1 دسمبر 2018ء کو محض 60 سال کی عمر میں دارِفانی سے رخصت ہونے والی فانوس گجر جیسی دبنگ، ملن سار اور عوامی شخصیت کے ساتھ (مرحوم) کا لفظ لکھنے کو قلم میں تاب نہیں…… تاہم موت برحق اور اٹل حقیقت ہے۔ تین برس ہوتے ہیں اُن کی رحلت کو…… لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ایسے لوگوں کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
شہرِخوباں کا یہی دستور ہے
مڑ کے دیکھا اور پتھر ہوگئے
ہماری باقاعدہ ربط و ضبط عمر کے آخری حصے میں پراوان چڑھا جو بہت کم عرصہ پر محیط رہا۔ واجبی جان پہچان تو خیر ایک عرصہ سے تھی اُن سے۔ کیوں کہ وہ ایک عوامی رہنما تھے۔ جگہ جگہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ وہ عام لوگوں کی طرح گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے ملتے تھے۔ اُن ہی عام لوگوں کے ساتھ باقاعدہ میل جول اور تعلق رکھتے تھے۔ اُن کی خوشی غمی میں شرکت کرتے تھے۔
علاقہ کے وسائل کو اجتماعی بہتری کے کام میں لانے کے لیے منفرد اور بے مثل منصوبے اُن کے ذہن میں تھے۔ قیمتی معدنیات کے کثیر ذخیروں سے ممکنہ پیداواراور علاقہ کے معاشی اثرات سے متعلق اُن کی سٹڈی بہت جامع، گہری اور وسیع تھی…… جس پر کبھی اُن کو بات کرنے کا موقع ملتا، تو پھربولتے ہی چلے جاتے۔ اللہ تعالا نے اُن کو زبردست ذہانت اورکمال کاحافظہ عطا کیا تھا۔ دوستوں اور سیاسی ورکروں سے اس بات پر نالاں رہتے کہ فلسفے تو وہ دِن رات جھاڑتے ہیں لیکن خلقِ خداکے ساتھ ربط رکھنے سے ہچکچاتے ہیں۔
زمانۂ طالب علمی سے عملی سیاست میں رہے۔ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن رہے۔ خدائی خدمت گار تحریک سے متاثر رہے۔ خان عبدالولی خان کے ساتھ نزدیکی تعلق رہا۔ 1988ء میں ’’عوامی ورکرز پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی اور تادمِ مرگ اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ اسی پلیٹ فارم سے عوامی مسائل کے حل کے لیے ہر سطح پرآواز اٹھانا اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ یہی درد، اپنے بے چین دل میں لیے وہ اس فانی دنیا میں آئے اور اِسی کو دل میں لیے ابدی دنیا کی طرف کوچ کرگئے۔ اُن کے دماغ کی کھڑکیاں معاشرہ کے پسے ہوئے طبقات کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کھلی رہتیں۔یہی ان کا کُل وقتی روزگار تھا۔ دنیا کی کسی اور سرگرمی یا روزگار کے ساتھ انہوں نے کوئی تعلق ہی نہ رکھا۔ ذریعۂ آمدن کوئی نہ تھا۔ سِوائے وراثت میں ملی ہوئی تھوڑی سی زمین کے۔ گھر کی روزمرہ ضروریات کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں کے اخراجات پورا کرنے کے لیے اُسی زمین کو وقتاً فوقتاً ٹکڑوں ٹکڑوں میں فروخت کرکے گزارہ چلاتے۔
دوستوں کے دوست اورمحفلوں کی جان ہوتے تھے۔ ملک بھر میں ر فقائے کار کے علاوہ بے شمار مداح اور عقیدت مند تھے جو اُن سے محبت کرتے تھے۔ پارٹی کے مرکزی لیڈر کے طور پر سندھ اور جنوبی پنجاب کے محروم طبقات ان کے ساتھ انتہائی عقیدت ومحبت رکھتے تھے اور ان کے ساتھ چند لمحات گزارنے کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتے تھے۔ صوبہ سندھ کی وادی ’’سانگھڑ‘‘ میں ایک دوست کے ڈیرے پر عوامی ورکرز پارٹی کا لٹریچر دیکھا۔ وہاں کے لوگوں کو فانوس گجر کے ساتھ ہماری رفاقت کا علم ہوا، تو انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ خوب خاطر مدارت کی اور اُن کی اَن تھک جد و جہد کی وجہ سے دیہی سندھ میں پارٹی کی مقبولیت کے متعلق آگاہی بھی دی۔
فانوس گجر کی نمازِ جنازہ میں ملک کے طول وعرض سے آئے لوگوں نے ثابت کیا کہ عوامی لوگوں کے ساتھ عوام بے تحاشا محبت کرتے ہیں۔ ہم نے آپ جیسے بلند حوصلہ، نڈر، سچے، کھرے اور سوچ اور فکر میں بلا کی استقامت رکھنے والے رہنما بہت کم دیکھے ہیں۔ اپنے نام کے مصداق اُن کی زندگی تاریکی سے روشنی تک کے سفر سے عبارت رہی اور اس کٹھن سفر میں وہ کبھی تھکے نہ جھکے۔ کوئی لالچ کی، نہ کسی تعریف و توصیف کے محتاج رہے۔ وہ بات کرتے تھے غریبوں، کسانوں، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی۔ معاشرہ کے محروم طبقات کی۔ مظلوموں کے ساتھ انصاف کی اور یہ باتیں وہ کسی ڈر خوف اور لگی لپٹی بغیر ڈنکے کی چوٹ پر کیا کرتے تھے۔
کھاتے پیتے، اُٹھتے بیٹھتے اور جیتے جاگتے ہر وقت، ہر لمحہ ان کی سوچ کے دھارے بس یہی تک محدود رہتے۔ آپ کی عملی سیاسی جد و جہد چالیس سال پر محیط رہی اور اپنی طویل محنت اور بے لوث خدمت کے طفیل وہ عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی مشر منتخب ہوئے۔
مرحوم جبرواستبداد اور عدم مساوات کی تاریکیوں میں عدل و انصاف اور مساوات کا علم بلند رکھنے کے لیے کوشاں رہے۔ بڑی سادگی سے زندگی گزارتے تھے۔ کبھی نزدیکی دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنی مشکلات کی خبر ہونے دی نہ کسی کے سامنے کوئی شکوہ شکایت ان کے لبوں پہ آئی۔
25 اپریل 1958ء کووادیِ بونیر کی ایک بستی میں آنکھیں کھولنے والے فانوس اُٹھک بیٹھک اور رکھ رکھاؤ میں بڑے جہاں دیدہ اور پُروقارلگتے تھے۔ جہاں بھی جاتے، وہیں اپنائیت کا ایسا اظہار کرتے گویا وہ وہی کے مکین ہوں۔ پیدا تو وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئے، لیکن نام کی گونج پورے ملک میں سنی جاتی تھی۔ وہ پورے ملک میں پختون قوم کی پہچان بنے۔ جو نام و مقام اِس عام آدمی نے مختصر زندگی میں حاصل کیا، ایسا بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ مشر فانوس گجر (مرحوم ومغفور) جیسے مردِ قلندر اب ہم میں نہیں…… لیکن حق و انصاف کا بول بالا رکھنے کے لیے جو دِیا انہوں نے جلایا ہے…… وہ بہت جلد فانوس بن کر اس دھرتی کو منور کرے گا۔ اُمید پر دُنیا قائم ہے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
مَیں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
اللہ تعالا مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبرِجمیل عطا فرمائے، آمین!
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔