پچھلے دنوں میں نے ’’ای وی ایم‘‘ یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ایک کالم لکھا تھا جس میں، مَیں نے یہ کہا تھا کہ ہمارے ملک میں خالصتاً تکنیکی معاملات کو سیاسی بنایا جاتا ہے اور پھر ان کو اس حد تک متنازعہ بنادیاجاتا ہے کہ وہ منصوبہ عملاً ممکن ہی نہیں رہتا۔ مثلا نئے انتظامی یونٹ، سڑکیں، ڈیم وغیرہ۔
اس پر میرے ایک سندھ کے دوست نے مجھے ایک واٹس اَپ میسج کیا کہ جو میری غلطی کہہ لیں…… لیکن میں کچھ مصروفیت کی وجہ نہ دیکھ سکا۔ سو، تاخیر سے دیکھنے کی وجہ سے اس پر کچھ تحریر کرنے کی کوشش ابھی کی۔
میرے دوست کا خیال ہے کہ مَیں اس آڑ میں کالا باغ ڈیم اور سندھ کی تقسیم کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو سراسر سندھ دشمنی ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ ان دونوں مسائل پر سندھ کے عوام کو بہت جذباتی بنا دیا گیا ہے۔ حالاں کہ یہ دونوں معاملات خالصتاً تکنیکی ہیں اور مَیں ثابت کرسکتا ہوں کہ ان دونوں اقدامات کا براہِ راست فائدہ سندھ کے عوام کا ہے۔ لیکن چوں کہ انتظامی یونٹ بنانے میں اس حد تک سیاسی گند ہوتا ہے کہ اگر کہیں ضلع یا تحصیل بنانے کی بات ہو، تو وہاں سے چند مفاد پرست چیخ پڑھتے ہیں کہ فلاں ضلع یا تحصیل توڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی……! تو وہاں کسی صوبہ کی تشکیل کتنی مشکل ہوگی؟ یہ سمجھنا بہت آسان ہے۔
ویسے اگر مجھ سے مشورہ لیا جائے، تو میں پنجاب میں چار، خیبر پختوان خوا میں تین جب کہ سندھ اور بلوچستان میں مزید دو دو صوبوں کا اجرا کرنے کی سفارش کروں۔ کیوں کہ انتظامی یونٹ جتنا چھوٹا ہوتا ہے، عوام کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ اختیارات تک عام شخص کی رسائی اتنی ہی آسان ہوتی ہے۔ اب ایک شخص اٹک یا صادق آباد سے لاہور آکر کام کروائے، وہ صحیح ہے؟ یا اٹک والے کو راولپنڈی، صادق آباد والے کو ملتان، خوشاب والے کو سرگودہا میں یہی سہولت مل جائے، تو وہ بہتر ہے؟ یہی معاملہ دوسرے صوبوں کا ہے، لیکن کیا کریں……! ان مفاد پرست سیاست دانوں کا کہ جو اپنے وقتی مفادات واسطے عوام کو گمراہ کرتے ہیں…… اور کیا کریں امیر المومنین حضرت ضیاء الحق کا کہ جو یہ زہر سے لبریز پھل پھول لگا گئے۔
اب مثال کے طور پر آپ کالا باغ ڈیم ہی کو لے لیں۔ اس میں اگر براہِ راست کوئی متاثر ہوسکتا ہے، تو وہ خیبر پختون خوا ہے۔ یہ نوشہرہ کو براہِ راست متاثر کرتا ہے…… لیکن اس کی اِفادیت کے پیشِ نظر اس کا بھی حل نکالا جاسکتا ہے۔ مثلاً اس کے ابتدائی ڈیزائن میں ممکنہ طور پر آپ ایسی تبدیلیاں کریں کہ جس سے عام عوام کم سے کم متاثر ہوں۔ پھر بھی جو لوگ متاثر ہو سکتے ہیں، ان کا مکمل غیر جانب داری سے سروے کیا جائے اور ان کو اس کے متبادل نہ صرف جگہ و مکان کے بدلے جگہ و مکان دیے جائیں…… بلکہ ان کو معقول معاشی پیکیج دیا جائے، تو وہ بخوشی یہ جگہ خالی کر سکتے ہیں۔
بہرحال یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے اور اس کو حل کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن سندھ کا تو اس میں رتی بھر نقصان نہیں…… بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ افسوس اس سیاست کی غلاظت نے سندھ کے عوام کے دماغوں میں اس حد تک نفرت بھر دی ہے کہ مجھے یاد ہے کہ مشرف دور میں ایک وفاقی وزیر نے ایک نجی محفل میں کہا تھا کہ اصولاً کالا باغ ڈیم کا ہمیں فائدہ ہے…… لیکن سندھ کے عوام میں اس بارے اتنی زیادہ بدگمانی پیدا کر دی گئی ہے کہ اگر ہم اس کی جزوی حمایت بھی کریں، تو خود ہمارے گھر والے ہمارے مخالف ہو جاتے ہیں۔
آخر یہ حالات کیوں بنے؟ دعا دو جنرل محمد ضیاء الحق کو کہ جس نے بہت تکنیک سے ایک ایسا منصوبہ کہ جو بنا ہی ایک سندھی وزیر اعظم مطلب ذوالفقار علی بھٹو دور میں تھا، اس کو متنازعہ بنوا دیا محض سیاسی مفادات کے لیے۔ پھر اس پر بعد کے دونوں سندھی وزیراعظم یعنی محمد خان جونیجو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش بھی کی، مگر معاملہ حل نہ ہوا۔
میری اطلاع کے مطابق جب محترمہ کے دوسرے دور میں غلام مصطفی کھر وزیرِ بجلی و پانی تھے، تو اس پر بہت زیادہ پیش رفت ہوئی تھی، لیکن چوں کہ اس کے بعد محترمہ کی حکومت توڑ دی گئی، سو یہ معاملہ پھر کھٹائی میں چلا گیا۔ گو کہ جنرل مشرف دور میں اس پر پھر بہت کوشش ہوئی لیکن ہوا کچھ نہیں۔
اب دیکھیں ان مفاد پرست عناصر نے سندھ کے عوام کو بالخصوص اور بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے عوام کو بالعموم کیا تاثر دیا ہے! وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک مقررہ مقدار کے مطابق پانی سمندر میں نہ گرے، تو سمندر میں موجود آبی حیاتیات خصوصاً مچھلیاں مر جاتی ہیں۔ دوسرا وہ کہتے ہیں کہ اگر میٹھا پانی سمندر میں نے آئے، تو پھر سمندر کے کٹاؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ساحلِ سمندر کے قریب زرخیز زرعی زمینوں تک پھیل جاتا ہے۔ ہماری قیمتی مفید زمینیں سمندر برد ہو جانے کا خطرہ ہے۔
اس طرح یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے کی صورت میں چوں کہ پانی اوپر ذخیرہ ہو جائے گا، اس وجہ سے میٹھے پانی کی ایک مقررہ مقدار کا اس میں شامل ہونا ممکن نہ ہوگا۔
تیسرا ان کا سب سے بڑا اور موثر ترین بیانیہ یہ ہے کہ جب اوپر ڈیم بن جائے گا، تو پھر اس سے اخراج شدہ پانی چوں کہ پورے پنجاب سے سفر کر کے گدو بیراج تک آتا ہے، اس وجہ سے راستے میں پنجاب نہریں بنا کر اس پانی کو چوری کر سکتا ہے، جس کے نتیجہ میں سندھ کی زمین بنجر اور ویران ہو جائے گی۔
اب کیا کوئی صاحبِ عقل شخصیت ان انتہائی بچکانہ تاویلات کو مان سکتا ہے؟ میری ساری زندگی شرق الوسط میں گزری۔ ان سے کوئی پوچھے کہ پوری شرق الوسط جدہ، یمبو، دمام، دوبئی، قطر وغیرہ اور ان کے علاوہ آسٹریلیا اور افریقہ کے اکثر کوسٹل علاقوں میں کون سے دریا گرتے ہیں…… وہاں کتنا کٹاؤ ہو رہا ہے؟ جب کہ وہاں زمینیں بھی نسبتاً نرم اور ریتلی ہیں۔ وہاں کتنی آبی حیاتیات مری ہیں؟
دوسرا ان کا یہ بیانہ بالکل بوگس ہے کہ اوپر پانی کا ذخیرہ ہونے سے نیچے پانی کا بہاؤ کم ہو سکتا ہے، یا کیا جا سکتا ہے۔ پہلے کوئی ان سے پوچھے کہ تربیلا، منگلا حتی کہ غازی بھروتھہ، بھاشا یا منڈا ڈیم کیا نواب شاہ یا خیر پور میں ہیں؟ اور اگر پنجاب نے پانی روکنا ہی ہے، تو دریائے سندھ وہی سے تو آتا ہے۔ اب تک کتنا روکا گیا؟حالاں کہ ان بد بخت سندھ کے عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ جب کالا باغ ڈیم بنے گا، تو اس کے سندھ کے عوام کو دو براہِ راست فائدے ہوں گے۔ ایک تو پانی کا ذخیرہ خود بخود بڑھ جائے گا اور اسی اوسط سے پانی کا اخراج بھی ہوگا۔ مطلب پانی کی مقدار جب بڑھ جائے گی، تو ظاہر ہے کہ پھر پانی کی تقسیم میں اضافہ ہوگا اور سندھ کا حصہ خود ہی بڑھ جائے گا۔ پھر سمندر میں پانی بھی زیادہ جائے گا۔
دوسرا جو تقریباً ہر سال سیلاب کی وجہ سے لاکھوں کیوسک پانی نہ صرف ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ تباہی و بربادی بھی لاتا ہے، اس میں بھی بہت موثر رکاوٹ ہو جائے گی۔ کیوں کہ اوپر کے اکثر ندی نالے براہِ راست سندھ اور کابل نامی دریاؤں میں گرتے ہیں، جس سے پانی کی مقدار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کو تربیلا و منگلا میں ذخیرہ کرنا ممکن نہیں رہتا اور سپل وے کھولنے پڑتے ہیں…… جس سے سیلاب بلکہ کبھی تو تقریباً سونامی آجاتا ہے۔ پانی ضائع تو ہوتا ہی ہے…… لیکن اس کے ساتھ ہمارے گھر کھڑی فصلیں مال مویشی بلکہ قیمتی انسانی جانوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔
اب آپ میری گذارشات پر غور کریں اور نیک نیتی و دیانت داری سے غور کریں، تو آپ کو یہ بات یقینا سمجھ آئے گی کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے زیادہ فائدہ سندھ کو ہونا ہے، لیکن بدقسمتی سے محض چند مفروضوں کی بنیاد پر اس کے خلاف نفرت بھی سب سے زیادہ سندھ کے عوام میں پھیلائی جا رہی ہے اور جتنا سندھ کو اس کا فائدہ ہونا ہے، اس سے کئی درجہ زیادہ سندھ میں اس کی مخالفت پیدا کی جا رہی ہے۔ سو میں ملک کے دانش ور طبقہ خاص کر سندھ کی سول سوسائٹی سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ مجھ جاہل پر یقین نہ کریں…… لیکن سندھ کی تعلیم یافتہ اور مخلص کلاس کو بولیں کہ وہ اس پر بحث کریں۔ ہر پہلو کا جائزہ لیں۔ اس کے حمایتی اور مخالفین کو اپنی بات رکھنے کا مکمل موقع دیں اور پھر کوئی حتمی فیصلہ کریں جو یقینا سندھ کے عوام کے لیے سود مند ہوگا۔ لیکن محض چند مفادات کے اسیر نام نہاد قوم پرستوں کی الٹی سیدھی باتوں میں آکر آپ نے اگر اپنی معصومیت میں اس کی مخالفت جاری رکھی، تو آپ نہ صرف پورے ملک کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں گے بلکہ اس کا کثیر نقصان بذات خود سندھ اور سندھ کی عوام ہے ۔
یہاں ہم ان نام نہاد قوم پرست عناصر سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ قوم پرستی کا مطلب ہوتا ہے قوم کے مفادات کا تحفظ…… نہ کہ نفرت کی تجارت اور اس وجہ سے اپنی قوم کا نقصان۔ حقیقت یہی ہے۔ باقی ہم تو اذان ہی دے سکتے ہیں۔ جو دے رہے ہیں۔ آپ مانیں نہ مانیں…… مرضی ہے جناب کی!
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔