مہنگائی کی وجہ کوئی بھی ہو، اس کے بارے میں تو معاشی ماہرین ہی بہتر جانتے ہوں گے…… لیکن ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، تو پاکستان میں لوگوں کو آٹا، چینی، روٹی، مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا روتے دیکھا ہے۔ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ ہمارے ہاں کپڑا بھی پرمٹ پر ملتا تھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ مردوں کو چٹائیوں میں دفنانے پر مجبور ہوئے۔ ہم نے سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب کے دور میں بھی لوگوں کو مہنگائی سے متاثر ہوتے ہوئے دیکھا۔
جب سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے چینی چار آنے (ایک وقت تھا کہ ایک روپے میں سولہ آنے ہوا کرتے تھے) مہنگی کی، تو عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ اگرچہ اُس وقت کوئی سیاسی پارٹی تھی اور نہ کوئی قائدِ حزبِ اختلاف ہی ہوا کرتا تھا۔ چار آنے چینی مہنگی کرنے پر فیلڈ مارشل ایوب خان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے، مگر جاتے جاتے اُنھوں نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردی۔ 5 دسمبر 1970ء کو جنرل یحییٰ خان نے ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کے تحت الیکشن کرائے جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا جب کہ مغربی پاکستان میں اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو مل گیا۔ اُس وقت بھی لوگ مہنگائی کا رونا روتے رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں بھی لوگوں کو آٹا اور چینی دونوں پرمٹ بغیر نہیں ملتے تھے۔ مَیں ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے دورِ اقتدار میں جماعت اسلامی کے احتجاجی جلسے اور جلوس میں شرکت کے لیے مردان گیا تھا، تو اُس وقت بھی جماعتِ اسلامی کے احتجاجی جلوس میں یہ نعرے لگ رہے تھے کہ’’کل بھی آٹا مہنگا تھا، آج بھی آٹا مہنگا ہے!‘‘، ’’کل بھی چینی مہنگی تھی، آج بھی چینی مہنگی ہے‘‘ اور ’’لاٹی، گولی کی سرکار…… نہیں چلے گی، نہیں چلے گی۔‘‘
نواز شریف کے 1997ء کے دورِ اقتدار میں آٹا مہنگا، چینی مہنگی اور کچھ ملتا بھی تھا تو بہت مشکل سے۔ ایک بھائی آٹا اور دوسرا بھائی چینی لینے کے لیے قِطار میں کھڑے رہتے تھے۔ یوں نواز شریف کے حواری دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے تھے۔
اُس کے بعد 2018ء تک جو بھی سیاسی پارٹی حکومت میں آئی، تو اُن کے دورِ اقتدار میں بھی مہنگائی کم نہیں ہوئی…… بلکہ مہنگائی بڑھتی ہی چلی گئی۔ کسی نے بھی مہنگائی کم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ اُس وقت بھی حکومت کی مخالف سیاسی پارٹیاں قیمتوں میں اضافہ کے خلاف جلسے، جلوس اور احتجاج کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافے کو مسترد کردیا کرتے تھے اور کچھ دنوں کے احتجاج کے بعد حزبِ اختلاف کا پارہ نیچے بیٹھ جاتا تھا۔
موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان جب حزبِ اختلاف میں تھے، تو وہ بھی مہنگائی کی وجہ سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ اگر ڈالر ایک روپے بھی مہنگا ہوجائے، تو پاکستان پر قرضوں میں کئی ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب مہنگائی بڑھتی ہے، تو سمجھ لینا کہ حکمران چور ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پر بھی خان کہا کرتے تھے کہ یہ اضافی پیسے حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ افسوس تو اس پر ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی مہنگائی کو روکنے کے لیے کوئی مثبت اقدم نہیں کیا۔ وہ گذشتہ حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دو سال سے جاری کورونا جیسی اُفتاد نے مستحکم معیشتوں سمیت پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ کورونا کے سدباب کے لیے کی گئی اختیاطی تدابیر (ایس اُو پیز) سے عالمی سطح پر غربت، بے روز گاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات سے نمٹنا پاکستان سمیت ہر ملک کے لیے چیلنج تھا۔ چناں چہ پاکستان کو بھی اس تناظر میں اقتصادی بدحالی، روز افزوں مہنگائی، غربت اور مہنگائی کا سامنا ہے۔
یہ بھی مان لیتے ہیں کہ دنیا میں پیٹرول مہنگا ہونے سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے…… لیکن حکمرانو! یہ تو بتائیں کہ روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی اُونچی اُڑان کو روکنے کے لیے کون سے اقدامات کیے گئے ہیں؟
پاکستان سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے ڈالر مہنگا ہونے پر انوکھی منطق پیش کی۔ برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں پاکستان سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روپے کی قیمت گرنے سے سمندر پار پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کو تین ارب ڈالر اضافی ملیں گے۔ اگر کچھ پاکستانیوں کو نقصان ہو رہا ہے، تو ہمیں اُن کے بارے میں سوچنا چاہیے جن کو فائد ہ ہو رہا ہے۔ یہ مہنگائی مصنوعی ہے جلد قابو پالیں گے!
منافع خور مافیا نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس سے اپوزیشن کو چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے کا موقع ہاتھ آیا اور سب دوبارہ منظم ہونے لگے۔ حزبِ اختلاف نے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف ملک گیر عوامی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ 42 ممالک میں مہنگائی کے لحاظ سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ ہم بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کرسکتے۔ حزبِ اقتدار کو مہنگائی کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ عوام حزبِ اختلاف کے دل فریب نعروں میں آکر حکومتِ وقت کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ دینے پر تیار ہو جائیں گے۔
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔