے سرپرست انجینئرپروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب (تمغۂ امتیاز) وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، نگران پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو (ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویجز) منتظم ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام (صدر شعبۂ اقبالیات) اور رابطہ کار ڈاکٹر محمد رمضان طاہر تھے۔
کانفرنس کا آغاز17 نومبر کودن 11 بجے مرکزی اڈیٹوریم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا۔ یونیورسٹی کی طالبہ عائشہ منیر نے نعتِ رسولِ مقبولؐ کے ذریعے شرکا سے داد وصول کی۔ اس کے بعد شرکا نے کھڑے ہو کر پاکستان کے قومی ترانے کو عزت بخشی۔ ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو نے ابتدائی کلمات میں آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے اپنے بیان میں کہا کہ اقبال کے فن اور ان کی شاعری کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ اقبال فکر و فن کے اعلا مقام پر فائزہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال، علالت کی وجہ سے اس کانفرنس میں شریک نہ ہوسکیں۔ اس لیے انہوں نے آن لائن شرکت میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپوراور خاص کر شعبۂ اقبالیات کا شکریہ ادا کیااور انہیں کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس جو کراچی سے تشریف لائی تھیں، نے کانفرنس کے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور مزید کہا کہ کراچی میں انہوں نے ہی سب سے پہلے اقبالیات مضمون کو ایم اے کی سطح پر متعارف کرایا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے صدارتی کلمات میں آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے اقبال کے فلسفۂ عشق کے حوالے سے تفصیلاً کہا۔ اقبال پر ان کی گرفت دیکھ کر سامعین کو ایسا لگا جیسے کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق شعبۂ اقبالیات کے ساتھ ہو۔
افتتاحی تقریب ختم ہوئی اور ہال کے باہر سبزہ زار میں پُرتکلف چائے جسے ہم ’’ہائی ٹی‘‘ کہہ سکتے ہیں، کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چائے کے وقفے کے بعد متوازی نشستیں شروع ہوئیں۔ یہ شام ساڑھے چار بجے تک جاری رہیں۔ بین الاقوامی مقالہ نگاران کرونا پابندیوں کی وجہ سے کانفرنس میں شریک نہ ہوسکے۔ اس لیے ان کے مقالوں سے آن لائن مستفید ہو نا پڑا۔ ان مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر احمد احسن امریکہ سے، ڈاکٹر محمد کاشف اِلہ آباد یونیورسٹی انڈیا سے، ڈاکٹر علی کاوسی نژاد یونیورسٹی آف تہران ایران سے، ڈاکٹر وفا یزدان منش یونیورسٹی آف تہران ایران سے، ڈاکٹر علی بیات یونیورسٹی آف تہران ایران سے، پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار استنبول یونیورسٹی ترکی سے اور ڈاکٹر اعجاز احمد لون نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے آن لائن مقالے پڑھے۔
کانفرنس کے دوران میں مقالہ پڑھتے ہوئے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے کہا کہ اقبال محض مسلمانوں یا کسی خاص طبقہ کے شاعر نہیں…… بلکہ ان کی تعلیمات پوری دنیا کے لوگوں کے لیے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمان نے اقبال اور نوجوانانِ عصرِ حاضر کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے اقبال ؒ کے آج کے دَور کے لیے جو پیشین گوئیاں کی تھیں، کے بارے میں تفصیلاً بتایا۔
پروفیسر ڈاکٹر قاضی عابد نے اقبال ؒ کے خطوط کے آئینے میں عہدِ حاضر کے جاگیر دارانہ نظام کے حوالے سے کہا۔
ڈاکٹر سائرہ ارشاد جن کا تعلق گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور کے ساتھ ہے، نے ’’بچوں کاادب اور اقبالؒ‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے اقبال کی نظم ’’پہاڑ اور گِلہری‘‘ کے حوالے سے اقبال کو موجودہ دَور کا شاعر کہا۔ نیز انہوں نے بتا یا کہ بچوں کے حوالے سے اقبال کے کیے ہوئے کام کا آز سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار جن کا تعلق استنبول یونیورسٹی ترکی سے ہے، نے آن لائن مقالہ پڑھا جس میں انہوں نے کہا کہ شاعرِ مشرق، مفکرِ اسلام، فلسفی، مختصراً ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہوتے ہوئے اقبالؒنے اپنے ماحول اور ملک کی حدود کو پار کرکے دوسرے ممالک کے اندر ذہنوں میں گھر بنا لیا ہے۔
ڈاکٹر علی بیات جو ایران سے آن لائن تھے، نے اپنے مقالے میں کہا کہ اقبال کے افکار کے مخفی گوشوں تک اگر رسائی حاصل کی جائے، تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے بڑے غور و فکر کے ساتھ ایرانی فکر و فلسفہ کا مطالعہ کیا اور اس کے محاسن اور بعض معایب کی نشان دہی کی ہے۔ انہوں نے ایرانی تہذیب و ثقافت اور فکر و فلسفے کے بیان کے لیے فارسی زبان کو مناسب سمجھا اور یوں اپنے کلام کا زیادہ حصہ اسی زبان میں پیش کیا۔

راقم دو روزہ بین الاقوامی اقبال کانفرنس (بہاولپور) میں اپنا مقالہ پیش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی ایسوسی ایٹ پروفیسرشعبۂ اُردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، جو کسی بھی وقت کسی بھی موضوع پر فی البدیہہ بولنے میں ثانی نہیں رکھتے، نے اپنے بیان میں اقبالؒ کے افکار کی ہمہ گیریت کے حوالے سے کہا کہ اقبالؒ نے خودی کے ذریعے حب الوطنی کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے اذہان کو قرآنِ پاک سے روشناس کرانے کی اپنی پوری کوشش کی۔ راقم الحروف کے مقالے کا عنوان ’’کلامِ اقبالؒ (فارسی )میں مسلمانوں کی ثقافت و اقدار کی بقا اور عصرِ حاضر‘‘ میں راقم نے اقبال ؒ کے وہ فارسی کے اشعار پیش کیے…… جن میں عہدِ حاضر کے حوالے سے نشانیاں پیش کی گئی تھیں۔
اس کانفرنس میں تقریباً 70 مقالے پیش کیے گئے۔ کانفرنس کے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر رفیق الاسلام نے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ تقسیمِ اسناد و الواح کے فرائض ڈاکٹر فرزانہ ریاض نے ادا کیے۔ کانفرنس کے دوران میں قیام و طعام کے بہترین نظام کے لیے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور خصوصاً شعبۂ اقبالیات سراہنے کے قابل ہے۔ مجالسِ استقبال، نظم و نسق اور قیام و طعام جو یونیورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی طلبہ و طالبات کے ذمہ تھا…… اس حوالے سے انہوں نے احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام دیے۔
راقم کو ان کے نہایت ہی عزیز ڈاکٹر سائرہ ارشاد اور ان کے شوہرکے توسط سے نور محل، سنٹرل لائبریری، بہاولپور کے تعلیمی اداروں اور دیگر تاریخی مقامات تک رسائی ممکن ہوئی، جس کے لیے وہ خصوصی شکریے کے مستحق ہیں ۔
کانفرنس سے واپسی پر راقم اپنے دوست اللہ یار ثاقب (پی ایچ ڈی سکالر گیریژن یونیورسٹی لاہور)کے ساتھ ایک دن ساہیوال میں رہا۔ راقم کے بہت ہی قریبی دوست ڈاکٹر مشتاق عادل صاحب صدر شعبۂ اُردو یونیورسٹی آف سیالکوٹ راقم سے اس بات پر ناراض بھی ہوئے کہ راقم نے ان کو ساہیوال آنے کی اطلاع تک نہیں دی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ راقم نے انہیں تسلی دیتے ہوئے جنوری میں ساہیوال آکر ان کے ساتھ کئی دن گزارنے کاوعدہ کیا۔
راقم کوبالآخر فیصل آباد کی دیہات کالطف اٹھانے کے بعد اتوار کی رات ٹھیک 12 بجے سوات پہنچنا پڑا۔
کیوں کہ پیر کی صبح ڈیوٹی کے لیے جو جانا تھا۔
……………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔