کاکاجی صنوبر حسین مومند کہا کرتے تھے کہ ’’نظریاتی اذہان یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی جیت ہوتی ہے یا ہار، وہ تو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اس مقابلہ میں وہ کتنے آگے بڑھے ہیں۔ (1)
سنہ 1917ء میں دنیا کے پہلے سوشلسٹ انقلاب کے دنیا بھر کی قومی تحریکوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ سامراجی ا ور استحصالی قوتوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے حوالے سے سوشلسٹ انقلاب کے براعظم ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور بالخصوص عرب ممالک پر توخصوصی احسانات ہیں۔ مذکورہ بر اعظموں اور دنیا کے دیگر مقبوضہ خطوں میں نئے جذبے سے پیوستہ جد و جہد آزدی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور محکوم اقوام نے ایک نئے جذبے ولولے کے ساتھ علمِ بغاوت بلند کیا۔ اسی تسلسل میں برصغیرِ پاک و ہند میں مختلف اقوام، ہند و، بنگالی، سری لنکن، پشتون، سندھی، سکھ، پنجابی اور بلوچ وغیرہ نے آزادی کی جد و جہد تیز کی۔ برطانوی سامراج کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی جنگ کے عین درمیان خطے میں عدم تشدد کاپرچار شروع کرکے آزادی کی اصل جنگ کوکمزور کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جب پورے خطے میں آباد تمام اقوام ’’برطانوی استعمار کی شکست‘‘ یا قومی آزادی کے حصول کے ون پوائنٹ ایجنڈا پر متفق تھیں، تو عدم تشدد کو متعارف کرانے کے فوراً بعد آزادی کی تحریکوں میں مذہب، قوم، فرقہ اور طبقہ کے نام پر نئے اختلاف سراٹھا نے لگے۔ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے مسلمان اور ہندو کے مابین تفریق و تعصب کی آگ بھڑکائی گئی۔ پہلی مرتبہ وطن کی بجائے مذہبی عقیدے کے نام پر قومیں بننے کاتصور اُبھارا گیا۔ حتی کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی مذہبی نفرت اور انتہاپسندی سے نہیں بچ سکی۔ امن و آشتی کی آڑ میں عوام کے ذہنوں میں عدم تشدد ٹھونسنے سے خوف، لالچ اور ذاتی مفادات برطانوی سامراج کے خلاف جد و جہد آزادی کے اہم قائدین مسلح جد و جہد کے پیکر بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس، حاجی صاحب ترنگ زئی، پشتونخوا وطن کے چی گویرا ’’فقیر آف ایپی‘‘ اور طبقاتی جد و جہد کے سرخیل ’’کاکا جی صنوبر حسین مومند‘‘ کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مختلف قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے۔ قومی آزادی کی جنگ جب عروج پر تھی، تو گاندھی جی نے عدم تشدد غیرمناسب وقت پرپیش کیا جس کامقصد منطقی طور پر مذکورہ بالا شخصیات کی تعلیمات کو بے اثر کرنا تھا۔ عدم تشدد کے پرچار سے انگریز کی بالادستی مزید مستحکم ہوگئی۔ کانگریس کی جانب سے عدم تشدد کو روکنا نہیں تھا بلکہ جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے مخالف اس کی ضد میں پیدا ہونے والے مزاحمت اوربغاوت کو بے اثر کرنا تھا۔ ویسے بھی قومی آزادی کی جنگ کے دوران میں باغیوں اور مزاحمت کاروں سے ہتھیار چھیننے میں جب دشمن کامیاب ہوجاتا ہے، تو باغی اور بغاوت دونوں کو کچل دیے جاتے ہیں۔ حالتِ جنگ میں باغی کے ہتھیار ہی اس کی زندگی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ قومی فریضہ ادا کرنے اوراصل مقصد کے حصول کو سارتر نے مندرجہ ذیل الفاظ میں یوں بیان کیا ہے :
"When the peasant takes a gun in his hands, the old myths grow dim and the prohibitions are one by one forgotten. The rebel’s weapon is the proof of his humanity. (2)
کاکاجی صنوبر حسین فکری طور پر برصغیر پاک و ہند کی اس جدوجہد کا نام ہے جنہوں نے 1857ء کی جنگِ آزادی سے لے کر آزادی کے حصول تک سامراجی اور استحصالی قوتوں کے خلاف مفاہمتوں، مصلحتوں اور سمجھوتوں کو مسترد کرکے کھلی جد و جہد کی راہ اختیار کی اور سیاست میں خاموش رہنے اور غلامی کو قبول کرنے کی روش کو قومی جرم قرار دیا۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ کاجائزہ لیا جائے، تو ہماری سیاسی قیادت مصلحت پسندی اور راست جد و جہد کے دو مختلف خانوں میں بٹی ہوئی نظرآتی ہے۔ کاکا جی صنوبر حسین مومند کا شماردوسری قسم کی مسلح اور غیر مسلح دونوں جد و جہد پر یقین رکھنے والے قائدین میں ہوتا ہے۔ ان کے حریت پسند رہنما سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، کامریڈ دلیپ سنگھ، 1930ء میں پنجاب کے گورنر سر جیفری پر گولی چلانے والے ہر ی کشن اور اس کے بھائی بھگت رام تلواڑ کے ساتھ نہ صرف سیاسی رابطے تھے بلکہ ایک ہی سیاسی تنظیم ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کے پلیٹ فارم سے تاجِ برطانیہ کے خلاف صف آرا تھے۔ کاکا جی صنوبر حسین مومند عدم تشدد کے فلسفہ کے نہ صرف مخالف رہے بلکہ انہوں نے عدم تشدد کو انگریزوں کو تسلط جمانے کا موقع دینے کے متراد ف قرار دیا۔ بالفاظ دیگر عدم تشدد قوموں کی مزاحمت اور بغاوت کی جد و جہد کو کند کرنے کی سازش سمجھتے تھے۔ انہوں نے برہمن راج کاراستہ بنانے کے لیے اسے گاندھی جی کی سیاسی چال بھی قرار دیا۔ کا کاجی نے عدم تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’نامرد فلسفہ‘‘ یعنی عدم تشدد نے انگریزوں کے لیے لوگوں کو زود کوب کرنے، سیاسی لوگوں کے گھر وں میں گھسنے، چادر وچاردیواری کی پامالی کرنے کی راہ ہموارکی۔ یہ ایسا ظلم تھا جو کوئی غیور اور ملی پشتون برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ گاندھی جی کے اس نامرد فلسفہ کے مریدوں کے ہاتھ پاؤں پھر بھی حرکت میں نہیں آئے اور انگریز آزاد نہ ہر قسم کا زور وظلم کرتے تھے۔‘‘ (3)
کاکاجی صنوبر حسین مومند جنوری 1897ء میں پشاور کے قریب ’’کگہ ولہ‘‘ (ٹیڑھی نہر) نامی ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے صنوبر حسین نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر معلمی کے پیشے سے وابستہ ہوگیا۔ برطانوی استعمار کے قبضے تلے سسکتے بلکتے برصغیر کے عوام کی جہدِ آزادی نے انھیں جلد ہی اپنی جانب متوجہ کر لیا جس میں انھوں نے قلم اور بندوق، دونوں سے حصہ لیا۔ 1924ء میں کامریڈ کاکا جی نے ’’زمیندارہ انجمن ‘‘ کے نام سے دیہات سدھار کے مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک تنظیم بنائی اوراگلے سال پشاور میں اپنے ساتھیوں عبدالرحمان ریا اور عبدالعزیز خوش باش کے ساتھ مل کر ’’نوجوانانِ سرحد’‘ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں برصغیر کی آزادی کے عظیم انقلابی شہید کامریڈ بھگت سنگھ، کامریڈ سکھ دیو اور کامریڈ بی کے دت کی قائم کردہ ’’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن‘‘ کے فرنٹ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کے نام سے کام کرنے لگی۔ یہی ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین کا پہلا مستند سیاسی حوالہ ہے۔ دسمبر 1929ء کو لاہور میں اسی ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ اور ’’کیرتی پارٹی‘‘ کے سالانہ اجلاس میں اپنی دھواں دھار تقریر سے عوام کے دل موہ لینے والے کاکاجی صنوبر حسین اپریل 1930ء میں قصہ خوانی بازار کے قتلِ عام کے بعد انگریز سرکار کے ہاتھوں پہلی بارگرفتار ہوئے۔ اس وقت وہ ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ اس حوالے سے حنیف خلیل لکھتے ہیں کہ ’’1930ء کے دوران انگریز حکومت کے خلاف برصغیر کے مختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکیں زوروں پر تھیں۔ پشتونوں کے قبائلی علاقوں میں بھی سیاسی حریت پسندوں نے اپنی جد و جہد تیز کر رکھی تھی۔ وزیرستان میں فقیر ایپی(مرزا علی خان) اور وادیِ پشاور میں حاجی صاحب ترنگزئی، حاجی محمد امین، عبدالغفار خان اور کاکا جی صنوبر حسین نمایاں حریت پسند رہنماؤں میں شامل تھے۔ اسی سال قصہ خوانی پشاور کا خونی واقعہ رونما ہوا جو برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک اَن مٹ باب ہے۔ جب 23 اپریل 1930ء کو انگریز سامراج نے پشتون رہنماؤں کے ایک بڑے جلسے پر گولیاں چلائی تھیں اور کئی لوگوں کو خون میں نہلایا گیا اور کئی کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا۔ کاکا جی صنوبر حسین ان دنوں نوجوان بھارت سبھا کے عمومی سیکریٹری (Secretary General) اور مولانا عبدالرحیم پوپل زئی صدر تھے۔ گرفتاری کے بعد کاکا جی صنوبر حسین کو قلعہ بالاحصار میں رکھا گیا۔ اپنی گرفتاری سے قبل کاکا جی نے انقلابی نظریات کی تشہیر کے لیے ’’سرفروش‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا تھا جس کی ڈکلریشن ضبط کر لی گئی۔چھے ماہ قید کاٹنے کے بعد جب وہ رہا ہوئے، تو پشاور سے اُردو زبان میں نوجوان بھارت سبھا کا اردو، پشتو اور فارسی ترجمان اخبار ’’سیلاب‘‘ کا اجرا کیا۔کاکا جی کی ادارت میں نکلنے والے اس اخبار کے ابھی تین پرچے ہی نکلے تھے کہ ان کے وارنٹِ گرفتاری جاری ہوئے۔ یہ 1931ء کا سال تھا جب وہ گرفتار ی سے بچنے اور برطانوی سامراج کے خلاف جد و جہد جاری رکھنے کے لیے برطانوی راج سے باہر ’’علاقہ غیر‘‘ چلے گئے اور آزادی کے ایک اور عظیم رہنما حاجی صاحب ترنگزئی کے ہمراہ برطانوی سامراج کے خلاف لڑنے لگے۔ اس جد و جہد کے دوران انھوں نے قبائلی علاقے سے ’’شعلہ‘‘ کے نام سے ایک پرچے کا اجرا کیا جس کے متعلق کاکا جی نے لکھا کہ’’جیل سے رہائی ملی، تو ہمیں قبائلی علاقے میں جلاوطنی کی مدت گزارنی پڑی۔ ایک دو سال نہیں پورے 18 سال۔ یہاں ہم نے قبائلیوں کی ترجمانی کے لیے ایک پرچہ ’’شعلہ‘‘ نکالا لیکن دشواری وہی تھی بلکہ اس سے بھی زیاد تھی، نہ ایڈیٹر تھا، نہ کاتب اور نہ پریس۔ ایڈیٹر تو میں تھا ہی،کاتب و پریس مین بھی بننا پڑا۔ مَیں پرچہ مرتب کرتا، اس کی کتابت کرتا، پھر ہینڈ پریس پر خود ہی چھاپتا۔ قبائلی عوام میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ بیدار کرنے اور انھیں جوش دلانے کے لیے مجھے نظمیں بھی لکھنی پڑتیں جو اس پرچے میں شایع ہوتی تھیں۔ برطانوی راج کا سورج غروب ہونے کے بعد کاکا جی صنوبر حسین پشاور واپس آگئے اور یہاں سے اپنے ایک دیرینہ ہمدم اور انگریزی استعمار کے ساتھ ایک مسلح جھڑپ میں شہید ہونے والے تحریکِ آزادی کے مجاہد صاحبزادہ محمد اسلم کی یاد میں ’’اسلم‘‘ کے نام سے پشتو زبان میں ایک خالص ادبی مجلے کا اجرا کیا جسے پشتو صحافت میں ایک سنگِ میل تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسلم کے 16 شمارے ہی نکل سکے تھے۔ اس کا آخری شمارہ اکتوبر 1952ء میں جاری ہوا۔ خود کاکاجی کی وفات کے بعد ان کی یاد میں ان کے نظریاتی ساتھی اور ’’مزدور کسان پارٹی‘‘ کے بانی کامریڈ افضل بنگش نے پشاور سے ’’ صنوبر‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار مجلہ پشتو اور اُردو زبان میں جاری کیا تھا۔ (4)
کاکاجی خیبر پختونخوا میں ترقی پسند ادب کے بانیوں میں سے تھے۔ انھوں نے یہاں پر ’’انجمنِ ترقی پسند مصنفین‘‘ کے قیام میں بھی حصہ لیا اور 1954ء میں اس کے صدر کی حیثیت سے گرفتار بھی ہوئے۔ کیوں کہ حکومت نے پورے ملک میں انجمن پر پابندی لگا دی تھی۔ ان کے ساتھ انجمن کے صوبائی سیکریٹری فارغ بخاری کو بھی گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے مشہورِ زمانہ ادبی اور ثقافتی تنظیم ’’اولسی ادبی جرگہ‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں امیر حمزہ شنواری اور دوست محمد کامل ایڈووکیٹ صاحب نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ان تینوں عالموں اور ادیبوں کی سربراہی میں جرگہ نے لکھنے والے ادیبوں کی فکری رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس انجمن نے پشتو شاعری اور ادب کو ایک نئی جہت د ی۔ کاکا جی کی جادوئی شخصیت نے ہر طبقۂ فکر اور ہر زبان کے شاعروں اور ادیبوں کو ان کی طرف مائل کیا۔ ان کے حلقۂ ارادت میں نسل، مذہب، ذات، رنگ اور سیاسی نظریے سے بالاتر ہر قسم لوگ شامل تھے۔ (5)
آج پشتو ادب میں جو جدید اور ترقی پسند رجحانات موجود ہیں یہ کاکاجی کی شعوری کوششوں کی بدولت ہیں۔ آج پشتو ادب میں انقلاب اور ترقی پسند ی کے حوالے سے جو بڑے بڑے نام نظر آتے ہیں، ان کی تربیت میں کاکا جی کا ہاتھ ہے۔ اور آج پشتو زبان میں تنقیدی اور سماجی شعور سے لیس جو ادب موجود ہے اس کی بنیاد کاکا جی نے رکھی تھی۔ (6)
سید فارغ بخاری صاحب، کاکاجی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کاکاجی سے میری ملاقات جس ڈرامائی انداز سے ہوئی اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ اگر یہ عشق نہیں ہے، تو کیا ہے۔ مَیں نے ان کے کارنامے سنے تھے۔ ان کے انقلابی نظریات سے آگاہ تھا لیکن نہ انہیں دیکھنے کا موقع ملا، نہ ملاقات ہوئی۔ مَیں غائبانہ ان کا فدائی تھا اور ایک عرصے سے انہیں دیکھنے کی شدید تمنا تھی۔ جب ان کی آمد کا پتا چلا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ چوک ناصر خان پشاور میں انہوں نے ماہنامہ اسلم کے دفتر کے لیے ایک بالا خانہ کرائے پر لیا ہے، تو مَیں بڑی بے چینی سے بھاگم بھاگ وہاں پہنچا لیکن دفتر بند تھا۔ دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ مَیں دو دفعہ دفتر گیا اور انہیں نہ پاکر مایوس لوٹا۔ تیسرے دن پھر بھی وہ دفتر میں نہ ملے، تو مَیں نے ان کے گاؤں جانے کا فیصلہ کرکے واپس آیا اور جب بھانہ ماڑی میں اپنی دکان پر پہنچا، تو کاکاجی کو وہاں اپنا منتظر پایا۔ ہم دونوں بغیر کسی تعارف کے یوں تپاک سے ملے جیسے دو بچھڑی ہوئی روحیں آملی ہوں۔ جیسے جنم جنم سے ہمارا ساتھ رہا ہو۔ حالاں کہ ہم زندگی میں پہلی بار ملے تھے اور اس سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ تھا۔ جب مَیں نے ان سے کہا کہ تین دن سے ان کے دفتر کا طواف کر رہا ہوں، تو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی تین دن سے میری دکان کے چکر لگا رہے ہیں اور ہوتا رہا کہ میں اُدھر جاتا اور وہ اِدھر میری طرف آتے رہے۔ اور اس چکر میں تین دن ملاقات نہ ہوسکی۔ کاکاجی کے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ آخر وہ ایسی کیا کشش تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو ملنے سے اجنبیت کے باوجود اس قدر بے قرار تھے۔ مَیں تو خیر ان کی شخصیت، ان کے کردار، ان کی قربانیوں کی وجہ سے ان کا دلدادہ تھا، لیکن میری تو ان کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی، نہ ادبی، نہ سیاسی، نہ علمی، نہ میری کوئی نمایاں قربانی تھی، نہ کوئی نام و مقام تھا۔ مَیں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ غائبانہ طور پر مجھ سے واقف ہوں گے۔ پھر انہیں کیا پڑی تھی کہ مجھے ملنے کے اتنے مشتاق تھے! مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ ذہنی اور نظریاتی رشتوں کی جڑیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ خون کے رشتے بھی ان کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ (7)
احمد ندیم قاسمی جیسے دانشور کاکاجی کے بارے میں کچھ اس طرح اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے: ’’چوں کہ کاکاجی دمے کے مریض ہونے کے علاوہ خاصے کم زور ہوچکے تھے۔ اس علالت،کم زوری اور قید و بند کی مصیبتوں نے آخرِکار ان کو زندگی کی قید سے بھی آزاد کر دیا اور 3 جنوری 1963ء کو اس دارِ فانی سے رحلت کرگئے۔ (8)
گالیلیو کا قول ہے کہ ’’بدنصیبی شعور کی کمی کی وجہ سے آتی ہے۔ گالیلیو کا یہ قول علم و عمل کے جدلیاتی وحدت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی وہ صداقت ہے جس کے معنی و مفہوم کی وسعت و گہرائی کاکاجی صنوبر حسین مومند اچھی طرح جانتے تھے اور اپنے سیاسی شعور اور انقلابی جد و جہد کی بدولت اُن پر گالیلیو کے اس قول کی صداقت ثابت ہوچکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ان کے افکار و نظریات اس صداقت سے عبارت تھے بلکہ وہ اس صداقت کے حسن کو عام کر رہے تھے اور اس حسن کی صداقت کی خاطر جان کی بازی تک لگا دی۔ قول و فعل اور علم و عمل کے اس اتحاد نے انہیں صنوبر حسین سے کاکاجی بنا دیا تھا۔ کاکاجی نے اپنی تمام زندگی اور دانش عوام کے لیے وقف کی تھی۔ انہوں نے عوام کی بدنصیبیوں کو ختم کرنے کی خاطر اپنی خوش بختیوں کو قربان کردیا تھا اور اُن بدبختیوں کو دور کرنے کے لیے اپنے گھر سے دور جَلا وطنی کی زندگی بسر کی۔ اور جب اپنے گھر واپس آئے بھی، تو اپنے بے گھرعوام کے غم میں سرگرداں رہے۔ لیکن اتنی طویل جد و جہد، جیلوں اور مصیبتوں کے باوجود بھی ان کا حوصلہ جواں رہا۔ اپنے نظریے کی صداقت پر ان کا ایمان مضبوط تھا۔ وہ اپنے عمل کی سچائی کے حسن پر عاشق تھے۔ وہ انقلابی عمل کی سرد و گرم فضاؤں سے نکلے ہوئے ایک انقلابی مبارز و نظریہ داں تھے۔ ایک سیاسی مفکر اور منجھے ہوئے سیاست داں تھے۔ ایک بالغ نظر ادیب اور مشفق استاد تھے۔ ایک بہترین نقاد ، باخبر اور باصلاحیت صحافی تھے۔ گالیلیو کے اس فلسفیانہ بلکہ سائنسی قول کہ ’’بدنصیبی شعور کی کمی کی وجہ سے آتی ہے!‘‘ کے پس منظر میں تاریخ کا ایک طولانی سفر موجود ہے اور ایک لحاظ سے اس سفر کی خاصی طویل تاریخ کا بھی سراغ ملتا ہے۔ تاریخ کا یہ سفر اور سفر کی یہ تاریخ ہمارے شعور کا سفر بھی ہے اور ہمارے شعور کی تاریخ بھی، جو ہمیں سفر کا شعور عطا کرتی ہے اور تاریخ کا شعور بھی بخشتی ہے۔ جسے ہم اپنے آئندہ سفر کی روشنی اور اپنے بننے والی تاریخ کی قوت کہہ سکتے ہیں۔ یہ روشنی اور قوت آگے بڑھنے کے عمل اور آئندہ زندگی کو حرارت اور حرکت عطا کرتی ہے۔ کاکاجی حرارت اور حرکت کی سائنس سے آگاہ تھے۔ اور اسی سے انہوں نے فکر و نظر کے لیے روشنی اور جذبہ و عمل کے لیے قوت حاصل کی تھی۔ اسی روشنی اور قوت کا نام شعور ہے جس کی کمی کو گالیلیو بدنصیبی کا سبب سمجھتا ہے۔ اور اسی لیے کاکا جی نے اجتماعی بدبختیوں کے خاتمہ کے لیے اجتماعی شعور پیدا کرنا اور عام کرنا اپنا اولین فریضہ قرار دیا تھا۔ اور عوام میں سماجی شعور پیدا کرنے اور سماجی بدبختیوں کو دور کرنے کے لیے سماجی سائنس کا وسیلہ اور انقلابی نظریے کا ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے سماج سے جو شعور حاصل کیا تھا، اسے عام کرنے کے لیے وہ نہ صرف فکری اور نظریاتی محاذ پر سرگرمِ عمل تھے بلکہ عمل کے میدان میں بھی سب سے آگے تھے۔ ان کی زندگی کی اساس و عکاس ہی ان کی فکر و نظر تھی۔ قول و فعل اور علم و عمل کی اس وحدت نے کاکا جی کی شخصیت میں ایک حسن، کشش اور وقار پیدا کیا تھا۔ ان کی زندگی ایک مردِ میدان کی زندگی تھی جو جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ ان کی اپنے ضمیر، عوام، دھرتی، آزادی اور انقلاب کے ساتھ واضح ’’کومٹ منٹ‘‘ تھی جس پر انہوں نے کبھی سودا بازی نہیں کی۔ کسی کے آگے نہیں جھکے اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ کیوں کہ ان کے سامنے کبھی ذاتی خواہشات اور مفادات نہیں رہے۔ ان کی جنگ ذاتی مفادات کے لیے نہیں تھی۔ کسی کی ذات کے خلاف نہیں تھی۔ کسی فرد کے خلاف نہیں تھی۔ ایک نظام کے خلاف تھی۔ استعماری اور استحصالی قوتوں کے خلاف تھی۔ اپنی دھرتی کی آزادی اور اپنے عوام کے حقوق کی خاطر تھی۔ (9)
٭ تصنیفاتِ کاکاجی صنوبر حسین مومند:
1:۔ مقالاتِ صنوبر۔
2:۔ سوانح عمری حضرت ابوذرغفاریؓ۔ 3:۔ حضرت عمرؓ سوانح و کارنامے۔
4:۔ سفر نامۂ ابن بطوطہ۔
5:۔ گورِ غریباں۔
6:۔ فتنہ الکبری۔
7:۔ رباعیاتِ عمر خیام۔
8:۔ مضمون و انشائیہ (متفرق مضامین اور انشائیے)
9:۔ پشتو صرف و نحو (مقالہ)
10:۔ تاریخِ اسلام۔
11:۔ شاہ ولي اللّٰہ دھلوی کی عمرانیات و معاشیات۔
12:۔ پشتو ادبیات کی تاریخ(مقالہ)
13:۔ شعری مجموعہ۔ (10)
کاکا جی کے ایک ہم عصر ادیب اور صحافی میر مہدی شاہ مہدی ہفت روزہ قیادت کاکا جی نمبر (دسمبر1987ء) کے ادارتی کالم میں لکھتے ہیں کہ ’’صنوبر حسین کاکا جی نے استحصالی نظام کے خاتمے کی جد و جہد میں جوانی اور بڑھاپا مکمل طور پر استحصال ہونے والے طبقوں کا ساتھ دینے میں قربان کر دیا تھا اور اپنی جان، مال، ذہن، علم، قلم اور عمل کے ذریعے اس ظالمانہ نظام کی مخالفت کی تھی۔ اسی لحاظ سے کاکا جی مر نہیں سکتا۔ وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔‘‘
کاکا جی نے اپنی جوانی انگریز سامراج کے خلاف مسلسل جنگ میں اپنے وطن پر نچھاور کی۔ آج کاکا جی جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کے افکار و نظریات زندہ ہیں اور ہماری راہنمائی کر رہے ہیں۔ (11)
حوالہ جات:
1:۔ روزنامہ شہباز: حرف راز، پشتو ادب کے نئے دور کا معمار (سلیم راز بابا) 3جنوری 2020ء
2:۔ برصغیر کی طبقاتی جدوجہد کا فراموش کردار، پائندہ خان خروٹی، 4 فروری 2017ء
3:۔ برصغیر کی طبقاتی جدوجہد کا فراموش کردار، پائندہ خان خروٹی، 4 فروری 2017ء
4:۔ کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین مومند: ایک انقلابی مبارز،مشتاق علی شان، 3 جنوری 2019ء (مکالمہ ڈاٹ کام)
5:۔ روزنامہ ایکسپریس، عظیم انقلابی کاکاجی صنوبر حسین، جمیل مرغز، 26 جنوری 2020ء
6:۔ روزنامہ شہباز: حرف راز، پشتو ادب کے نئے دور کا معمار(سلیم راز بابا) 3 جنوری 2020ء
7:۔ البم، کاکاجی، سید فارغ بخاری، صفحہ نمبر 7
8:۔ ’’جمالیات‘‘ فیس بوک پیج، ڈاکٹر سردار جمال۔
9:۔ روزنامہ شہباز، حرف راز، کاکاجی…… ایک سچا انقلابی، سلیم راز بابا، 2 جنوری 2020ء
10:۔ رباعیات عمر خیام، پشتو ترجمہ، کاکاجی صنوبر حسین مومند، تدوین، حنیف خلیل، صفحہ نمبر 6
11:۔ روزنامہ شہباز: حرف راز، پشتو ادب کے نئے دور کا معمار (سلیم راز بابا) 3 جنوری 2020ء
………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔