پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بنیادی کردار ادا کرنے والے نامورجوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں یوسف زئی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کرنے کے بعد اعلا تعلیم کے حصول کے لیے یورپ تشریف لے گئے۔ 15 برس قیام کے دوران میں مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بلجیم کی یونیورسٹی آف لیوین سے تعلیم حاصل کی۔ 1972ء میں جب انڈیا نے ایٹمی ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا، تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے 1974ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کودو خطوط ارسال کیے، جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں 1976ء میں واپس پاکستان بلایا۔ 31 مئی 1976ء کو ’’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا نام یکم مئی 1981ء میں فوجی آمر صدر جنرل ضیاالحق نے تبدیل کر ک ’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک اس پروگرام کے سربراہ رہے، تاہم مئی 1998ء میں جب پاکستان نے بلوچستان میں چاغی کے پہاڑوں میں انڈیا کے ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب جوہری تجربہ کیا، اس کی نگرانی کا سہرا ان کے بجائے ’’پاکستان اٹامک انرجی‘‘ کے نامور جوہری سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے سر رہا۔
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا، لیکن ہالینڈ، بلجیم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لے کرعدالت میں بیان دیا، جس پر ہالینڈ کی عدالت نے ان کو باعزت بری کر دیا۔
ڈاکٹر قدیر خان کو دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔ پہلے چودہ اگست 1996 ء کو صدر فاروق لغاری پھر 1998ء کے جوہری دھماکوں کے بعد اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے اس اعزاز سے نوازا۔ اس سے قبل 1989ء میں انھیں ہلالِ امتیاز بھی دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بطورِ چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا تھا، تاہم سابق امریکی صدر جارج ڈبیلو بش انتظامیہ کی جانب سے 2003ء میں ان پر دیگر ممالک کوجوہری ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے الزامات عائد کیے جس پرانہوں نے آمر مشرف کے دور میں ہی سرکاری ٹی وی پرالزامات تسلیم کیے جس کے بعد 2004ء میں انھیں معافی دینے کے بعد ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیا گیا تھا۔ یہ نظربندی پانچ برس جاری رہی تھی اور اس کا خاتمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ہوا تھا، تاہم نظربندی کے خاتمے کے باوجود ان کی نقل و حمل محدود کر دی گئی تھی۔ انھوں نے آزادانہ گھومنے پھرنے کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا تھا، تاہم ان کی وفات تک اس بارے میں کوئی فیصلے نہیں ہو سکا تھا۔
2008ء میں بی بی سی کوایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وقت آنے پر وہ یہ انکشاف کر دیں گے کہ انھوں نے جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا اعتراف کیوں کیا تھا؟ بعد ازاں انہوں جواب دیا: ’’الزام ایک آدمی پر ڈال دیں، تو ملک بچ جاتا ہے۔ بات ملک پر سے ہٹ جاتی ہے۔ اس وقت ایک آدمی کے اعتراف سے پورے پاکستان کا فائدہ ہو رہا تھا۔‘‘
ڈاکٹر اے کیو خان گذشتہ سال 26 اگست کو کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے، جس کے بعدان کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی اور انھیں ’’کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال‘‘ میں داخل کیا گیا تھا، تاہم کچھ روز بعد ان کی طبیعت سنبھلنے پر واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تب سے ان کی طبیعت اطمینان بخش نہیں تھی۔
رواں سال ستمبر میں ان کی طبیعت بگڑنے کی اطلاعات میڈیا پر زیرِ گردش رہیں، تاہم انہوں نے 11 ستمبر کو میڈیا کو جاری کردہ ویڈیو میں بتایا تھا کہ وہ صحت یاب ہوچکے ہیں، تاہم 9 اکتوبر کو ان کی حالت خراب ہونے پر انھیں اسلام آباد کے اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ جاں بر نہ ہو سکے اور85سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر خان کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے قومی پرچم سر نگوں کرنے کا اعلان کیا گیا اورپاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے انہیں قومی ہیرو قرار دے کر افسوس کا اظہار کیا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تمام سروسز چیف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر فیصل مسجد کے احاطے میں لایا گیا، جہاں ان کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد انھیں ایچ ایٹ کے قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کردیاگیا۔
انتہائی افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ وطن کے اس عظیم قومی ہیروکے ساتھ ہم نے وہ سلوک نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے، جس کا سخت الفاظ میں شکوہ انہوں نے کئی انٹرویوز میں کیا۔ اپنی موت سے چند ماہ پہلے وزیرِاعلا سندھ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں بھی کہا کہ ان کی بیماری پر وزیراعظم، صدر سمیت تینوں صوبوں کے وزرائے اعلا کو میری یاد تک نہ آئی۔
انتہائی افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ وطن کے اس عظیم قومی ہیروکے ساتھ ہم نے وہ سلوک نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے، جس کا سخت الفاظ میں شکوہ انہوں نے کئی انٹرویوز میں کیا۔ اپنی موت سے چند ماہ پہلے وزیرِاعلا سندھ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں بھی کہا کہ ان کی بیماری پر وزیراعظم، صدر سمیت تینوں صوبوں کے وزرائے اعلا کو میری یاد تک نہ آئی۔
قارئین، اپنے اس قومی ہیرو کے ساتھ یہ رویہ ہم نے اس کی موت کے بعدبھی روا رکھا کہ ان کی آخری رسومات میں سندھ کے وزیرِ اعلا کے سوا پاکستان کی کسی بھی اعلا سول اور عسکری ذمہ دار شخصیت نے شرکت کرنا گوارہ نہ کیا، جس پر جتنا افسوس کیا جائے، کم ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ساتھ مرنے کے بعد بھی روا رکھے جانے والے اس رویے کی شکایت تو نہیں کرسکتے، لیکن ہر محب وطن پاکستانی تو اس شکوے کی گستاخی کرسکتا ہے کہ زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو اس طرح تو رخصت نہیں کرتیں……!
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔